جنگ میں قتل سپاہی ہوں گے
سرخرو ظل الٰہی ہوں گے
فیصلے کا دن
آج تلنگانہ اور راجستھان اسمبلی کیلئے پولنگ کا دن ہے ۔ آج دونوں ریاستوں کے عوام کو اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ووٹ کے ذریعہ ایک نئی حکومت کا انتخاب کرنا ہے ۔ انتخابات کیلئے مہم دونوں ہی ریاستوں میں انتہائی شدت کے ساتھ چلائی گئی ہے ۔ اقتدار کی دعویدار جماعتوںاور مقامی سطح پر چھوٹی جماعتوںاور امیدواروں کی جانب سے پورے زور و شور کے ساتھ انتخابی مہم میں جان پیدا کی گئی ۔ بڑی جماعتیں ہوں یا چھوٹی جماعتیں سبھی نے رائے دہندوں کو لبھانے کیلئے اپنی جانب سے ہر ممکنہ کوشش کی ہے ۔ ہر جماعت کے کارکنوںکی جانب سے پورے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا اور عوام نے بھی تمام جماعتوں کی مہم کا جائزہ لیا ہے ۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کی ساری توجہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے پر الزامات اورجوابی الزامات عائد کرنے پر ہی مرکوز رہی ۔ بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور ایسے وقت میں جاری کئے ہیں جبکہ رائے دہندوں تک اس منشور کو پہونچانا آسان نہیں رہ گیا تھا بلکہ ممکن بھی نہیںرہ گیا تھا ۔ اس کے علاوہ بعض جماعتوں کا تو کوئی منشور ہی نہیںہے ۔ عوام کے سامنے اپنے کا م کاج کا کوئی حساب کتاب پیش نہیں کیا گیا اور صرف عوام کو گمراہ کرتے ہوئے اور انہیں جذبات میںالجھاتے ہوئے حقیقی مسائل سے ان کی توجہ مبذو ل کروانے پر توجہ مرکوز کی گئی اور اب ان کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے بھی نت نئے ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ اقتدار کی دعویدار جماعتیں یا وہ جماعتیں جو پہلے سے اقتدار پر ہیں عوام کے درمیان ضرور آئیں لیکن انہوںنے عوام کے سامنے کوئی موثر یا متاثر کن منصوبوںکو پیش نہیں کیا گیا ہے ۔ جو جماعتیں اقتدار پر ہیں انہوںنے تو انتخابی مہم کے دوران عوام کے سوالات کے جواب تک نہیں دئے بلکہ سوال کرنے والوں کو جھڑک دیا گیا ۔ اس سے سیاسی جماعتوںاور ان کے قائدین کی تانا شاہی ذہنیت سامنے آگئی ہے ۔ یہ واضح ہوگیا کہ یہ قائدین وعدے ضرور کرتے ہیںلیکن ان کے تعلق سے عوام کے سوالات کا جواب دینے تیار نہیں ہیں۔
عوام سے ووٹ مانگنے اور ووٹ حاصل کرنے کیلئے وعدے کرنے والی جماعتوں کی کارکردگی اور وعدوں کی تکمیل کے تعلق سے رائے دہندوںکو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔رائے دہندوں کو سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا ووٹ محض ایک ووٹ نہیں ہے بلکہ اپنے حلقہ ‘ اپنے شہر اور اپنی ریاست کے پانچ سال کی کارکردگی کا اجازت نامہ ہے ۔ شہر اور ریاست کے مستقبل کے تعلق سے انہیں سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو نظر میں رکھنا چاہئے کہ انہوں نے اب تک جن امیدواروں کو اپنا ووٹ دے کر منتخب کیا ہے ان کی کارکردگی کیا ہے ۔ وہ عوام کیلئے خدمت کا نعرہ دیتے ہوئے میدان میں آئے تھے ۔ ان کی کارکردگی سے غریب عوام کی حالت میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا پھر خود ان نمائندوں کی دولت میں دو دوگنی رات چوگنی ترقی ہوئی ہے ۔ عوام کی حالت میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور صرف نمائندے دولت کے انبار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ عوام کو اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں ان نمائندوںکو سبق سکھانے کا یہ ایک بہترین موقع ہے جو عوام کے ووٹ تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن ان کی خدمت کرنے کی بجائے اقتدار حاصل ہوجانے کے بعد عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگے ہیں۔ ان کی حالت کو سدھارنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے پر ان کی کوئی توجہ نہیں ہوتی ۔
علاوہ ازیں عوام کے ایک ووٹ کے ذریعہ حکومتیں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ نمائندے بدلے جاسکتے ہیں اور عوام کو اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں یہ ذہن سے نکالنا ہوگا کہ ہمارے ایک ووٹ سے کیا ہوگا ۔ انہیں اپنے ایک ہی ووٹ کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور جب رائے دہندے اس کو سمجھ جائیں گے تو پھر ان پر ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ حقیقی خدمت کے جذبہ سے سرشار نمائندوں کا انتخاب کریں اور آئندہ پانچ سال تک ان کی کارکردگی پر نظر رکھی جائے ۔ جن نمائندوں کو کئی معیادو ں سے آزمایا جا رہا ہے اور جو مسلسل مذہبی جذبات کا استحصال کرکے عوام کو گمراہ کرتے ہیں انہیں ایک ووٹ کے ذریعہ سبق سکھایا جاسکتا ہے اور ایسا کرنا باشعور رائے دہندوں کی ذمہ داری بنتی ہے ۔