قبرستان اور شمشان کی سیاست فرقہ پرستانہ ایجنڈہ سے وزارت عظمی کا وقار داؤ پر

خلیل قادری
انتخابات کا موسم ہر ایک کا حقیقی چہرہ بے نقاب کردیتا ہے ۔ یہ ایسا موقع ہوتا ہے جب سیاسی قائدین پر صرف اور صرف ووٹ حاصل کرنے کا بھوت سوار ہوتا ہے ۔ وہ اس کیلئے کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب محض ووٹ حاصل کرنے کیلئے اقدار اور اخلاقیات اور عہدوں کا وقار داؤ پر لگا دیا گیا ۔ اب بھی اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کیلئے جو مہم چلائی جا رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور قائدین نے اسے اپنے مستقبل سے جوڑ کر دیکھنا شروع کردیا ہے ۔ وہ اپنے ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے ملک کے جلیل القدر اور دستوری عہدوں کا وقار تک متاثرکرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ اس ہندوستان جیسے وسیع و عریض اور جمہوری ملک کے وزیر اعظم خود سماج میں تفرقہ اور نفرت پیدا کرنے جیسی تقاریر کرنے پر اتر آئے ہیں۔ سماج کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور ملک کو متحد اور مستحکم کرنے کی جن پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہی محض ووٹوں کی خاطر اور سیاسی اقتدار کیلئے اس ملک کی اقدار کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور تمام اصولوں کو پامال کیا جا رہا ہے اور کسی ترقیاتی منصوبے یا پروگرام و اسکیم کی بجائے اس کیلئے نفرت کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ سماج کے دو بڑے طبقات کے مابین نفرتوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور ان میں خلیج کو اور بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی جا رہی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران کہا جانے والا ایک ایک لفظ معنی اور اہمیت رکھتا ہے اور اس کے دور رس اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے سماج پر مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات ہوسکتے ہیں ۔ ایسے میں اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ سماج کو مثبت نظریات سے کس طرح سے مستحکم کیا جائے لیکن عمل اس کے الٹ ہو رہا ہے اور حیرت کی انتہاء یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم دو بڑے فرقوں کے مابین دوریوں کو مزید بڑھانے کیلئے اپنی تقاریر کے ذریعہ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں۔

ویسے تو نریند مودی ایک اچھے مقرر کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میںلوگ انہیں ایک اچھا مقرر مانتے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کی تقریری صلاحیتوں کے کسی نہ کسی انداز میں معترف ضرور ہیں لیکن جس وقت نریندر مودی اترپردیش کے فتح پور میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے انہوں نے ایسے جملے کہے جو ان کے قد کو گھٹانے کا موجب بن گئے ہیں۔ اس وقت قطعی یہ احساس نہیں ہو رہا تھا کہ وہ ہندوستان جیسے وسیع اور دنیا کی ایک بڑی جمہوریت پر عمل کرنے والے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ وہ کسی کارپوریشن کے انتخاب میں کسی گلے کے نکڑ پر کھڑے ہوکر قبرستان اور شمشان کا ذکر کرتے ہوئے ووٹ مانگنے والے ایک معمولی لیڈر ہی نظر آرہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی گاوں میں قبرستان بنتا ہے تو وہاں شمشان بھی بننا چاہئے ۔ اگر رمضان میں بجلی آتی ہے تو دیوالی پر بھی بجلی آنی چاہئے ۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں کس نے شمشان بنانے کی مخالفت کی ہے ؟ ۔ ایک ملک کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے نریندر مودی پر یہ ذمہ داری دستوری طور پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیانات کی تائید میں کوئی ثبوت پیش کریں ۔ لیکن وہ کوئی ثبوت پیش کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ کیا سارے ملک میں ایک بھی مثال ایسی بتائی جاسکتی ہے کہ رمضان میں تو بجلی سربراہ کی گئی لیکن دیپاولی میں نہیں دی گئی ؟ ۔ کیا ایک گاوں بھی ایسا بتایا جاسکتا ہے کہ جہاں قبرستان کیلئے تو جگہ چھوڑ دی گئی ہے لیکن وہاں شمشان کا کوئی وجود نہیں ہے ؟ ۔ کیا ایک بھی ایسی مثال دی جاسکتی ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کے سات دہوں میں کسی وزیر اعظم نے اس سطح پر اتر کر انتخابی مہم میں نفرت کی سیاست کو فروغ دیا ہو ؟ ۔ کیا ملک کے کسی وزیر اعظم نے سماج کے دو طبقات کے مابین خلیج کو پاٹنے کی بجائے ان میں دوریاں بڑھانے جیسا کوئی کام کیا ہو ؟ ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ۔ انتخابی مہم میں رائے دہندوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے ان سے ووٹ مانگنا ہر ایک کا حق ہے ۔ دستور نے یہ حق دیا ہے لیکن یہ حق ہندوستان کے وزیر اعظم کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ سماج میں نفرت کو پروان چڑھائے ۔ یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ دو طبقات میں منافرت پیدا کرتے ہوئے اپنی سیاسی دوکان کو چمکانے کی کوشش کرے ۔

