فلم پدماوت تاریخ مسخ کرنے کی ایک اور کوشش

محمد مبشر الدین خرم

ہندستان کی عظیم تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس طرح کی کوششوں کے ذریعہ ملک کی تہذیب و تمدن کو نقصان پہنچانے کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں لیکن دور حاضر میں تاریخ کو مسخ کرنے کیلئے جو عصری سہولتوں کا استعمال کیا جا رہاہے وہ انسانیت کی تاریخ میں سب سے بدترین دور ثابت ہونے لگا ہے کیونکہ تاریخ کو مسخ کرنے کیلئے اب کتابوں کی ضرورت باقی نہیں رہی بلکہ تاریخ کو مسخ کرنے کیلئے فلمیں بنائی جانے لگی ہیں اور ذرائع ابلاغ و اظہار خیال کی آزادی کے نام پر کسی بھی افسانہ کو بنیاد بناتے ہوئے کسی کی بھی کردار کشی کو جائز قرار دیا جانے لگا ہے اور ان کوششوں پر روک لگانے کے بجائے حکومت کی جانب سے حقیقی تاریخ کو مسخ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جانے لگی ہے جو کہ آئندہ نسلوں میں نفرت پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ علاء الدین خلجی اور پدماوتی پر بنائی گئی فلم ’’پدماوت‘‘ پر کرنی سینا کی جانب سے کیا جانے والا پر تشدد احتجاج اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تاریخ سے واقف نہیں ہیں یا پھرحقیقی تاریخ سے وہی واقف ہیں جو نہیں چاہتے تھے کہ علاء الدین خلجی کو اس طرح کے منفی کردار میں پیش کیا جائے لیکن فلمساز نے موجودہ ماحول میں ہندوتوا کو ہوا دینے کے علاوہ ’’لو جہاد‘‘ نامی پروپگنڈہ کے خلاف جو کہانی تیار کی ہے وہ قابل ستائش ہے لیکن اس کہانی میں جو کردار علاء الدین خلجی کا دکھا یا گیا ہے اس سے کئی مؤرخین کو اختلاف ہے کیونکہ وہ علاء الدین خلجی کے طرز حکمرانی کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ علاء الدین خلجی نے ہندستان کو تہذیب و تمدن دیا ہے اور مغلوں کے خاتمہ کے لئے خلجی نے ہندستان کا رخ کیا اور پدماوتی اور میواڑ کی کہانی من گھڑت ہے ۔ مؤرخین کا کہناہے کہ علاء الدین خلجی یقینی طور پر ایک جنگجو بادشاہ گذرا ہے لیکن جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ خلجی انصاف پسند اور اصلاحات پسندبادشاہ بھی گذرا ہے۔
علاء الدین خلجی کو پدماوت فلم میں جس طرح منفی کردار میں دکھا یا گیا ہے وہ نہ صرف خلجی کی توہین ہے بلکہ ہندستان میں جاری اس دور حکمرانی کے نظام ارزاں فروشی کی توہین کے بھی مترادف ہے جو کہ علاء الدین خلجی کا تیا رکیا ہوا ہے ۔ ہندستان میں کالا بازاری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف قوانین کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو خلجی نے ہندستان میں سب سے پہلے کالابازاری کے خلاف قانون بنایا تھا اور ذخیرہ اندوزی کو جرم قرار دیا تھا۔پدماوت کے ذریعہ علاء الدین خلجی کی شخصیت کو جابر اور عیاش دکھانے کی کوشش کی گئی ممکن ہے عیاشی کا عنصر بوجہ اقتدار اس کے خون میں موجود تھا اور یہ تو ’’صاحب اقتدار‘‘ کے خون میں ہوتا ہی ہے وہ تو شاہی تھی لیکن اب جمہوری ’’صاحب‘‘ بھی کسی پر نظریں رکھواتے ہیں جبکہ ان کی اپنی بیوی اپنے حقوق کو ترس رہی ہے اور یہ کوئی تاریخ نہیں ہے بلکہ یہ تو ہمارے اپنے دور کے ’’صاحب‘‘ کی بات ہے ۔ہندستان میں راجپوتانہ تہذیب کی کئی مثالیں فلموں کے ذریعہ پیش کی گئی ہیں جس کی سب سے بہترین مثال ’’مغل اعظم ‘ ‘ ہے جس میں کے آصف نے راجپوت خاندان کی سوپتری ’’جودھا بائی‘‘ کی کوکھ سے ’’شہزادہ نور الدین بیگ محمد سلیم‘‘ کے جنم اور اس کی تربیت کے ساتھ سلیم کی محبت کی داستاں کو پیش کیا اور اس کے بعد بھی کئی ایسے واقعات ملیں گے جس میں راجپوتوں کی مسلم شاہی گھرانو ںمیں رسائی کے ذرائع خواتین ہی رہی ہیںاور اگر فلموں میں دکھا ئی جانے والی تاریخ کو بھی مان لیا جائے تو شاہوں کی ان حرکات کے ذمہ دار کوئی راجپوت اور برہمن ہی رہے ہیں خواہ مغل اعظم کے ’درجن سنگھ ‘ ہو یا ’’پدماوت‘‘ کے ’راگھو چیتن‘ نے ہی اپنی حکومتوں سے بغاوت کی اور تباہی کو دعوت دینے کے مرتکب بنے رہے۔
