قادیانیت سے تائب ہوکر مسلمان ہونا اور اعمال کا حبط ہونا

سوال : ایک شخص پیدائشی مسلمان تھا، اسکو دین سے لگاؤ تھا ، اتفاقاً اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوگئی جو مرزا غلام احمد قادیان کی جماعت کا سرگرم کارکن تھا ، اس نے اس نوجوان کو دھیرے دھیرے اپنے قریب کیا، بالآخر اس کو اپنے جال میں پھنسالیا اور وہ نوجوان جو گاہے گاہے نماز پڑھتا تھا …… مسلمانوں کی مسجد میں آنا چھوڑ دیا اور قادیانیوں کی مسجد کو جانا شروع کردیا ، اس کے والدین اور بھائیوں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بالکل نہیں مانا بلکہ اپنے افراد خاندان کو سمجھانے لگا کہ مرزا غلام احمد قادیان دین اسلام کی تجدید اور احیاء کیلئے آئے ہیں۔ بہرحال افراد خاندان نے اس کا بائیکاٹ کیا ۔ ماں باپ ، بھائی بہنوں نے رشتہ ناطہ توڑلیا جس کا بہت برا اثر لڑکے پر ہوا اور وہ چند ہی دن میں تائب ہوگیا ، اپنے گھر واپس ہوا ، تجدید ایمان کیا اور آئندہ بری صحبتوں میں نہ رہنے کا عہد کیا۔
اب آپ سے سوال یہ ہے کہ اس کے مرتد ہوجانے کی وجہ سے تو اس کے نیک اعمال نماز ، روزہ اور جو کچھ بھی کارخیر اس نے کیا تھا وہ سب ضائع ہوگئے لیکن کیا وہ دوبارہ مسلمان ہوا اور صدق دل سے توبہ کرلیا ہے تو اس کے نیک اعمال جو اس نے بچپن سے کیا ہے اس کا ثواب اس کو ملے گا یا نہیں ؟
سید امتیاز علی ، چوک
جواب : ارتدادکی وجہ سے تمام اعمال خیر اکارت ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ وھو فی الآخرۃ من الخسرین ۔
ترجمہ : جو شخص ایمان کا انکار کرے (ایمان کے بعد کفر کے) پس یقیناً اس کا عمل رائیگاں گیا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا( سورہ المائدۃ 5/5 )
اور جو شخص مرتد ہوجائے اور اسی ارتداد پر اس کی موت واقع ہوتو اس کے سارے اعمال دین اور دنیا ، حبط ہوجاتے ہیں اور وہ آخرت میں ہمیشہ کیلئے دوزخ میں رہے گا ۔ لقولہ تعالیٰ : ومن یرتدد منکم عن دینہ فیمت وھو کافر فا ولئک حبطت اعمالھم فی الدنیا والآخرۃ و اولئک و اصحاب النارھم فیھا خلدون (سورۃ البقرۃ 217/2 )
اس آیت شریفہ میں ارتداد اور اس پر موت واقع ہونے پر دو سزاؤں کا ذکر کیا گیا ۔ اعمال کا حبط ہونا (2) دوزخ میں ہمیشہ رہنا
فقہاء کرام نے صراحت کی ہے کہ اعمال کا حبط ہونا ، ارتداد کی سزا ہے اور اسی پر موت واقع ہونے سے وہ دوزخ میں ہمیشہ کے لئے رہے گا۔
پس مرتد دوبارہ اسلام قبول کرلے تو اس کو اسلام کی طرف رجوع ہونے کا جدید ثواب تو ملے گا لیکن ارتداد کی وجہ سے جو اعمال وطاعات ضائع ہوئے ہیں وہ لوٹ کر نہیں آئیں گے ۔ ردالمحتار جلد دوم کتاب الاصلاۃ مطلب : اذا سلم المرتد ھل تعود حسناتہ ام الا میں ہے : مقتضی کون حبط العمل فی الدنیا والآخرۃ جزاء الردۃ و ان لم یمت علیھا عندنا انہ لو أسلم لا تود حسناتہ … و نحن نقول انہ لا یعود ما بطل من ثوابہ ولکن تعود طاعتہ المتقدمۃ مؤثرۃ فی الثواب بعد اھ ولعل معنی کو نھا مؤترۃ فی الثواب بعد ان اللہ تعالیٰ یثیبہ علیھا ثوابا جدیدا بعد رجعتہ الی الاسلام غیر الثواب الذی بطل ۔ پس جس شخص کی قادیانیت سے تائب ہوکر دوبارہ مسلمان ہوا ہے اس کے سابقہ سارے اعمال ضائع ہوگئے۔تجدید ایمان کا اسکو ثواب ملے گا۔

ماں کی خدمت اور باجماعت نماز
سوال : میں پچیس سال سعودی عرب میں رہا، بروقت نماز جماعت سے ہوا کرتی تھی۔ اب میں دو سال قبل حیدرآباد واپس آگیا ہوں۔ میرے سارے بچے بیرون ممالک ہیں۔ میں اور میری ماں گھرمیں رہتے ہیں ۔ تقریباً ایک ماہ سے میری ماں کی طبیعت شدید ناساز ہے ۔ اور کب حالت بگڑ جائے پتہ نہیں۔ اس لئے میں مسجد گھر کے قریب رکھتے ہوئے بھی نہیں جا پارہا ہوں۔حتی کہ نماز مغرب بھی مجھے اپنے ہی گھرمیں ادا کرنا پڑ رہا ہے ۔ دل کو کوفت ہورہی ہے ۔شرعی مسئلہ بیان فرمائیں تو مہربانی ہوگی ؟
