فکر تونسوی (1987-1918)

 

پہلی قسط
میرا کالم مجتبیٰ حسین
مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں فکرؔ تونسوی کی نئی تصنیف ’’بدنام کتاب‘‘ کی رسم اجراء کے موقع پر اُن کی شخصیت کے بارے میں کوئی نیا مضمون پڑھوں۔ پرانی شخصیت کے بارے میں کوئی نیا مضمون پڑھنا یوں بھی دشوار کام ہے ۔ ابھی دو سال پہلے میں نے اُن کی شخصیت پر ایک بھرپور خاکہ لکھا تھا ۔ اب پھر اُن کی شخصیت کے بارے میں نیا مضمون لکھنے کی فرمائش پرمجھے وہ لطیفہ یاد آرہا ہے :
’’ایک نواب صاحب کو کسی نے بتادیا کہ علی الصبح گھوڑے کی سواری کی جائے تو صحت اچھی رہتی ہے۔ نواب صاحب فوراً بازار گئے ، ایک سائس خرید کر لے آئے اور ایک گھوڑے کو ملازم رکھ لیا ۔ سائس کو پابند کیا کہ وہ انہیں گُھڑ سواری کے لئے علی الصبح جگایا کرے ۔ دوسرے دن سائس علی الصبح گھوڑے کو تیار کر کے نواب صاحب کی خواب گاہ میں انہیں جگانے کیلئے پہنچا۔ بڑی آوازیں دیں تو نواب صاحب نے سوتے سوتے ہی پوچھا ’’بولو کیا ہے؟۔ ‘‘ سائس بولا ’’حضور گھوڑا سواری کیلئے تیار ہے‘‘۔ نواب صاحب نے اپنی خمار آلود آنکھوں کو پھر سے بند کرتے ہوئے کہا ’’تم ذرا گھوڑے پر زین ڈال دو، میں ابھی بیدار ہوتا ہوں‘‘۔ آدھے گھنٹے بعد وہ پھر نواب صاحب کی خواب گاہ  میں پہنچا اور دوبارہ انہیں جگانے کی کوشش کرنے لگا ۔ اب کی بار نواب صاحب نے لال لال ڈوروں والی آنکھیں کچھ دیر کیلئے کھولیںاور پوچھا ’’بولو کیا ہے ؟‘‘سائس نے دست بستہ عرض کی ’’حضور گھوڑا سواری کیلئے تیار ہے، بیدار ہوجایئے ‘‘۔ نواب صاحب نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ’’میں نے تو تم سے کہا تھا کہ گھوڑے پر زین ڈال دو‘‘۔
سائس نے کہا ’سرکار آپ کے حکم کی تعمیل میں، میں نے گھوڑے پر زین ڈال دی ہے‘‘۔ اس پر نواب صاحب نے ایک لمبی جماہی لے کر کروٹ بدلتے ہوئے کہا ’’جاؤ تھوڑی سی زین اور ڈال دو‘‘۔
اب میرے اس نئے مضمون کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ میں فکرؔ تونسوی پر تھوڑی سے زین اور ڈالنے چلا ہوں۔ مجبوری سائس اور ادیب سے کیا نہیں کرواتی۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ میں نے اُن پر پہلا مضمون دو سال پہلے لکھا تھا ۔ ان دو برسوں میں بہت کچھ ہوگیا ہے ، ان دو برسوں میں وہ مزید بوڑھے ہوگئے ہیں اور میں مزید جوان ہوگیا ہوں۔ قانون قدرت کو یہی منظور تھا ۔ پھر ان دو برسوں میں وہ مجھ سے اتنا قریب آگئے ہیں کہ لگتا ہے کہ اب وہ مجھ سے بہت دور ہوجائیں گے ۔
میں نے پہلے مضمون میں بہت سی ایسی باتیں لکھ دی تھیں جنہیں بعد میں فکر تونسوی نے اپنے عمل سے غلط ثابت کردیا ۔ لہذا اب ضرورت اس بات کی تھی کہ فکر تونسوی کا ایک اغلاط نامہ شائع کیا جا ئے ، چاہے اس کیلئے مجھے تھوڑی سی زین اور ڈالنے کی زحمت ہی کیوں نہ اٹھانی پڑجائے ۔
