کلدیپ نیر
کشمیر میں دو لڑکے ہلاک کردئے گئے ۔ یہ واقعہ بجائے خود گھناؤنا ہے ۔ ایک سفید رنگ کی کار کو ایک اسی طرح کی دوسری کار سمجھ لیا گیا جو دہشت گردوں کی نقل و حرکت کے لئے استعمال کی جاتی تھی ۔ کار پر بیک وقت 115 گولیاں چلائی گئیں ۔ زندہ بچ رہنے والا واحد شخص ایک لڑکا ہے ،جس نے کہا کہ گولیوں کی مسلسل بوچھار اس وقت بھی نہیں رکی جبکہ کار ایک درخت سے ٹکرا کر رک گئی ۔ فوج نے غلطی کا اعتراف کیا ہے ۔ جس تیزی کے ساتھ یہ کام کیا گیا ،نشان دہی کرتی ہے کہ بندوق چلانے کا جنون رکھنے والے کی فوری شناخت کرلی گئی ۔ مکمل تحقیق کا پہلے ہی حکم دیا جاچکا ہے ۔ ممکن ہیکہ اس سے سچائی ظاہر ہو ۔ اس کے باوجود اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہوگا کہ کس نے کس کو ہلاک کیا ۔ زیادہ بڑی تصویر اس کے بعد بھی سامنے نہیں آئے گی ۔ صداقت تو یہ ہے کہ حکومت ہند حقائق کا سامنا ہی نہیں کرنا چاہتی ۔ اس واقعہ سے دو باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔ ایک تو داخلی سلامتی کے لئے مسلح افواج کا مستقل استعمال اور دوسرے وہ سرسری انداز جس میں معاملات سے نپٹا جاتاہے ۔ وادی کشمیر کا یکا و تنہا کردیا جانا بالکل واضح اور بلند آہنگ ہے ۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اور نہ یہ انتظامیہ کی کوتاہی ہے ۔ تاہم نئی بات یہ ہے کہ سخت یا نرم انتظامیہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ حقیقت بہت گہری ہے ۔ ایک تبدیلی یہ ہے کہ لوگ ان کے درمیان فوج کے موقف کے بارے میں الجھن کا شکار ہیں ۔ انھیں اس سے نفرت ہے کیونکہ وہ ایک قسم کی قبضہ گیر فوج کے مانند ہے ۔ لڑکھڑاتے انتظامیہ کو فوج کی تائید نفرت کی وجہ ہے ۔ اس کے باوجود جس انداز میں فوج نے لوگوں کی مدد کی ،جبکہ سیلاب آیا تھا
جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ،اس نے عوام کے دل جیت لئے ۔ فوج نے نہ صرف ان کی جان بچائی ، ان کی املاک بچائی بلکہ سیلاب سے متاثرہ ہزاروں افراد کوطبی امداد پہنچائی ۔ فوج نے انھیں کئی ہفتے کھانا فراہم کیا ۔ اور ان علاقوں تک پہنچے جو کٹ کر باقی وادی سے الگ ہوگئے تھے اور وہاں پھنسے ہوئے سینکڑوں افراد کو بچایا ۔ ان کی شبیہ کہ وہ جابر ہیں بیشک تھوڑی سی پھیکی پڑی ہے ،لیکن ان کی موجودگی اب بھی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے ۔ چیف منسٹر عمر فاروق عبداللہ درحقیقت ریاستی پولیس کو مستحکم کرنے کوشاں ہیں کہ وہ نظم و ضبط کے مسئلہ سے نمٹ سکے ۔ اس کے باوجود جب بھی بے قابو صورتحال سے نمٹنے فوج کی مدد لی جاتی ہے مرکزی حکومت بدنام ہوتی ہے ۔ اسے کئی معنی پہنائے جاتے ہیں ۔ مرکزی اور ریاستی حکومت دونوں نے وسیع تر آبادی کی صورت حال پر قابو پانے میں فوج پر طویل مدت تک یعنی خود سے زیادہ انحصار کیا ہے ۔ یہ جمہوریت کی تردید ہے ،جس پر ہمیں شرمندہ ہونا چاہئے ۔ ملک پر حکومت کرنے والے دستور نے تمام شہریوں کو ان کی شناخت ،ذات پات اور رنگ و نسل کا لحاظ کئے بغیر مساوی موقف فراہم کیا ہے ۔ اسکے باوجود بھی بدنما صورت حال یہ ہے کہ کئی نوجوان اب بھی لاپتہ ہیں ۔ ان میں سے چند کے اغوا کا الزام دہشت گردوں پر لگایا جاسکتا ہے تاکہ ان کی ذہن سازی کی جائے یا زرِتاوان طلب کیا جائے ۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ تعداد محدود ہے ۔ لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے غائب ہونے کے پس پردہ مرکزی حکومت کا ہاتھ ہے ۔ یہ تاثر اس وقت اور گہرا ہوجاتا ہے جب غائب ہونے سے متعلق معاملات کی قابل اطمینان انداز میں وضاحت نہیں کی جاتی جبکہ بحیثیت مجموعی نگرانی کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہے ۔
