فیض احمد فیض (1984-1910)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
 دو سال پہلے کی بات ہے ۔ میں لندن سے پیرس جانے کے لیے وکٹوریہ اسٹیشن کے سامنے ایک بس میں سوار ہوا تو ایک انگریز لڑکی میرے برابر آکر بیٹھ گئی۔ انگریزوں سے مشکل یہ ہے کہ وہ سفر میں اپنے ساتھی مسافروں سے اُن کے بال بچوں کا حال پوچھنا تو دُور کی بات ہے اُن کی تعداد کے بارے میں بھی نہیں پوچھتے۔ اپنے ساتھی مسافرین کی تعلیم، اُن کے پیشے وغیرہ سے متعلق تفصیلات کو جان کر اپنی ’’معلومات عامہ ‘‘ میں اضافہ کرنے سے بھی انہیں دلچسپی نہیں ہوتی۔ مسافر کے علاقہ میں پیاز کا بھاؤ کیا ہے، یہ جاننے کی بھی انہیں تمیز نہیں ہوتی۔ سو یہ لڑکی بھی بہت دُور تک اور بہت دیر تک خاموش بیٹھی رہی۔ مگر مجھے تو سفر میں پیاز کا بھاؤ جاننے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ یوں بھی اس بس میں دیکھنے کو تو بہت کچھ تھا لیکن سننے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ بالآخر میں نے ہی اُسے چھیڑ کر پوچھا کہ وہ کیا کرتی ہے؟ کہاں کا قصد ہے؟ اگر شادی نہیں ہوئی ہے تو بچے کتنے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس نے میرے ہر نامعقول سوال کا معقول سا جواب دیا مگر اس نے تب بھی جھوٹے منہ مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ میری شادی ہوئی ہے یا نہیں۔ اس نے پوچھا تو صرف اتنا پوچھا کہ ’’ قبلہ آپ کرتے کیا ہیں ؟ ‘‘
 میں نے کہا ’’ رائیٹر ہوں، رائیٹر جیسے آپ کے یہاں برنارڈ شا، آسکر وائیلڈ وغیرہ گزرے ہیں۔‘‘
 پوچھا۔ ’’ آپ کس زبان میں لکھتے ہیں ؟ ‘‘
میں نے کہا ’’ اُردو نام کی ایک زبان ہے اس میں لکھتا ہوں ۔‘‘
 لڑکی نے تیوری پر بَل ڈال کر کہا ’’ اُردو ! کہیں نام ضرور سنا ہے۔ کہیں یہ وہ زبان تو نہیں جس میں فیض احمد فیض ؔ شاعری کرتے ہیں؟‘‘
 میں نے کہا ’’ تم نے بالکل ٹھیک کہا۔ میں اسی زبان میں نثر لکھتا ہوں اور فیض احمد فیض ؔ شعر کہتے ہیں۔ ہم دونوں نے کام بانٹ لیا ہے۔ مگر بی بی یہ تو بتاؤ کہ تم نے فیض احمد فیضؔ کو کہاں پڑھا ہے اور یہ کہ تمہیں فیضؔ کو پڑھنے کی ضرورت کیوں لاحق ہوئی۔‘‘
 بولی ’’ میں ادب کی طالبہ ہوں۔ وکٹر کیرنن نے فیض ؔ کی شاعری کا جو ترجمہ کیا ہے وہ میری نظر سے گزرچکا ہے۔ فیض ؔ کی شاعری مجھے بہت پسند ہے۔‘‘
 میں نے دل میں سوچا۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ یہ ادب کی طالبہ بھی ہے اور فیض ؔ کی شاعری کی مدّاح بھی ۔ کیوں نہ اس سے گلشن کے کاروبار وغیرہ کے بارے میں بات کی جائے،
 میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ڈوور کی بندرگاہ آگئی۔ گلشن کے کاروبار میں ڈوور کا کھٹکا تو لگا ہی رہتا ہے۔ پھر وہ لڑکی وہاں سے غائب ہوئی تو کہیں نظر نہیں آئی اور میں کوئے یار سے پھر سوئے دار چلا آیا۔ راستہ بھر سوچتا رہا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اور شاعر تو اپنی زبان کے حوالہ سے جانے جاتے ہیں لیکن اُردو زبان فیضؔ کے حوالہ سے جانی جاتی ہے۔ شاعر اُس زبان سے بھی بڑا ہوجائے جس میں وہ لکھتا ہے تو یہی ہوتا ہے۔ ذرا سوچئے اگر فیضؔ نہ ہوتے تو اس انگریز لڑکی کو کس طرح یہ معلوم ہوتا کہ اُردو نام کی بھی ایک زبان اس دھرتی پر بولی جاتی ہے۔ یہ بڑائی فیضؔ کی ہے یا زبان کی یا پھر دونوں کی۔ اُردو نے فیضؔ پر احسان کیا ہے یا فیضؔ نے اُردو پر احسان کیا ہے۔ ایسی ہی اوٹ پٹانگ باتیں سوچتے سوچتے پیرس گیا۔ پھر ایک ہفتہ بعد پیرس سے لندن بھی واپس آگیا۔ ان دنوں لندن میں فیضؔ پر ہونے والے بین الاقوامی سمینار کا ہر طرف چرچا تھا۔ فیض ؔ کچھ دنوں بعد لندن آنے والے تھے۔ لندن کے ماحول میں فیضؔ کے قدموں کی آہٹ سنائی دے رہی تھی۔ جی تو بہت چاہتا تھا کہ کچھ دن رُک کر فیضؔ کا پھر ایک بار دیدار کیا جائے۔ اُن کے اچھے کلام کو اُن بُرے لہجے میں پھر سے سنا جائے مگر مجھے امریکہ جانا تھا۔ یہ سوچ کر چُپ ہوگیا کہ :
 بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
 فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
فیضؔ کی سالگر پر انہیں یاد کرنے بیٹھا ہوں تو مجھے اپنی زندگی کے مہ وسال آشنائی یاد آنے لگے ہیں۔ فیضؔ اُردو کے واحد شاعر ہیں ن کا دُکھ ان کا اپنا نہیں بلکہ سب کا دُکھ نظر آتا ہے۔ ان کا عشق اُن کا اپنا نہیں سب کا دکھائی دیتا ہے۔ مجھے تیس برس پہلے کا وہ دور یاد آرہا ہے جب مخدوؔم محی الدین اور فیضؔ کی شاعری نے زندگی کو عجیب و غریب سرشاری عطا کر رکھی تھی۔ اس وقت تک مخدومؔ کا ’’ سرخ سویرا ‘‘ اور فیض کے مجموعے ’’ نقشِ فریادی ‘‘ اور ’’ دستِ صبا ‘‘ ہی چھپ کر آئے تھے۔ ان دونوں کا کلام مجھے اور میرے دوستوں کو زبانی یاد تھا۔ اُن کا کلام پڑھتے جاتے تھے اور ’’انقلاب ‘‘ کا انتظار کرتے تھے۔ دروازے پر کوئی دستک بھی دیتا تو گمان ہوتا کہ یہ دستک انقلاب کی ہے۔ دل و دماغ کی کایا ہی پلٹ گئی تھی۔ ہمارا جی چاہتا کہ ہم بھی خونِ دل  میں اپنی اُنگلیاں ڈبونے کے علاوہ ہر حلقۂ زنجیر میں اپنی زبان رکھ دیں۔ ان دنوں میں لکھتا تو نہیں تھا مگر اس کے باوجود خونِ دل میں اُنگلیاں ڈبونے کی تمنا تھی۔ فیضؔ سے پہلے یہ سب کہاں تھا۔ جب ’’ زنداں نامہ ‘‘ کی شاعری باہر آئی تو یقین مانئے دل میں یہ حسرت بار بار جاگ اُٹھتی کہ اے کاش ہم بھی جیل میں جائیں، بڑی اچھی جگہ ہے۔ فیضؔ سے پہلے درورسن کی بات ایسی کہاں تھی۔ فیضؔ سے پہلے درقفس پر صبا پیام لے کر کہاں کھڑی ہوتی تھی۔ اور تو اور اپنی محبوب کو پہلی سی محبت نہ دینے کا خیال کسے آتا تھا۔ کسے پتہ تھا کہ وصل کی راحت کے سوا زمانہ میں اور بھی راحتیں ہیں۔ فیضؔ سے پہلے بادِ نسیم اور بادِ صبا اس طرح کہاں چلتی تھیں۔ فیضؔ نے ہی بادِ صبا کو چلنے کا ڈھنگ سکھایا۔ بادِ صبا کی ذمہ داریوں اور کام میں اضافہ کیا۔ اب سوچتا ہوں کہ اگر فیضؔ کی شاعری نہ ہوتی تو جذبہ اور احساس کی یہ لطافت کہاں ہوتی۔ زندگی کو دیکھنے اور پرکھنے کی یہ ادا کہاں سے آتی۔ یہ سب فیضؔ کا ہی فیض ہے بلکہ فیض جاریہ ہے۔
میں نے فیضؔ کو کئی برس پہلے حیدرآباد کے ایک مشاعرہ میں دیکھا تھا۔ اپنے محبوب شاعر کو دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ ایک سامع کی حیثیت سے میں انہیں بہت دیر تک دیکھتا رہا مگر جب انہوں نے کلام سنانا شروع کیا تو انہیں دیکھنے کا سارا مزہ کِرکِرا ہوگیا۔ ایسی بے دلی سے کلام سناتے تھے جیسے کسی دُشمن کا کلام سنارہے ہوں۔ سناتے وقت وہ اپنی اچھی بھلی شاعری کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے تھے۔ آخر عمر میں سانس کی تکلیف کی وجہ سے وہ ایک ہی مصرعہ کو کئی حصوں میں توڑ توڑ کر پڑھتے تھے۔ اپنے شعر کو بُرے ڈھنگ سے پڑھنے کی ادا بھی اُردو میں فیضؔ نے ہی شروع کی ، مگر اُن کی اس ادا کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ گلوکاروں نے اُن سے اُن کا کلام چھین لیا تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ دیکھو فیضؔ اگر شعر نہیں پڑھ سکتے تو کیا ہوا ہم اُن کا کلام گاسکتے ہیں۔ غالبؔ کے بعد فیضؔ اُردو کے دوسرے شاعر ہیں جنہیں گلوکاروں نے سب سے زیادہ گایا۔ حد یہ ہوگئی تھی کہ مشاعروں میں لوگ فیضؔ سے فرمائش کرتے تھے۔ ’’ فیض ؔ صاحب مہدی حسن والی غزل سنایئے۔ اب ذرا غلام علی والی غزل ہوجائے اور ہاں وہ  نورجہاں والی بھی ہوجائے تو اچھا ہے۔‘‘ فیض ؔ ہنستے جاتے تھے اور رُک رُک کر ساری فرمائشوں کی تکمیل کردیتے تھے۔
 فیضؔ سے دہلی میں میری کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن وہ اُتنے کم آمیز اور کم گو تھے کہ اُن ملاقاتوں میں جملوں کا تبادلہ بہت کم ہوتا تھا۔ اُن کی ذات میں ایک عجیب سی نرمی، گھلاوٹ اور دھیما پن تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہر دم اُن کی ذات میں کلیاںسی چٹک رہی ہوں۔ بھلا کلیوں کے چٹکنے کی صدا کس نے سنی ہے۔ غالباً 1977 ء کی بات ہے۔ فیضؔ انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کی دعوت پر ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ آزاد بھون میں اُن کا جلسہ تھا۔ لوگ انہیں دیکھنے کے لئے اُمڈ آئے تھے۔ اُن میں ایسے لوگ بھی تھے جو اُردو نہیں جانتے تھے مگر فیض ؔ کو دیکھنے کی تمنا میں آئے تھے۔ یوں بھی فیضؔ سننے سے زیادہ دیکھنے کی چیز تھے۔ میرے برابر میرے دفتر کے ساتھی اور تاریخ کے پروفیسر ارجُن دیو اور تاریخ کی اُستاد مس اندرا سرینواسن بیٹھے تھے۔ اندرا سرینواسن کو اُردو بالکل نہیں آتی۔ وہ صرف فیضؔ کو دیکھنے آئی تھیں۔ جب فیضؔ نے کلام سنانا شروع کیا تو اندرا سرینواسن نے مجھ سے کہا کہ میں فیضؔ کے شعروں کا انگریزی ترجمہ کرتا جاؤں۔ جیسے تیسے ایک غزل کے دو تین شعروں کا ترجمہ انہیں سنایا۔ کچھ اُن کے پلے پڑا کچھ نہیں پڑا۔ وہ میرے ترجمہ پر جب جرح کرنے لگیں تو میں نے اندرا سے کہا کہ وہ باقی غزلوں کا ترجمہ ارجُن دیو سے سنیں کیوں کہ وہ فیضؔ کی شاعری کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اب ترجمہ کرنے کی ذمہ داری ارجُن دیو نے سنبھال لی۔ جب فیضؔ نے ’’ گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے ‘‘ والی غزل سنانی شروع کردی تو ایک لطیفہ ہوگیا۔ جب فیضؔ نے یہ مصرعہ سنایا۔
 ’’ چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘
 تو ارجُن دیو نے کچھ رُک کر اور سنبھل کر اندراسے کہا۔
Faiz says Please come so that the business of garden may start
اس پر اندراؔ نے سخت حیرت کے ساتھ مجھ سے پوچھا۔
Mr.Mujtaba What is this business of garden? I have never heard of such business Is it a Profitable business?
میں نے ایک زور دار قہقہہ لگاکر اندراؔ سے کہا۔ ’’ اُردو میں تو یہ ’ بزنس آف گارڈن ‘ بہت زمانے سے چل رہا ہے۔ سراسر گھاٹے کا کاروبار ہے۔ پھر بھی آپ گلشن کا کاروبار چلانا چاہتی ہیں تو ارجُن دیو سے فیضؔ کے شعروں کا ترجمہ سنتی رہیے۔ آپ کو اس کاروبار کے اُصول اور قاعدے قانون معلوم ہوجائیں گے۔‘‘ چنانچہ اس ’بزنس آف گارڈن ‘ کے چکر میں ارجن دیو نے بعد میں اندراؔ سرینواسن کو فیضؔ کی غزلوں کا کچھ ایسا بامحاورہ ترجمہ سنایا کہ خود ان دونوں کے بیچ گلشن کا کاروبار شروع ہوگیا۔ اب اندراؔ کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ گلشن کا کاروبار کیسے چلتا ہے۔ کیونکہ اب وہ اندراسرینواسن سے اندرا ارجُن دیو بن گئی ہیں۔
اپریل۱۹۸۱ ء میں فیضؔ ہندوستان آئے تھے۔ اُن کی سترویں سالگرہ ہندوستان میں دُھوم دھام سے منائی گئی۔ میرے بچپن کے دوست علی باقرؔ نے فیضؔ سے کہا کہ وہ ایک رات اُن کے گھر گزاریں۔ فیضؔ نے طئے کیا کہ جس دن اُنہیںبھوپال جانا ہے، اس سے پہلے کی رات وہ علی باقر کے گھر گزاریں گے۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ علی باقر کا گھر چوں کہ ایرپورٹ سے قریب ہے۔ اس لیے وہاں سے ایر پورٹ تک جانے میں سہولت رہے گی۔