یہ حضرت جو’’ہنچ بیک آف ناترے دیم‘‘ سے بڑی مشابہت رکھتے ہیں بڑے عجیب و غریب آدمی ہیں۔ اونٹ کی کل سیدھی بھی ہوسکتی ہے لیکن ان کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ اس دنیا میں کیا کرنے کیلئے آئے ہیں اور کیوں آئے ہیں۔ آپ کہیں گے اردو میں طنز نگاری کرنے آئے ہیں۔ مانا کہ طنز نگاری کرنے آئے ہیں مگر میری عرض یہ ہے کہ طنز نگار بڑا ہوشیار آدمی ہوتا ہے ، وہ دوسروں پر پتھر پھینکنے سے پہلے اپنے مکان کی دیواروں کو نہ صرف بلند کرلیتا ہے بلکہ انہیں مضبوط بھی بنالیتا ہے ۔ وہ بڑی ہوشیاری اور کسی حد تک عیّاری سے اپنی ذات کو کچھ اس طرح ڈھالتا ہے کہ کسی کو اس پر طنز کرنے کا موقع نہ ملے ۔ اگر اس کو معیار مانا جائے تو گستاخی معاف، یہ جو حضرت فکرؔ تونسوی اردو کے بڑے طنز نگار بنے پھرتے ہیں دنیا کے بے وقوف ترین آدمی ہیں۔ ان کی ذات بے برکات کا جتنا مذاق اڑایا جاسکتا ہے اتنا شاید ہی کسی کا اڑایا جاسکے ۔ یہ اتنے بڑے طنز نگار ہیں مگر چھوٹی سی چھوٹی بات پر اتنے خوش ہوں گے کہ دیکھنے والا افسوس کرنے لگ جائے ۔
ایک بار میرے ساتھ بس اسٹاپ پر بس کا انتظار کر رہے تھے ۔ ابھی انتظار کے دو سیکنڈ بھی نہ گزرے تھے کہ بس آگئی اور اتفاق سے خالی آگئی ۔ اب اس بات پر جو فکر تونسوی خوش ہوئے تو بس خوش ہوتے ہی چلے گئے۔ بار بار کہتے ’’بھئی کمال ہے یار آج ہمیں اتنی آسانی سے بس مل گئی ‘‘۔ بچوں کی طرح تالیاں بجاتے ہوئے وہ بس میں داخل تو ہوئے ہی تھے مگر جب بس سے اترنے لگے تو تب بھی تالیاں بج رہی تھیں۔ فٹ پاتھ پر چلنے لگے تو پھر کہا ’’یار ایمان سے مجھے تو حیرت ہورہی ہے، یقین ہی نہیں آتا کہ ہمیں اتنی آسانی سے بس مل گئی ‘‘۔ کافی ہاؤس پہنچے تو دوستوں کی میز پر پہنچتے ہی خوشی سے اچھل کر کہا :
’’یارو تم یقین نہیں کروگے آج ہمیں دو سکنڈ میں ہی بس مل گئی ۔ آخر یہ کیا ہورہا ہے ۔ آؤ آج اس خوشی میں ہم سب کو کافی پلاتے ہیں‘‘ ۔ بہرحال دو سیکنڈ میں بس کو پکڑ کر وہ یوں سمجھ رہے تھے جیسے وہ زندگی میں بہت آگے نکل گئے ہوں۔ میں چپ چاپ انہیں حیرت سے دیکھتا رہ گیا۔ چند دنوں بعد ان کی کتاب ’’چوپٹ راجہ‘‘ کو اترپردیش اردو اکیڈیمی کا انعام ملنے کی اطلاع آئی ۔ میں نے سوچا جو آدمی بس پکڑ کر اتنا خوش ہوسکتا ہے وہ یقیناً ڈیڑھ ہزار روپئے کا انعام پاکر پھولے نہیں سمائے گا۔ میں اُن سے شام میں کافی ہاؤس میں ملا تو بڑے اداس بیٹھے تھے۔ لگتا تھا گھر میں بیوی سے لڑ کر آئے ہیں۔ میں نے سوچا کہ شاید انہیں انعام کی خوشخبری اب تک نہ ملی ہو ۔
میں نے کہا ’’کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی کتاب کو یو پی اکیڈیمی کا انعام ملا ہے؟ ‘‘ یہ سنتے ہی آنکھوں میں تقریباً تین چار آنسو لاکر بولے ’’یارو ! یہ بہت برا ہوا ایمان سے ۔ میں انعام شنام میں یقین نہیں رکھتا۔ تم نے ہی زبردستی میری کتابیں بھجوادی تھیں، مجھے تو بڑا دکھ ہورہا ہے ، ایمان سے ۔ وہ کون ہوتے ہیں مجھے انعام دینے والے ۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں یہ سب کچھ انعام اور صلے کے لئے لکھتا ہوں۔ تم نے میرے خلاف ایک بڑی سازش کی ہے ، میں اپنے آپ کو کرپٹ نہیں کرنا چاہتا‘‘۔