ان تمام کے لئے شفافیت کی ضرورت ہے ،خاص طور پر ایسے معاملات میں جو کبھی روشنی میں نہیں آئے یا عدالتوں میں ان کو نیم دلی سے پیش کیا گیا ۔ اگر لوک پال جیسا ادارہ ہوتا جو سیاسی وجوہات کی بنا پر موجود نہیں ہے ، معاملہ کا کوئی نہ کوئی فیصلہ ہوجاتا لیکن ہمیں اب کارروائی کے لئے سیاسی پارٹیوں کی حساسیت پر انحصار کرنا پڑتا ہے درحقیقت یہ وہی لوگ ہیں جن کے نمائندے پارلیمنٹ میں ہیں جو قطعی اختیار رکھتی ہے ۔ افسوس کہ اس کا کوئی پتہ نہیں ہے کیونکہ وہ سیاسی کارروائیوں میں مصروف ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں نے ملک کی فوری ضروریات کو فراموش کردیا ہے ۔ نصف آخر کو اصل دھارے میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ انھیں یہ محسوس ہوسکے کہ ملک ان کا بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ نصف اول کا ہے ۔ جنگ آزادی کے دوران بلاامتیاز سب کے لئے بہتری کا تیقن دیا گیا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ گھروں کی چھتوں سے پکار پکار کر کہا گیا تھا کہ حکومت آزادی غذا ،رہائش گاہ اور روزگار ملک کے تمام عوام کو فراہم کرے گی ۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ امیر لوگ تمام افراد کی دولت کے صرف امین ہوں گے ۔ جنگ آزادی کی ایک اور مثالی شخصیت پنڈت جواہر لال نہرو نے سوشلزم کی بات کی تھی ۔ نہرو جو ملک پر 17 سال حکمران رہے ،عوامی زیر انتظام اداروں کو تیقن دیا کہ وہ عروج پر آجائیں گے ۔ ملک میں چھوٹے پیمانے کی صنعتیں عروج پر آجائیں گی ۔ لیکن یہ تمام باتیں صرف کاغذ پر رہیں۔ دفتر شاہوں نے پورے نظریہ کو پیچیدہ بنادیا ۔تاہم بعد کی حکومتوں نے چاہے وہ کانگریس زیر قیادت محاذ کی ہوں یا بی جے پی زیر قیادت محاذ کی ،تیقن بہت کم دئے لیکن عمل بہت کم کیا ۔ عام آدمی کی حالت بہتر نہیں ہوئی ۔ وہی نتیجہ نکلا کہ امیر ، امیر ترین اور غریب ، غریب تر ہوتے گئے ۔
وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنی انتخابی مہم میں تیقن دیا کہ لوک سبھا میں 282 نشستیں حاصل ہوجائیں تو وہ ملک میں انقلابی تبدیلی لانے کے لئے بعض اقدامات کرنے کے قابل ہوں گے ۔ ان کا جادو ٹوٹ رہا ہے تاہم لوگو ںکو اب بھی امید ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے ۔ تبدیلی کے لئے قانون سازی ضروری ہے جس میں ممکن ہے کہ کچھ تاخیر ہوجائے ۔ لیکن انتظامی اقدامات فوری طور پر کئے جاسکتے ہیں تاکہ حکمرانی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی تو نظر آئے ۔
یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کشمیر کی صورتحال معمول پر آنے میں وقت لگے گا ،لیکن مودی انتظامیہ کم از کم یہ اطلاع تو دے سکتا ہے کہ تبدیلی عنقریب آئے گی ۔ مسلح افواج (خصوصی اختیارات) قانون پر دوبارہ غور ضروری ہے ۔ مسلح افواج کو صرف شبہ پر ہلاک کرنے کا اختیار ایک جمہوری ملک میں حد سے زیادہ اختیار ہے ۔ دو لڑکوں کی ہلاکت کم از کم حکومت کو تحریک دے گی کہ وہ اس قانون پر از سر نو غور کرے ۔