1296تا1316 جاری رہنے والے خلجی دور حکومت کے متعلق مختلف آرائیں مختلف مؤرخین نے تحریر کی ہیں اور بعض مؤرخین کی رائے کو قبول کیا جائے تو علا ء الدین خلجی کو ہندستان میں بابائے معاشی اصلاحات قرار دیا جانا چاہئے کیونکہ ’’قرون وسطی‘‘ کے ہندستان نامی کتاب جو ستیش چندرا کی تحریر کردہ ہے اس کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ علاء الدین خلجی نے نہ صرف سلطنت دہلی میں نظام ارزاں فروشی قائم کیا اور ذخیرہ اندوزی کو جرم قرار دیا بلکہ بیرون ملک صنعتکاروں کی مصنوعات بلخصوص پارچہ کو مخصوص بازار کے ذریعہ او ر سلطنت کی جانب سے طئے شدہ قیمت پر ہی فروخت کرنے کا فیصلہ بھی اسی بادشاہ نے کیا اس کے علاوہ زرعی اصلاحات میں خلجی کا اہم رول رہا جس نے قابل کاشت اراضیات سے ہونے والی پیداوار کی قیمتوں کا تعین کیا۔ ہندستان میں فی الحال کسان اپنی پیداوار کیلئے حکومت سے اقل ترین قیمتوں کا مطالبہ کرتے ہوئے خودکشی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور حکومت ملک میں بیرونی راست سرمایہ کاری کو 100 فیصد تک ریٹیل شعبہ میں سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے تو یہ سمجھنے میں دشواری ہونے لگی ہے کہ آیا وہ شاہی حکومت عوام کے مفادات کا تحفظ کر رہی تھی یا یہ جمہوریت عوام کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے؟کسی بھی شخصیت کی تاریخ کو مسخ کرنے سے شخصیت کا کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن اس کی منفی تصویرذہنوں میں اجاگر ہونے لگتی ہے اور انہیں ظالم اور جابر حکمراں تصور کیا جانے لگتا ہے ۔ بادشاہ اپنی حکومت کو وسعت دینے کے لئے جنگ کرے تو اس میں قباحت کیسی؟ دوبارہ یہاں وہی کہنا پڑے گا کہ دور شاہی میں جنگ تلواروں سے کی جاتی تھی اور سلطنتوں کا خاتمہ کرنے کیلئے افواج کا استعمال کیا جاتا تھا اور اب افواج کو سرحدوں پر رکھا جا رہا اور ریاستوں پر قبضہ کیلئے حریفوں کو سی بی آئی نامی فوج کے ذریعہ ختم کیا جانے لگا اتنا ہی نہیں حق و انصاف کی بات کرنے والوں کو ’’لویا‘‘ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا بلکہ بسا اوقات تو گوری لنکیش ‘ کوثر بی بی اور عشرت جہاں جیسے معصوم بھی موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں۔
پروفیسر ارونیما گوپی ناتھ جواہر لعل یونیورسٹی نے ’پدماوت‘ میں دکھائے گئے خلجی کے منفی کردار کو قیاس پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ علاء الدین خلجی کے دور میں طوطیٔ ہند حضرت امیر خسرو عروج پر تھے لیکن کہیں بھی انہوں نے اپنے شعر و سخن میں خلجی کو جابر یا ظالم حکمراں قرار نہیں دیا اسی طرح دور حاضر کی مؤرخ رعنا صفوی نے بھی خلجی کو وحشی اور درندہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خلجی دور حکومت فارسی تہذیب سے متاثر تھا اور جو تہذیب ’پدماوت‘ میں دکھائی گئی ہے اس میں فارسی تہذیب کی کوئی جھلک نہیں ہے بلکہ فارسی تہذیب و تمدن آج بھی ہندستان میں موجود ہے بلکہ موجودہ ہندستانی تہذیب میں بھی فارسی تہذیب کی آمیزش موجود ہے۔ان کا ماننا ہے کہ فلم کی بنیاد ملک محمد جائسی کی ذہنی اختراع ہے جسے فلم ساز نے بنیاد بنایا ہے جبکہ جائسی نے یہ تحریر اودھی میں تحریر کی ہے نہ کہ کسی رجواڑی زبان میں یہ تحریر ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملک محمد جائسی کا تعلق چتوڑ یا راجپوتانہ علاقوں سے نہیں تھا ۔فلم میں رتن سنگھ کو راجپوت راجاؤں کا فخر دکھا یا گیا جبکہ علاء الدین خلجی بہترین فوجی منصوبہ بندی اور جنگی حکمت عملی تیار کرنے والوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ علاء الدین خلجی خود کو دوسرا سکندراعظم بنانے کی کوشش میں تھا اس بات سے کوئی مؤرخ انکار نہیں کرتا لیکن اس کے وحشی اور بدکردار ہونے کی کہیں کوئی مضبوط دلیل نہیں ملتی بلکہ جنگی حکمت عملی‘ معاشی اصلاحات میں کلیدی رول ادا کرنے کے علاوہ حکومت میں اہل علم و دانش کی قدر کرنے والے بادشاہ کی حیثیت سے کئی شواہد ملتے ہیں۔بادشاہوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے بلکہ اس طرح کی کئی کوششیں سابق میں بھی کی جا چکی ہیں اور اب بھی یہ کوششیں جاری ہیں جن کے ذریعہ ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنایا جائے۔