میں نے کہا ’’آخر بات کیا ہوئی۔ آپ اتنے خفا کیوں ہیں ؟‘‘
بولے ’’ایمان سے مجھے بڑی شرم آرہی ہے ۔ کیا تم نے انعامات کی فہرست میں ڈیڑھ ہزاری منصب داروں کے نام پڑھے ہیں؟ ‘‘۔
میں نے کہا’’ہاں میں نے سارے نام پڑھے ہیں‘‘۔
بولے ’’بیٹا ۔ کچھ تو شرم کرو ۔ میں ادب کے میدان میں اچھا خاصا کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی کے ساتھ کھڑا ہوا تھا ۔ تم نے مجھے زبردستی گھسیٹ کر کن لوگوں کے ساتھ کھڑا کردیا ہے‘‘۔ اس کے بعد میں مسلسل ہنستا رہا اور وہ مجھے مسلسل کوستے اور گالیاں دیتے رہے ۔ پھر وہ کئی دن تک کافی ہاؤس نہیں آئے ۔ میں نے ایک دن فون کر کے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’’یار ایمان سے ، اب میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ گیا ہوں۔ ہر کوئی مبارکباد دے کر مجھے چھیڑ رہا ہے ۔ میں مزید چند روز تک کافی ہاؤں آنے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ مجھے رہ رہ کر تم پر غصہ آرہا ہے ‘‘۔
ایک طرف تو ان حضرت کے غصہ کا یہ عالم تھا ، چند دنوں بعد نارمل ہوگئے تو ایسے نارمل ہوئے کہ دو دن بھی میں ان سے نہ ملوں یا فون نہ کروں تو پریشان ہوجاتے ہیں۔ ایک بار میں کسی مصروفیت کی وجہ سے آٹھ دنوں تک اُن کے پاس نہ جاسکا اور پھر اتفاق سے انہی دنوں میرا دفتر بھی منتقل ہوگیا ۔ وہ مجھے فون بھی نہیں کرسکتے تھے ۔ بے خبری کے آٹھ دن بڑے بے چین سے گزرے ۔ نویں دن ایک دوست میرے پاس آئے اور کہنے لگے ’’یار فکر صاحب تمہارے لئے بہت بے چین ہیں۔ تم آج ان سے کسی طرح مل لو ‘‘۔ یہ دوست گئے تو ایک اور صاحب آئے اور کہنے لگے ’’بھئی فکر صاحب کو تم سے ایک ضروری کام ہے ۔ وہ سخت پریشان ہیں ، تم آج ان سے ضرور ملو‘‘۔
اس کے بعد تین چار اصحاب اور ملے اور انہوں نے ہو بہو یہی پیغام دیا ، میں فطری طور پر پریشان ہوگیا کہ نہ جانے فکر صاحب کس آفت میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ شام کو ٹیکسی لے کر کافی ہاؤس پہنچا تو دیکھا کہ موصوف کافی ہاؤس کی ایک ٹیبل پر صحیح و سلامت بیٹھے ہیں ۔ میں تقریباً دوڑتا ہوا ان کے پاس پہنچا تو بڑی گرم جوشی سے ملے ۔ بڑی شکایت کی کہ اتنے دن کہاں غائب رہے ۔ ادھر میں نے مثالیں دے کر اپنے غائب رہنے کی ساری وجہیں بیان کیں۔یہ سن کر میری باتوں پر ایمان لے آئے اور خاموش ہوگئے ۔ پھر میں نے پوچھا ’’یہ تو بتایئے آخر وہ کیا کام تھا جس کی خاطر آپ نے اتنے سارے دوستوں کے ذریعہ مجھ تک پیغام پہنچایا ‘‘۔