ہندوستان کے اقتدار پر فائز ہونے کیلئے سب کا ساتھ اور سب کا وکاس جیسا نعرہ دینے والے نریندر مودی کو یہ بتانا چاہئے کہ قبرستان اور شمشان کا ملک کی ترقی سے کیا تعلق ہے ؟ ۔ بات در اصل یہ ہے کہ بی جے پی اترپردیش میں کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کے پاس چونکہ عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے نریندر مودی کے سوا کوئی اور چہرہ نہیں رہ گیا ہے اس لئے انہیں اترپردیش کی انتخابی مہم میں جھونک دیا گیا ہے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی جا رہی ہے کہ انتخابی مہم کا معیار کیا ہونا چاہئے ۔ ملک کی سیاست میں اخلاقیات اور اقدار کو پروان چڑھانے کی باتیں کرنے والے انہیں اخلاقیات اور اقدار کی دھجیاں اڑانے لگے ہیں۔ یہ سب کچھ محض اس لئے ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی سمت پیشرفت ہوسکے ۔ آر ایس ایس کے نفرت پر مبنی نظریات کو عملی شکل دی جاسکے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس ملک پر صدیوں تک حکومت کرنے والے مسلمانوں کو آزادی کے بعد سات دہوں میں مفلوک الحال بناکر رکھ دیا گیا ہے ۔ انہیں نہ تعلیم کے میدان میں مساوی حقوق دئے جا رہے ہیں اور نہ ملازمتوں میں ان سے انصاف کیا جا رہا ہے ۔ ترقی کے ثمرات سے انہیں محروم کیا جا رہا ہے ۔ انہیں عملا دوسرے درجہ کا شہری بناکر رکھ دیا گیا ہے اور اب تو بعض گوشے ایک مقررہ وقت میں ہندوستان سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ان عناصر کی سرکوبی کرنے اور ان کے خلاف زبان کھولنے کی بجائے نریندر مودی قبرستان اور شمشان کی سیاست پر اتر  آئے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کی انتخابی ضرورت ہو ۔ آر ایس ایس کے نظریات کو لاگو کرنے کا جز و لازم ہو لیکن یہ حقیقت ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس طرح کے طرز عمل سے ملک کے جلیل القدر اور دستوری عہدہ کا وقار مجروح ہوا ہے ۔ ہندوستان کی جمہوریت کی ساری دنیا میں مثالیں دی جاتی ہیں۔ اسے دنیا کی بڑی جمہوریت قرار دیا جاتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس جمہوریت کی نگہبانی اور پاسبانی کرنے کے ذمہ دار ہی اس کا وقار متاثر کرنے پر اتر آئے ہیں۔ جمہوری اصولوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور محض چند ووٹوں کی خاطر ہندووں کو الگ خانے میں رکھا گیا ہے اور مسلمانوں کیلئے الگ جگہ بنادی جا رہی ہے ۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا ملک ایسا گلدستہ ہے جس میں ہر طرح کے پھول ہیں۔ یہاں بے شمار مذاہب کے ماننے والے کئی زبانیں بولنے والے رہتے بستے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ اسی گلدستہ سے مزین ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ اس گلستان کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش اس کی پاسبانی کے ذمہ دار ہی کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کو یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اب صرف ایک آر ایس ایس پرچارک نہیں ‘ صرف بی جے پی کے ایک لیڈر نہیں بلکہ ہندوستان جیسے عظیم ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اس عہدہ کا وقار ہے ۔ اس کے کچھ تقاضے ہیں اور ان تقاضوں کا خیال رکھنا ان کی اولین ذمہ داری ہے ۔ سیاسی فائدہ یا ووٹوں کی خاطر سماج میں نفرت پھیلانا ان کے عہدہ کے شایان شان نہیں ہے اور اس سے ملک کی خدمت نہیں بلکہ بدخدمتی ہوگی ۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا صرف زبانی دعوی کردینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اور نریندرمودی نے اپنے اقتدار کے ڈھائی سال میں اس کی ایک بھی مثال پیش نہیں کی ہے ۔