مزمل احمد، مانصاحب ٹینک
جواب : جماعت سے نماز ادا کرنا سنت موکدہ ہے اور عام مشائخ نے جماعت کو واجب قرار دیا ہے تاہم معقول عذر ہو تو جماعت کا لزوم ساقط ہوجاتا ہے اور معقول اعذار میں سے ایک عذر تیمارداری بھی ہے ۔ چنانچہ عالمگیری جلد اول ص : 82 ، 83 میں ہے : الجماعۃ سنۃ موکدۃ … وفی الغایۃ قال عامۃ عشائخنا انھا واجبۃ … و تسقط الجماعۃ بالاعذار … و تسقط بالریح … أو کان قیما للمریض ۔
پس صورت مسئول عنہا میں حسب صراحت سوال آپ کی ماں کی تیمارداری کے لئے آپ کے علاوہ کوئی نہیں اور آپ کا وقت نماز کی حد تک بھی ان سے جدا ہونا کسی مشکل کا سبب بن سکتاہے تو ایسی صورت میں جماعت کا وجوب ساقط ہوجائے گا۔ آپ تنہا اپنے گھر میں نماز ادا کرسکتے ہیں۔ ترکِ جماعت کا مؤاخذہ نہیں ہوگا۔

اقامت کے وقت کب کھڑا ہونا چاہئے
سوال : اقامت کے وقت امام اور مقتدیوں کو کب کھڑے ہونا چاہئے ۔ بعض امام اقامت شروع ہوتے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں تو ان کے ساتھ بعض مصلی بھی کھڑے ہوجاتے ہیں اور بعض بیٹھے رہتے ہیں اور ’’ حی علی الصلوۃ‘‘ پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ شرعی طریقہ بیان فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
محمد عبدالغفار، بورہ بنڈہ
جواب : اقامت شروع ہونے سے قبل اگر امام مصلی پر موجود ہو تو امام اور مقتدی ہر دو کو ’’ حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونا چاہئے اور اگر امام اقامت شروع ہونے کے بعد مقتدیوں کے پیچھے سے آرہا ہے تو جس صف سے امام گزرے وہ صف کھڑی ہوتی جائے۔ یہاں تک کہ امام مصلی پر پہنچ جائے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ امام آگے سے آرہا ہے تو امام کو دیکھتے ہی تمام مقتدی کھڑے ہوجائیں۔ عالمگیری ج : 1 ، ص : 57 میں ہے ۔ ان کان الموذن غیرالامام و کان القوم مع الامام فی المسجد فانہ یقوم الامام و القوم اذا قال الموذن ’’ حی علی الفلاح‘‘ عند علمائنا الثلاثۃ ھو الصحیح ۔ والیہ مال شمس الائمۃ الحلوانی و السرخسی و شیخ الاسلام خواھر زادہ و ان کان الامام دخل المسجد من قدامھم یقومون کما رأوا الامام۔

عرفہ و عاشورہ کا اعتبار
سعودی عرب کے لحاظ سے ہوگا یا مقامی اعتبار سے
سوال : رمضان المبارک میں انتقال کی فضیلتیں آئی ہیں، شعبان المعظم کی پندرھویں شب میں عبادت کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس طرح 26 رمضان کو بالعموم شب قدر کے طور پر لوگ عبادت کرتے ہیں۔
سعودی عرب اور ہندوستان و پاکستان کی تواریخ میں فرق رہتا ہے۔ اعتبار کس مقام کے دن اور تاریخ کا ہوگا یا عاشورہ ، سعودیہ میں ایک دن پہلے ہوتا ہے ۔ پھر ہند و پاک میں ہوتا ہے ۔ ذہن بری طرح متاثر ہوتا ہے ۔ جب سعودی عرب میں 9 ذوالحجۃ (یوم عرفہ) ہوتا ہے ، اس وقت ہند و پاک میں 8 ذی الحجۃ ہوتی ہے ۔ دعائیں بلحاظ روایات کس دن کی مقبول ہوں گی ، عرفات والوں کی ۔ یہ بات تو مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنین کی دعائیں قبول فرماتا ہے ۔ ذہنی الجھن دور کرنے کے لئے سوال کیا ہوں۔ الجھن رفع فرمائیں۔ یہ خلش ہزاروں کو ہے ۔
نام…
