فلم ’ پدماوت ‘ کا تنازعہ جنونی عناصر کی غنڈہ گردی

خلیل قادری
ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں 69 ویں یوم جمہوریہ تقاریب منائی جا رہی تھیں اس سے چند دن قبل سے فلم ’ پدماوت ‘ کے تعلق سے تنازعہ نے وہ ماحول پیدا کردیا جو ہندوستان میں شائد ہی کبھی پیدا ہوا تھا ۔ اس فلم کی مخالفت کرنے والے جنونیوں نے جو غنڈہ گردی کی اس کی مثال شائد ہی مل سکے ۔ ایک فلم کی وجہ سے ملک بھر میں جو افرا تفری کا ماحول پیدا کردیا گیا تھا اور جو مسلسل بحث میڈیا کے ذریعہ شروع کردی گئی تھی اس نے ہمیں سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر اس ملک میں قانون کی حکمرانی چلے گی یا پھر چند مٹھی بھر جنونی عناصر سارے ملک کو یرغمال بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ حالانکہ یہ فلم ریلیز ہوگئی ہے اور اس پر کوئی بڑا احتجاج ہوا نہ کوئی حادثہ پیش آیا ہے ۔ نہ کوئی تھیٹر جلی ہے اور نہ ہی کسی ادارکار یا فلمساز کو کوئی گزند پہونچائی گئی ہے لیکن اس سارے تنازعہ نے ملک میں جنونی عناصر کو ایک بار پھر امن پسند ہندوستانیوں کیلئے ایک چیلنج کے طور پر لاکھڑا کردیا ہے ۔ ویسے تو ملک میں ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے گائے کے نام پر انسانوں کا قتل ہو رہا ہے ۔ گوشت رکھنے کے محض شبہ میں بے قصور افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے اور ملک کے عوام کی حب الوطنی پر ایک مخصوص نظریہ اور فکر والے وہ عناصر سوال کرنے لگے ہیں جن کی خود کی حب الوطنی پر کئی سوال کئے جاسکتے ہیں۔ ہندوستان کی جو روایات رہی ہیں ان کو ان جنونیوں کی جانب سے تباہ کیا جا رہا ہے اور ساری دنیا میں ان عناصر کی وجہ سے ملک کی امیج اور شبیہہ متاثر ہونے لگی ہے ۔ یہاں ہماری بحث نہ فلم کے تعلق سے ہے اور نہ اس فلم میں پیش کی گئی کہانی سے ہے ۔ تاہم اس فلم کی وجہ سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ ہمیں ضرور سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آخر ہندوستان کس سمت میں جا رہا ہے ۔ یہاں جنونی عناصر اس قدر ہٹ دھرم ہوگئے ہیں کہ ہر کوئی ملک کو اپنی سوچ کے مطابق کھینچنا چاہتا ہے ۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ جو فرمان جاری کرے سارا ملک اس کی پابندی کرے ۔ ان عناصر کیلئے عدالتوں کا احترام بھی اب معنی نہیں رکھتا ۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے باوجود بھی یہ عناصر اپنی ہٹ دھرمی جا ری رکھے ہوئے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتیں محض اپنے ادنی سے سیاسی مفادات کیلئے ان عناصر کی سرکوبی سے کترانے لگی ہیں۔ جہاں حکومتیں اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر ہیں وہیں اپوزیشن جماعتوں کے سامنے بھی سیاسی مصلحتیں ہیں اور وہ بھی کھل کر اپنی ذمہ داری نبھانے تیار نہیں ہیں۔ یہی وہ صورتحال ہے جن کی وجہ سے فرقہ پرستوں اور جنونی عناصر کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اس طرح کی ہٹ دھرمی کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔
