ڈاکٹر سید بشیر احمد
خداوند بزرگ و برتر نے علم کے ذریعہ آدمی کو انسان بنایا۔ یہ وہ دولت ہے جس کے حاصل ہونے پر کسی بھی فرد کو سماج میں نمایاں مقام حاصل ہوتا ہے ۔ موجودہ صدی میں جتنی نمایاں ترقی زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتی ہے وہ محض علم کی بدولت ہے ۔ قانون سازی اس کا نفاذ اور اس کے فوائد سب علم ہی کی بدولت ہیں ۔ حضور نامدارؐ نے اشاعت اسلام میں اسی عنصر کو اہمیت دی ۔ کوئی شخص اپنی تاریخ کا علم رکھتا ہو تو وہ شخص اور سماج ترقی کے منازل آسانی سے طے کرتے ہیں ۔ علم ہی کی وجہ سے ہر شعبہ حیات میں انسان ترقی کے منازل طے کرتا ہے ۔ علم ہی کی دولت ہر شعبہ حیات میں انسان ترقی کے منازل طے کرتا ہوا مانند آفتاب آسمان کی شہرت پر ضوفشاں ہے ۔
ہندوستان میں مختلف ادوار میں مختلف لوگ برسراقتدار رہے ۔ ان میں ایک نام سلاطین مغلیہ کے اہم بادشاہ اکبر اعظم کا ہے جو خود تعلیم سے بے بہرہ تھا، لیکن حصول علم اور عالموں کی صحبت نے اس کو اکبر سے اکبراعظم بنادیا ۔
حیدرآباد میں سلاطین آصفیہ میں آصف سابع نواب میر عثمان علی خان کے دورمیں حصول علم کے لئے مختلف سہولتیں مہیا کی گئیں ۔ جامعہ عثمانیہ ان کوششوں کا زندہ ثبوت ہے ۔ اس جامعہ سے فارغ التحصیل لوگوں میں حضرت امجد حیدرآبادی ، ڈاکٹر رضی الدین، محی الدین قادری زورؔ ، ڈاکٹر شاہنواز اور ڈاکٹر بنکٹ چندر وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ ڈاکٹر شاہنواز اور ڈاکٹر بنکٹ چندر طب میں اعلی تعلیم کے حصول کیلئے انگلینڈ بھجوائے گئے تھے ۔ وہاں پر ان لوگوں کے طب پر لکھے ہوئے مقالے میڈیسن کے طلبہ کو پڑھائے جاتے ہیں اور اکثر مضامین نصاب میں بھی شامل ہیں ۔
ہندوستان میں بیشتر سیاسی قائدین مسند وزارت پر فائز رہے، لیکن جو شہرت کا مقام و مرتبہ آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کو حاصل ہوا کسی اور کو حاصل نہ ہوسکا، جو محض ان کے اعلی تعلیم یافتہ ہونے کی ایک اہم وجہ ہے ۔ خداوند کریم کی ذات اور وجود کے تعلق سے علمی رہبری بے حد ضروری ہے ۔ علم کی شمع روشن ہو تو ترقی کے منازل انسان آسانی سے طے کرتا ہے ۔
بدقسمتی سے لوگ حصول علم کو روزگار سے مربوط کرکے اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ علم کی وجہ سے نہ صرف حصول روزگار حاصل ہوگا ہے بلکہ سماج میں عزت وقار حاصل ہوتا ہے ۔ دنیا میں سب ہی جانتے ہیں کہ علم کا مخزن صحیفہ خداوند یعنی قرآن پاک ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر حضرات ثواب کے حصول کیلئے قرآن خوانی تو کرلیتے ہیں لیکن قرآن فہمی کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ اگر قرآن فہمی کی طرف لوگ مائل ہوں تو ترقی کے منازل آسانی سے طے کئے جاسکتے ہیں ۔
مذہب اسلام کی ترویج و ترقی کیلئے ارشادات نبویؐ اہم اثاثہ ہیں ۔ حضورؐ نے فرمایا ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہیں‘‘ ۔ بدقسمتی سے لوگ دروازے کو بھول گئے ہیں جس کی وجہ منزل مقصود کو پانا مشکل ہورہا ہے ۔ علم دولت ہے ۔ دولت کی حفاظت کیلئے لوگ مختلف احتیاطی تدابیر کرتے ہیں لیکن علم ایک ایسا خزانہ ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا ۔ علم ایک ایسی دولت ہے جس کو خرچ کرنے پر کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوتا ہے ۔ حصول علم لڑکوں کیلئے بیش بہا دولت ہے تو لڑکیوں کیلئے قیمتی زیور ہے ۔