فیض احمد فیض کی شاعرانہ عظمت دستِ صبا کی روشنی میں

محمد سرور علی افسر
ترقی پسند شعراء کے درمیان جو شخصیت اپنے منفرد لب و لہجہ ، اشتراکی فکر و نظر کی حامل ، رومان پرور اور انقلابی تصور حیات جس کا مقصد ، جدت پسندی جس کا طرہ امتیاز ، اپنی شعری خصوصیات کی وجہ سے درخشاں و تاباں نظر آتی ہے ، وہ فیض احمد فیض کی پروقار ذات ہے ۔ ان کی سب سے بڑی خوبی اور خصوصیت عزم و استقلال ، ثابت قدمی اور مستقل مزاجی ہے ، چونکہ دار و رسن کی ہیبت ناکیاں انکے فکر و خیال کو متزلزل نہ کرسکیں ۔ اسالیب بیان میں رومانی عناصر کی آمیزش نے انھیں رومانیت کا دلدادہ بنادیا ہے ۔ آج کے انسان کی پیچیدہ نفسیات کا عکس ان کے کلام میں نظر آتا ہے ۔ڈاکٹر ابو محمد سحر کے الفاظ میں ’’فیض کا اپنا ایک مخصوص لب و لہجہ ہے ۔ اس میں نرمی اور خواب آور کیفیت ہے ۔سیاسی اعتبار سے وہ مارکسی نظریات و خیالات کے ہمنوا ہیں ۔ اور ان کی شاعری پر اس کی گہری چھاپ ہے‘‘ ۔ انقلاب کی یہ آویزش ان کے پہلے مجموعے کلام ’’نقش فریادی‘‘ تک محدود نہیں بلکہ دوسرے مجموعہ کلام ’’دست صبا‘‘ کے اوائل اور تیسرے مجموعہ کلام ’’زندان نامہ‘‘ کے آخر تک یہ کشاکش چلی آئی ہے ۔ فیض کی شاعری کا رومانی پہلو نہایت دلآویز ہے ۔ اس طرح وہ عشقیہ روایت کے واحد امین کہلانے کے مستحق ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالمغنی کے خیال کی روشنی میں ’’غم عشق ،غم روزگار کی پیہم آمیزش ہماری نسل کے نمائندہ شاعر فیض احمد فیض کے یہاں بے حد نمایاں ہے ۔ ان کے کلام میں رومان و انقلاب کی چاندنی اور دھوپ ایک دوسرے سے دست گریباں ہے‘‘ ۔ فیض کی جمالیاتی حس ، حسن سوگوار کو بھی آراستہ دیکھنا چاہتی ہے ۔ ان کے یہاں مسرت کے ساتھ متانت ہے ۔ ان کے آہنگ میں دست صبا کی نرمی ہے ۔ کوہ و بیابان ہو یا گلستاں ان کے یہاں ہر حال میں جوئے نغمہ خواں کی لطیف روانی قائم رہتی ہے ۔ باد نسیم کی سی نرم خرامی کا لطف ملاحظہ فرمایئے ۔

تم آئے ہو نہ شب انتظار گذری ہے
تلاش میں ہے سحر ، بار بار گذری ہے
گلوں میں رنگ بھرے ، باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
فیض سستی اشتراکیت کی رو میں بہہ کر اپنی شاعری کی روح کو مجروح ہونے نہیں دیتے ۔ معنویت کے اعتبار سے وہ میر ، سودا ، غالب ، مومن ، حالی اور اقبال کی قائم کی ہوئی اور برتی ہوئی روایات کا احترام کرتے ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ الفاظ کی تاریخ کا بھی شعور رکھتے ہیں ۔ الفاظ و تراکیب میں سودا کی شوکت و صلابت ہے ۔ لیکن لہجے میں میر تقی میر کا سوز و گداز مترشح ہوتا ہے ۔ اصل میں وہ اقبال کے نقوش کلام سے بہت زیادہ متاثر ہیں ۔ مگر فطرتاً ’’روح نغمہ‘‘ ان کی اپنی ہے ۔ انھوںنے جمال ، حسن کا اسلوب اور انداز آراستگی اور دلفریبی نہ تو ’’نقش فریادی‘‘ میں فراموش کیا ہے اور نہ ہی ’’دست صبا‘‘ میں ۔ اس طرح ان کی شاعری رومان اور وجدان میں لپٹی ہوئی ہے ۔