فلم کی ریلیز سے قبل بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں جو غنڈہ گردی کی گئی اور عملا دہشت مچائی گئی اس پر حکومتوں کی خاموشی انتہائی افسوسناک ہے ۔ ملک کی راجدھانی اور اس سے متصل شہروں میں غنڈہ گردی کا جو ننگا ناچ کیا گیا اس نے سارے ملک کو شرمسار کردیا ہے ۔ ان جنون پسندوں نے معصوم اسکولی بچوں کی بس کو تک نہیں بخشا اور اس پر حملہ کردیا ۔ اسکولی بس میں معصوم بچے جب اپنے گھروں کو واپس ہو رہے تھے اس پر سنگباری کی گئی ۔ معصوم بچے جس طرح خوف کے عالم میں بلک رہے تھے اور ان کے چہروں پر دہشت طاری ہوگئی تھی کم از کم اس پر حکومتیں حرکت میں آنی چاہئے تھیں لیکن ان حکمرانوں کے سامنے صرف مصلحتیں اور ووٹ بینک کی اہمیت ہوتی ہے ۔ کوئی چشم تصور سے اس اسکولی بس میں بچوں کے خوف و دہشت کا اندازہ کرنے میں کامیاب ہوجائے تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے ۔ ایک سرکاری بس کو بھی نذر آتش کردیا گیا ۔ دوسری گاڑیاں بھی پھونک دی گئیں۔ یہ ساری کارستانی ان غنڈہ اور دہشت گرد عناصر کی تھی جو خود کو راجپوت قرار دیتے ہیں اور اس فلم کی نمائش روکنا چاہتے تھے ۔ جو واقعات پیش آئے ہیں ان سے راجپوتوں کی بہادری کی کوئی مثال نہیں ملتی بلکہ یہ اعلی اقدار والے عوام کو شرمسار کرنے والی حرکتیں تھیں۔ اس قدر خوفناک ماحول اور کھلے عام غنڈہ گردی کے باوجود حکومتیں غفلت کی نیند سورہی تھیں۔ نہ کسی ریاستی حکومت نے ان واقعات کی مذمت کی اور نہ ہی ملک کے ذمہ دار وزیر اعظم نے لب کشائی ضروری سمجھی ۔ حد تو یہ ہے کہ ہر معمولی مسئلہ پر ٹوئیٹ کرنے والے وزیر اعظم نے ایک ٹوئیٹ تک کرتے ہوئے بچوں سے ہمدردی کا اظہار بھی نہیں کیا ۔ یہ وہی نریندر مودی ہیں جنہوں نے پاکستان کے شہر پشاور میں اسکول پر ہوئے حملہ کے وقت ٹوئیٹ کرنا ضروری سمجھا تھا ۔ اس حملہ پر انہوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا تھا ۔ انسانیت کے حوالے سے یہ ٹوئیٹ اچھی بات تھی لیکن جب ایسے ہی اسکولی بچوں کو اپنے ہی ملک میں ‘ دارالحکومت کے قریب خوف و دہشت کا شکار کردیا گیا غنڈہ گردی کی گئی تو ملک کے وزیر اعظم نے ایک ٹوئیٹ تک کرنا گوارہ نہیں کیا ۔ یہ محض مصلحت کی سیاست ہے اور ووٹ بینک سے دلچسپی کا نتیجہ ہے ۔ جس وقت پاکستان میں اسکول پر حملہ ہوا تھا اور کمسن بچے ہلاک ہوگئے تھے اس وقت خود بی جے پی کے کئی قائدین اور خاص طور پر سبرامنین سوامی نے بھی ٹوئیٹ کرتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا سبق پڑھایا تھا ۔ اب وہی سبرامنین سوامی کو بھی ایسا لگتا ہے کہ سانپ سونگھ گیا ہے ۔ وہ بھی حکومت کو ان بچوں کو نشانہ بنانے والے غنڈہ اور دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کا مشورہ دینے تیار نہیں ہیں۔ یہ ان سیاست دانوں کی ڈوغلی پالیسی اور دوہرے معیارات ہیں۔ اس سارے تنازعہ نے یہ ضرور واضح کردیا ہے کہ ہندوستان کے سیاستدانوں کے سامنے صرف ووٹ بینک کی سیاست کی اہمیت ہے ۔ ملک کے معصوم بچوں کی انہیں کوئی پرواہ نہیں رہ گئی ہے ۔
