فوری طلاق ثلاثہ غیرقانونی، شوہر کیلئے 3 سال سزائے قید

جرمانہ عائد کرنا بھی ممکن ، طلاق ثلاثہ قانون کا مجوزہ مسودہ ، ریاستوں کو رائے طلبی کیلئے روانہ

نئی دہلی ۔ یکم / ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) فوری طور پر طلاق ثلاثہ دینا غیرقانونی قرار دیا جائے گا اور کالعدم کردیا جائے گا ۔ طلاق دینے والے شوہر کو تین سال کی سزائے قید دی جاسکے گی ۔ ایک مسودہ قانون کے بموجب جس کا مقصد طلاق ثلاثہ کے عمل کا انسداد ہے جو سپریم کورٹ کی جانب سے اسے کالعدم قرار دینے کے باوجود جاری رکھا گیا ہے ۔ یہ مسودہ مسلم خواتین تحفظ حقوق برائے شادی قانون کا حصہ ہوگا ۔ اسے رائے حاصل کرنے کیلئے ریاستی حکومتوں کو روانہ کردیا گیا ہے ۔ ایک سرکاری سینئر عہدیدار نے کہا کہ ریاستی حکومتوں سے مسودہ کے بارے میں فوری رائے دینے کی خواہش کی گئی ہے ۔ یہ مسودہ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی زیرقیادت ایک بین وزارتی گروپ نے تیار کیا تھا ۔ دیگر ارکان نے وزیر خارجہ سشما سواراج ، مرکزی وزیر فینانس ارون جیٹلی ، مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد اور ان کے جونیر پی پی چودھری شامل تھے ۔ مجوزہ قانون صرف فوری طلاق ثلاثہ یا طلاق بدعت پر لاگو ہوگا اور یہ متاثرہ کو بااختیار بنائے گا کہ وہ مجسٹریٹ سے گزارا الاؤنس کیلئے جو اس کے اور اس کے نابالغ بچوں کیلئے ادا کیا جائے گا ، رجوع کرسکیں ۔ خاتون نابالغ بچوں کو اپنی تحویل میں دینے کی گزارش بھی مجسٹریٹ سے کرسکے گی جسے اس کے قطعی فیصلے کا اختیار ہوگا ۔ مجوزہ مسودہ قانون کے تحت طلاق ثلاثہ چاہے کسی بھی نوعیت کی ہو زبانی یا تحریر یا برقی ذریعہ سے جیسے ای میل ، ایس ایم ایس اور واٹس اپ کے ذریعہ دی جائے غیرقانونی اور کالعدم قرار دی جائے گی ۔

قانون کی دفعات کے تحت گزارا الاؤنس اور تحویل کے احکام کے دوران اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ شوہر بیوی کو اپنے گھر کا تخلیہ کرنے کیلئے کہتا ہے یا نہیں اور متاثرہ خاتون تحفظ طلب کرتی ہے یا نہیں ۔ جموں و کشمیر کے سوائے یہ قانون پورے ملک پر نافذ کیا جائے گا اور تین سال کی سزائے قید کے علاوہ جرمانہ بھی عائد کیا جاسکے گا ۔ اس مقدمہ میں وارنٹ ناقابل ضمانت ہوگا اور طلاق ثلاثہ کو فوجداری جرم تصور کیا جائے گا ۔ عہدیدار نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکمنامہ حکومت کی نظر میں اس رواج کو ختم کرنے سے قاصر رہا ۔ کیونکہ یہ رواج اب بھی جاری ہے ۔ فوری طلاق ثلاثہ کے 177 واقعات کی فیصلے سے پہلے اور 66 کی حکم جاری کئے جانے کے بعد جاریہ سال ہونے کی اطلاع ہے ۔ یو پی سرفہرست ہے ۔ چنانچہ حکومت نے قانون منظور کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ عہدیداروں کے بموجب قانون کی دفعات گھریلو تشدد قانون میں بھی شامل کی جائیں گی۔ یہ قانون ایسے مقدمات کے سلسلے میں زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوا ۔ حکومت کے علاوہ وزیراعظم کا دفتر کئی خواتین سے شکایتیں حاصل کرچکا ہے ۔ طلاق اور شادی کا موضوع اس وقت زیرغور آیا جبکہ دستور ہاہند اور پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں ہنگامی حالات نے قانون منظوری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