’’دست صبا‘‘ کی تخلیق ایک ایسے انقلاب عظیم کے بعد ہوئی جس نے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شاعر ادیب اور فنکار کو بھی متاثر کیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جو نقصان عظیم پنجاب کو پہنچا ہے ۔ بربریت کا جو ننگا ناچ سرزمین پنجاب میں ہوا اس کے اثر سے اس دور کے بڑے بڑے شعراء کے کلام میں تلخی اور جھلاہٹ پیدا ہوگئی تھی۔ شدت جذبات میں الفاظ آتشیں لاوے کی شکل اختیار کرکے وہ بھوکے شیر کی طرح دہاڑنے لگے ۔ جس سے فضا اور زیادہ مکدر اور مسموم ہوگئی ۔
آخر فیض بھی ایک انسان تھے ،وہ بھی دوسروں کی طرح متاثر ہوگئے ۔ آتش شعلوں نے انھیں بری طرح جھلسادیا ۔ اس وقت فیض نے بڑے صبر و ضبط سے کام لیا اور اپنے جذبات پر پوری طرح قابو پا کر شاعرانہ اشارے کئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمایئے ؎

متاع لوح و قلم چھن گیا تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
’’دست صبا‘‘ کی ایک نظم ’’اے دل بیتاب ٹھہر‘‘ میں فیض نے ایک چابکدست مصور اور ماہر فن کی طرح نقوش کو ابھارا ہے ۔ ’’دست صبا‘‘کی اشاعت ہماری اردو ادبی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے ۔ چونکہ ہر طرف ادب میں جمود ، تعطل اور ادب کی جمالیاتی قدریں پامال ہورہی تھیں ، ایسے میں ’’دست صبا‘‘ کی اشاعت عزم و استقامت اور ثابت قدمی کو بڑھاوا دے رہی تھیں ۔ رشید حسن خاں کے خیال کے بموجب ’’دست صبا‘‘ کا تغزل اس کی روانی و شیرینی ، تاثر وترنم ، سادگی و صفائی ، رنگینی و رعنائی ، تازگی و شگفتگی اور دوسرے محاسن ہمیں اس کی قدر کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ فیض الفاظ کی چاندنی بچھانے میں یدطولی رکھتے ہیں اور الفاظ کے اتار چڑھاؤ سے ایک ایسی مترنم فضا تیار کرتے ہیں کہ سامعین اورناظرین مسحور ہوجاتے ہیں ‘‘۔ ملاحظہ فرمایئے یہ اشعار
تیرگی ہے امنڈتی ہی چلی آتی ہے
سب کی رگ رگ میں لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو
یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسار سحر
فیض شاعری کے رموز اور شاعر کے منصب سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں ۔ فیض کی شاعری کا انقلابی پہلو نہایت اہم ہے ۔ ان کی اجتماعی بصیرت اور احساس ذمہ داری لائق تحسین ہے ۔ فیض کی شاعری میں گہری انسانیت کے ساتھ یہ احساس نہایت شدت کے ساتھ ابھرتا ہے ۔ انھوں نے محبت اور سیاست کو ایسا شیر و شکر کیاہے اس آمیزے کی د وآتشہ چاشنی آج کے انسان کے کام و دہن کو بے اختیار اپیل کرتی ہے ۔ ’’دست صبا‘‘ کی نظموں میں ایک چھوٹی نظم ’’لوح و قلم‘‘ ہے جو زندگی کے بارے میں ان کے ‘رجائی نقطہ نظر کی نمائندہ اور فنی تکمیل کا ایک اعلی نمونہ ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے ؎

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہاں تلخیٔ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی یہ ستم ہم کو گوارہ
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
خصوصیت کے ساتھ فیض شعر و ادب کے قدیم سانچوں کو اپنانے سے گریز نہیں کرتے ،بلکہ اس میں اضافہ کرنے اور آگے بڑھانا ان کے مسلک میں داخل ہے ۔ 1951 کی قید و بند کی صعوبتوں نے ان کے نظریات کو متزلزل کرنے کے بجائے انھیں اور پختہ ترکردیا ہے ۔ وہ اپنے اندر ایک نیا جوش اور نیا ولولہ محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ ’’دست صبا‘‘ اور ’’زندان نامہ‘‘ ان کے ایام اسیری کی یادگار ہیں ۔ ڈاکٹر حامد اللہ ندوی کے خیال کے مطابق اُن کے قطعات میں عصری حوادث کے درد و کرب کے علاوہ ایک خاموش بغاوت کی آگ بھی اپنے اندر ہی اندر سلگتی ہوئی نظر آتی ہے‘‘ ۔ وہ ’’لیلائے وطن‘‘ سے صرف والہانہ محبت ہی نہیں کرتے بلکہ اس کی کامیاب ترجمانی کرتے ہیں ۔