حیرت اور افسوس تو اس بات پر بھی ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فلم کی ریلیز کی اجازت دئے جانے کے باوجود بی جے پی کے قائدین اور مرکزی وزرا بھی احتجاج کی مدافعت میں اتر آئے ہیں۔ دہشت پھیلانے اور غنڈہ گردی کرنے والے عناصر کی سرکوبی کیلئے کوشش کرنے اور تشدد و نفرت کے ماحول کی مذمت کرنے کی بجائے احتجاج کی مدافعت کی جا رہی ہے اور اس سے جنونیوں اور نفرت پھیلانے والوں کے حوصلے بلند ہی ہونگے ۔ بی جے پی کے چیف منسٹروں نے سپریم کورٹ کے احکام کے باوجود سنیما گھروں کے مالکین کو درپردہ نتائج کا انتباہ دیتے ہوئے فلم کی نمائش سے باز رکھا وہیں مرکزی وزیر وی کے سنگھ جو سابق فوجی سربراہ بھی ہیں فلم پدماوت کے خلاف ہونے والے احتجاج کی مدافعت کرتے ہیں۔ انہیں غنڈہ گردی اور دہشت کا ماحول نہیں دکھائی دیتا ۔ انہیں معصوم بچوں کے چہروں پر پیدا ہوئے خوف کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ انہیں جو تشدد اور آگ زنی ہوئی ہے اس کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ وہ تو صرف سیاسی مقصد براری چاہتے ہیں اور اسی لئے ان کا کہنا تھا کہ جو کوئی کام کسی اتفاق رائے کے بغیر ہوتا ہے اس کے خلاف احتجاج تو ہوتا ہی ہے ۔ یقینی طور پر جمہوریت میں ہر کسی کو اپنی بات واضح کرنے اور احتجاج کرنے کا حق بھی حاصل ہے لیکن یہ حق کسی کو نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے احکام کو خاطر میں نہ لائے ۔ یہ آزادی کسی کو نہیں دی گئی ہے کہ معصوم بچوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے خوف کا شکار کردیا جائے ۔ ان کی بس پر سنگباری اور پتھراؤ کیا جائے ۔
اس سارے تنازعہ میں ایک مخصوص سوچ کے حامل گوشوں کے بھی دوہرے معیارات سامنے آگئے ہیں۔ کشمیر میں معصوم عوام پر پیلٹ گن استعمال کرنے کی وکالت کرنے والوں کو معصوم بچوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پیلٹ گن استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ معمولی اور بے بنیاد باتوں پر مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے والے میڈیا کو اب ان جنونیوں میں کوئی دہشت گرد نظر نہیں آیا ۔ حد تو یہ ہے کہ فلم کی مخالفت کرنے والے عناصر ٹی وی مباحثہ میں حصہ لینے تلواروں کے ساتھ پہونچ گئے ۔ انہیں تلواریں لہراتے ہوئے مباحثہ میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا ۔ ان کی بات سنی گئی اور ایک طرح سے انہیں منانے کے جتن کئے گئے لیکن کسی نے ان کے ہتھیاروں کے ساتھ گھومنے پر کوئی سوال نہیں کیا اور نہ ہی نفاذ قانون کی ایجنسیوں نے از خود کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات درج کئے ۔ غرض یہ کہ فلم پدماوت سے پیدا ہوئے تنازعہ نے کئی گوشوں کی قلعی کھول دی ہے ۔ جہاں حکومتوں کی بے حسی اور مفاد پرستی اس تنازعہ سے واضح ہوگئی وہیں میڈیا گھرانوں کے ڈوغلے پن اور دوہرے معیارات کو بھی ملک کے عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔ غنڈہ عناصر اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ نیشنل ٹی وی پر سارے ملک کے سامنے اس ملک کے مجاہدین آزادی کی توہین اور ہتک کرتے رہے ۔ ان کے تعلق سے ناشائستہ زبان استعمال کرتے رہے اور کسی محب وطن کو اس پر لب کشائی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ اس سارے تنازعہ کے بعد ملک کے صحیح الفکر عوام کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی کہ جنونی عناصر کو سارے ملک کو یرغمال بنانے کا موقع دیا جانا چاہئے ۔ انہیں حکومتوں کے رویہ کا بھی جائزہ لینا چاہئے ۔ جب تک ملک کے عوام ہی اس ملک کو امن کا گہوارہ بنانے اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے آگے نہیں آئیں گے اس وقت تک پدماوت جیسے تنازعات پیدا ہوتے رہیں گے ۔