بولے ’’کام ؟ کیسا کام ؟ کیا کام کے بغیر ہمیں نہیں ملنا چاہئے ۔ کیا کام کے بغیر میں تمہارے لئے بے چین نہیں رہ سکتا ۔ میں تو بس یہ چاہتا تھا کہ تم آج شام کافی ہاؤس آؤ ۔ کافی پیو ، کچھ باتیں ہوں ، کچھ گپ شپ ہو ۔ کیا یہ کچھ اہم کام نہیں ہے ؟ ‘‘
میں نے کہا ’’مگر ٹیکسی کا کرایہ ؟ ‘‘
ہنس کر بولے ’’وہ تو ٹیکسی ڈرائیور کے پاس ہی رہے گا ‘‘۔
اس دن میں نے محسوس کیا کہ یہ حضرت پٹڑی سے اُترے ہوئے ہیں۔ اُن کے ساتھ نارمل آدمیوں کی طرح پیش نہیں آنا چاہئے ۔ وہ اکثر مجھ سے کہتے ہیں ’’مجھے تم سے عشق ہوگیا ہے ‘‘۔ ہوا کرے مگر میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ مجھ سے عشق فرمانے کیلئے مئی جون کی چلچلاتی دھوپ میں پیدل چل کر میرے دفتر پہنچیں اور صرف پانی کا ایک گلاس پی کر واپس ہوجائیں ۔ میں نے فکر تونسوی کو جس قدر قریب سے دیکھا ہے اس سے یہی اندازہ لگایا ہے کہ اردو کے اس بڑے طنز نگار کے اندر ایک معصوم گنوار بیٹھا ہوا ہے ۔ یہ گنوار انہیں اپنے گھر کے خوبصورت صوفہ پر اُکڑوں بٹھواتا ہے ۔ یہی گنوار اُن کے کان میں سگریٹ کا ادھ جلا ٹکڑا رکھوا دیتا ہے ۔ یہی گنوار انہیں چائے کی پیالیوں میں سگریٹ کی راکھ جھاڑنے پر مجبور کرتا ہے اور تو اور یہی گنوار اُن سے ریفریجریٹر میں ’’بدنام کتاب‘‘ کے نسخے رکھواتا ہے ۔ پرسوں میں نے ان کے گھر کا فریج کھولا تو دیکھا کہ ’’بدنام کتاب‘‘ کے دو نسخے بڑی قابل رحم حالت میں وہاں پڑے تھے ۔ میں ریفریجریٹر میں کتابیں دیکھ کر ہنسنے لگا تو خفّت مٹانے کیلئے بولے ’’بھئی میں نے اصل میں پانی پینے کیلئے فریج کھولا تھا ۔ شاید غلطی سے یہ نسخے وہاں رہ گئے ایمان سے ‘‘ ۔ پھر خود ہی کچھ سوچ کر ایک طنزیہ فقرہ میری طرف اچھالتے ہوئے بولے ’’مگر یار یہ کوئی غلط بات نہیں ہے ۔ اردو کی کتابیں اب ریفریجریٹر میں ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں‘‘۔
میں پھر ہنسنے لگا تو بولے ’’دیکھ بیٹا مجھے یہ فریج ، یہ ٹی وی ، یہ صوفہ سیٹ ، یہ قالین ایک آنکھ نہیں بھاتے ایمان سے ۔ میں تو بڑی مشکل کے ساتھ ان سے اڈجسٹ کرتا ہوں۔ یہ پھول کمار نہ جانے گھر میں کیا کیا لاکر بھرتا چلا جارہا ہے ‘‘۔
فکر تونسوی نے یہ بات کچھ اس معصومیت سے کہی کہ میں اپنے سارے وجود میں مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو محسوس کرنے لگا۔ مجھے اپنے بچپن اور نوجوانی کے وہ دن یاد آگئے جو کھیتوں کے درمیان گزرے تھے ۔ تازہ تازہ فصلوں کی مہک ، ہرے بھرے کھیتوں کی دوشیزگی ، مویشیوں کی آوازیں سب کچھ ذہن میں تازہ ہوگئیں۔ مجھے یوں لگا جیسے فکر تونسوی کے اندر چھپا ہوا گنوار میرے اندر چھپے ہوئے گنوار کو آنکھ مار رہا ہے۔ میں حیران رہ گیا کہ ٹی وی سٹوں ، ریفریجریٹروں ، گیزروں ، ایرکنڈیشنروں ، صوفہ سٹوں اور نیون سائن لائیٹوں کے نیچے دبے ہوئے گنوار جب جاگ پڑتے ہیں تو کتنے معصوم اور قابل محبت نظر آتے ہیں۔