جواب : چاند بھی ایک ہے اور سورج بھی ایک ہے لیکن سورج تمام مقامات میں نہ بیک وقت طلوع ہوتا ہے اور نہ ہی بیک وقت غروب ہوتا ہے ۔ یہی حال چاند کا بھی ہے ۔ وہ اگرچہ ایک ہے لیکن کسی مقام پر ایک دن نظر آتا ہے تو دوسرے مقام پر اس کی رویت نہیں ہوتی ۔ اور اسلامی احکامات فطری ہیں۔ دنیا کے ہر خطہ میں بسنے والے مسلمان کیلئے اس پر عمل کرنا آسان ہے ۔ خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا جاہل ہو۔ ترقی یافتہ ملک میں رہتا ہے یا پسماندہ علاقہ میں۔ عصری ٹکنالوجی سے آراستہ ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جس طرح ترقی یافتہ شہر میں ایک مسلمان اسلامی احکامات مثلاً نماز ، روزہ پر عمل کرتا ہے اسی طرح کسی خستہ حال گاؤں میں مقیم ، دنیا سے بے خبر ، عصری آلات سے محروم مسلمان بھی نماز و روزہ کو ادا کرتا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی حدیث میں مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں چاند نظر آنے پر ساری دنیا کو اسی کے مطابق عمل کرنے کی تلقین نہیں فرمائی اور نہ ہی سعودی عرب کے اوقات نماز کے مطابق دوسرے مقامات پر نماز ادا کی جاسکتی ہے بلکہ ہر ایک اپنے اوقات نماز و اعتبار رویت کے مطابق عمل کرے گا ۔ اس ضمن میں ایک واضح روایت حضرت کریب سے مروی ہے جن کو حضرت امام الفضلؓ نے کسی کام کیلئے حضرت امیر معاویۃؓ کے پاس ملک شام روانہ کیا تھا ۔ حضرت کریت نے کہا کہ میں ملک شام پہنچا اور ان کی ضرورت کی تکمیل کیا ۔ میں ملک شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آیا ۔ ہم نے جمعہ کی شب کو چاند دیکھا تھا پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچا ۔ مجھ سے حضرت ابن عباسؓ نے چاند سے متعلق پوچھا کہ تم نے چاند کب دیکھا۔ میں نے کہا : جمعہ کی شب ، انہوں نے دریافت کیا۔ کیا تم نے خود دیکھا ہے ۔ میں نے کہا : ہاں ! میں نے خود دیکھا ہے ۔ وہ سب روزہ رکھے اور معاویۃؓ نے بھی روزہ رکھا اور چاند کو ان لوگوں نے بھی دیکھا۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : لیکن ہم نے چاند کو ہفتہ کی شب دیکھا ہے ۔ اس لئے ہم مسلسل تیس دن روزہ رکھیں گے یا پھر چاند نظر آجائے (تو انتیس روزے رہیں گے) میں نے کہا کیا معاویہؓ کی رویت اور ان کا روزہ رہنا کافی نہیں ہے ؟ تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : اسی طرح ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے۔
حدثنا موسی ابن اسمعیل ، حدثنا اسمعیل یعنی ابن جعفر اخبرنی بحمد بن ابی حرملۃ اخبرنی کریب ثم ذکر الھلال فقال متی رایتم الھلال قلت رأیتہ لیلۃ الجمعہ قال انت رأیتہ قلت نعم و صاموا وصام معاویۃ رآہ الناس قال لکنھار ایناہ لیلۃ السبت فلا نزال نصومہ حتی تکمل الثلاثین أو نراہ فقلت افلا تکتفی۔ برویۃ معاویۃ و صیامہ ؟ قال لا ھکذا امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابوداود کتاب الصوم باب اذا روی الھلال فی بلد قبل الآخرین) ۔
اس روایت سے ثابت ہے کہ ہر شخص مقامی رویت اور مقامی وقت کا اعتبار کرتے ہوئے عمل کرے گا۔لہذا شب برات ، شب قدر ، عرفہ اور عاشورہ کا اعتبار بھی مقامی طور پر ہوگا ۔ سعودی عرب کے لحاظ سے نہیں جس مقام میں ہیں اسی اعتبار سے روزہ دعاؤں اور عبادت کا اہتمام کیا جائے گا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شب قدر دنیا میں ایک ہی رات ہوگی ۔ وہ ملک اور علاقہ کے اعتبار سے بدلتی تو نہیں رہے گی ۔ اسی طرح عرفہ اسی دن ہوگا جس دن میدان عرفات میں حجاج وقوف کریں گے۔ اس لئے بہتر صورت یہ ہے کہ آپ سعودی عرب میں عرفہ کے اعتبار سے بھی روزہ رہیں اور مقامی طور پر بھی ۔ بعض اکابر سے یہ بھی منقول ہے کہ چاند میں شک ہوجاتا تو محرم کے تین دن روزہ رہ جائے تاکہ 9 تا یا 11/10 نہ چھوٹنے پائے ۔ اگر اس طرح جمع کرنا ممکن ہو تو بہت اچھی بات ہے ورنہ اعتبار تو مقامی ہوگا ۔ اہل ہند و پاک ا پنے وقت اور رویت کے مطابق ہی عمل کریں گے۔