 میں نے کہا ’’ علی باقر کا گھر نہ صرف ایرپورٹ سے قریب ہے بلکہ بھوپال سے بھی قریب ہے۔‘‘ میری بات کو سن کر اپنے مخصوص انداز سے مسکراتے رہے۔ علی باقر کے ایک دوست نے کہا ’’ فیض صاحب کو اُس رات ہم جی بھر کر سنیں گے ۔‘‘
 اس پر علی باقر نے کہا ’’ جی نہیں ! فیض ؔ چچا اس دن کچھ نہیں سنائیں گے۔ انہیں سفر پر جانا ہے اور آرام بھی کرنا ہے۔‘‘ اس پر فیضؔ نے علی باقر کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا ’’اچھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اُس رات بغیر محنت کے روٹی مل جائے گی۔‘‘ فیضؔ کی اس بات پر سب مسکرادیئے مگر مجھے اُن کی اس بات میں ایک چھپے ہوئے درد کی جھلک صاف دکھائی دے گئی۔ فیضؔ ایسی ہی باتوں سے تو اپنے درد کو خوشگوار بنالیتے تھے۔
 اس رات علی باقر کے گھر دس بارہ احباب جمع تھے ۔ رات کے پچھلے پہر تک محفل جمی رہی۔ دنیا جہان کی باتیں ہوئیں۔ سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر کا ذکر ہوتا رہا۔ میں نے فیضؔ صاحب کو ارجُن دیو اور اندراسرینواسن کے Business of Garden والا واقعہ سنایا۔ بہت محظوظ ہوئے پوچھا۔
 ’’ یہ بتاؤ اُن کے گلشن کے کاروبار میں انہیں کوئی پھل پھول ملا بھی یا نہیں ؟‘‘
میں نے کہا ’’ جی نہیں! فی الحال تو یہ گلشن کی آبیاری میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘
 بولے ’’ ہمارے شعروں کی بنیاد پر گلشن کا کاروبار کریں گے تو یہی ہوگا۔‘‘
 فیض ؔ سے میری وہ آخری ملاقات تھی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ ان آنکھوں کو پھر فیضؔ کا دیدار کرنا نصیب نہ ہوگا۔ وہ موہنی سی شخصیت پھر کہیں دکھائی نہیں دے گی۔
18نومبر 1984 ء کو جب فیضؔ کے انتقال کی خبر ملی تو سکتہ سا طاری ہوگیا۔ وہ آواز جو سیالکوٹ کی خاموش فضاؤں سے نکل کر سارے جگ میں گونجنے لگی تھی اچانک خاموش ہوگئی۔ اُن کے پڑھنے کا اُکھڑا، اُکھڑا انداز، اُن کی نرمی، ملائمت ، اُن کا شبنمی احساس، اُن کی موہنی باتیں سب یاد آئیں۔ فیضؔ کو ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال چار مہینے بیت گئے لیکن یہ بتایئے کون سا دن ایسا گزرتا ہے جب آپ کو فیضؔ کے شعر یاد نہ آتے ہوں یا آپ اُن کی غزلیں نہ سنتے ہوں۔ کسی نے کہا تھا کہ بڑے شاعر کی زندگی اس کی آنکھیں بند ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ فیضؔ ہمارے درمیان ہی ہیں۔ یہیں کہیں ہمارے شعور میں بسے ہوئے، ہمارے احساس میں ہُمکتے ہوئے ہمارے جذبوں میں مہکتے ہوئے:۔
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
اسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
(13 فروری 1986 ء کو ہاؤس آف سوویت کلچر اینڈ آرٹ نئی دہلی کی جانب سے منعقدہ فیضؔ کی سالگرہ تقریب کے موقع پر یہ خاکہ پڑھا گیا)