قاتلانِ حسین کا عبرتناک انجام

عطیہ نور الحق قادری
مؤرخین لکھتے ہیں کہ مختار نے سنہ ۶۶ ہجری میں شہدائے کربلا کے قاتلوں کو چن چن کر ختم کردیا، جو عبرتناک طریقے سے اپنے انجام کو پہنچے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل شمر ذی الجوشن کو عبد الرحمن نے ختم کیا۔ اس کا سر کاٹ کر مختار کے پاس روانہ کیا گیا۔ اس کے کٹے ہوئے سر کو دیکھ کر مختار نے سجدۂ شکر ادا کیا اور حکم دیا کہ اس ناپاک سر کو مسجد کے سامنے لٹکا دیا جائے، تاکہ دیکھنے والوں کے لئے موجب عبرت ہو۔ بعد ازاں اس کے سر کو کھولتے ہوئے تیل میں جلاکر راکھ کیا گیا۔ یہ بدکار سارے واقعۂ کربلا کا اہم مجرم تھا، اس طرح یہ خبیث اپنے انجام کو پہنچا۔
جن دس اشرار نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ کے تن مبارک کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندا تھا، ان ظالموں کو زمین پر لٹاکر لوہے کی میخوں کے ذریعہ زمین میں اوندھا ٹھونک دیا گیا اور پھر بہت ہی قوی گھوڑوں کی ٹاپوں سے ان کے جسموں کو روندا گیا، جس سے ان ظالموں کے جسم ریزہ ریزہ ہو گئے اور وہ اپنے دردناک انجام کو پہنچے۔
حکم بن عقیل ایک ماہر تیرانداز تھا، جس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر تیر برسایا تھا۔ جب اس بدبخت سے بدلہ لیا گیا تو اس پر بے شمار تیر برسائے گئے۔ اسی طرح بجدل بن سلیم بد بخت نے حضرت امام عالی مقام کے دست مبارک سے انگوٹھی نکالی تھی۔ انگوٹھی نکل نہیں رہی تھی تو اس نے آپ کی انگلی کاٹ دی تھی۔ مختار نے اس کی پوری انگلیاں کٹوا دیں، پھر اس کے بعد بدبخت کے پاؤں بھی کاٹے گئے، اس طرح اس کے جسم کا سارا خون بہہ گیا اور وہ ہلاک ہو گیا۔
مالک بن ہشم ظالم نے حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا خود لوٹا تھا، دردناک انجام کو پہنچا۔ اسی طرح ابن مالک حجلی نے آپ کے اموال لوٹا تھا، جس کی گردن زیاد بن مالک نے ہجوم کے سامنے ایک ہی وار میں اُڑادی۔ شمر، آپ کی سواری مبارک کا اونٹ پکڑکر کوفہ لایا تھا۔ پھر اس کو ذبح کرکے اس کا گوشت بطور شکرانہ گھر گھر تقسیم کروایا تھا۔ جو لوگ یہ جانتے ہوئے کہ یہ اونٹ حضرت امام عالی مقام کا تھا، اس کا گوشت کھایا، ان تمام کو بھی ہلاک کروا دیا۔ ابن زیاد کا قتل ابراہیم بن اشتر کے ہاتھوں ہوا۔ ابن زیاد کا سر کاٹ کر اس کا جسم آگ میں جھونکا گیا۔ اس کے قتل کے بعد ابن مفرغ جو معروف شاعر تھا، اس نے ابن زیاد کی مذمت میں اشعار لکھے، جن کا خلاصہ اس طرح ہے کہ خداوند عالم نے اس خبیث بے اصل و نسل کو اس کے اعمال کی سزا دے دی ہے اور اس کے قتل پر سارے لوگ خوش ہیں، ظالموں کی سزا اسی طرح ہوا کرتی ہے۔
جب حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں تنہا رہ گئے تھے اور آپ کا جسم مبارک زخموں سے چور چور ہو چکا تھا، یہاں تک کہ آپ کھڑے نہیں ہو پا رہے تھے، اس وقت سنان بن انس نے آپ کے سینہ مبارک پر نیزے سے وار کیا تھا، جس سے آپ زمین پر گرپڑے تھے۔ اس کے پکڑے جانے کے بعد مختار نے حکم دیا کہ پہلے اس کی انگلیوں کو کاٹا جائے، پھر کھولتے ہوئے تیل میں ڈال کر اس کے جسم کو جلایا گیا۔
عمرو بن سعد کا کردار واقعہ کربلا میں سب سے اہم تھا۔ مختار کی پولیس کے افسر ابوعمر نے اسے قتل کیا اور اس کا سر مختار کے سامنے پیش کیا۔ جب اس کا نجس سر مختار کے سامنے پیش کیا گیا تو اس وقت مختار کی مجلس میں عمرو بن سعد کا بیٹا بھی موجود تھا۔ مختار نے جلاد کو بلواکر اس کے بیٹے کا سر تن سے جدا کروادیا، کیونکہ وہ بھی اپنے باپ کا شریک کار تھا۔ یعنی جن جن لوگوں نے میدان کربلا میں ظلم ڈھائے تھے، سب کا انجام عبرتناک ہوا۔ یا تو وہ چن چن کر قتل کئے گئے یا پھر بچ جانے والے اندھے ہوئے۔ ابن کثیر، طبری اور ابن عساکر وغیرہ نے ان ظالموں کے حالات اور واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