ہندوستانی معاشرہ میں گنگا جمنی تہذیب کی مثال کے طور پر پیش کی جانے والی شخصیتوں کو آزاد ہندستان کے 70 برسوں کے دوران فرقہ پرست ‘ متعصب‘ بدکردار اور ظالم کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں میں اب کامیابی حاصل ہونے لگی ہے لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تاریخ از سرنو تحریر نہیں کی جاسکتی اور تاریخ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے خلاف ہر دور میں کوئی نہ کوئی حقیقی تاریخ کو پیش کرنے کی کوشش میں کامیاب ہوہی جاتاہے ۔سنجے لیلا بھنسالی نے جس تاریخ کو بنیاد بنا کر علاء الدین خلجی کو منفی کردار میں پیش کیا ہے اگر وہ خلجی کے کردار کے مثبت پہلوؤں کو پیش کرتے تو شائد موجودہ حکومت کو کچھ سیکھنے ملتا لیکن اس فلم کی تیاری کے مقصد کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس فلم کی تیاری کے ذریعہ ہندستانیو ںمیں منافرت پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ اس ملک میں جو حکمراں بن کر آئے تھے وہ ظالم تھے لیکن ’پدماوت‘ میں اس حقیقت کو بھی پیش کیا گیا ہے کہ تعدد ازدواج کا مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ راجپوت مہاراجا بھی تعدد ازدواج کے مرتکب رہے ہیں بلکہ ایک رانی کے آتے ہی دوسری رانی کو کڑھائی و بنائی میں مصروف ہونے کے لئے چھوڑنے والے رہے ہیں۔ منافرت پھیلانے کی اس کوشش کے درپردہ مقاصد کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ اقتدار کے حصول کے خواہشمند موجودہ دور کے کردار بابر کے بعد اب ہندستان میں خلجی کے ذریعہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور آئندہ دنوں میں مسلمانوں کو خلجی کی اولاد جیسے ناموں سے پکارا جائے گا جبکہ ہندستانی مسلمان نہ بابر کے لئے آگ بگولہ ہوگا اور نہ ہی خلجی کے لئے بلکہ وہ ہر ہندستانی شہری کی طرح یہی چاہتا ہے کہ اس کے اپنے ملک کی تہذیب و تمدن کو مسخ ہونے سے بچایا جائے اور دنیا بھر میں اپنی منفرد شناخت رکھنے والی ہندستانی تہذیب جو دنیا کی مختلف تہذیبوں کا مجموعہ ہے اس کی چاشنی باقی رہے تاکہ ہندستان دنیا میں کثرت میں وحدت کے درس کا نقیب بنا رہے۔
رانی پدماوتی کی تاریخ خواہ کچھ رہی ہو لیکن اس فلم کے ذریعہ موجودہ دور میں ’لو جہاد‘ نامی پروپگنڈہ کی سرزنش اور اور اپنی عصمت کی حفاظت کا درس دینے کے لئے اس کہانی کو کافی بہتر انداز میں پیش کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ’کیسریا‘ یعنی زعفرانی جھنڈے کی عظمت کو پیش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی بلکہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب کیسریا لہراتا ہے تو نقشہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس فلم کو ہندستان میں ریلیز سے قبل حاصل ہونے والی شہرت کے دوران پاکستان نے اس فلم کو بغیر کسی مکالمہ یا حصہ کو حذف کئے اجازت دیتے ہوئے یہ تاثر دیا ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کی شبیہہ کو بگاڑ کر پیش کیا جا رہا ہے اور وہ اس صورتحال کو اپنے ملک کے عوام کو دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فلم کی تیاری اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے والوں کو شائد اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ ان کی اس حرکت سے دنیا میں ہندستان کی شبیہہ کس طرح متاثر ہوگی بلکہ مؤرخین جو حقیقی تاریخ سے واقف ہیں وہ یہ ماننے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ہندستان میں جب تاریخ کے اوراق محفوظ نہیں ہیں تو کیایہ ممکن ہے کہ ہندستان میں رہنے والے جو کیسریا کو نہیں مانتے اور ملک کے جمہوری اصولوں پر چلتے ہیں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں؟ملک کے دستور کو تبدیل کرنے کی سازش اور زعفرانی قوتوں کی جانب سے ہندستان کے حالات کو مکدر کرتے ہوئے مسلمانوں کے عرصۂ حیات کو تنگ کرنے کی کوشش پر خاموش رہنے والی حکومت اب اس طرح کے ہتھکنڈوں سے شہریوں میں نفرت انگیز مہم چلاتے ہوئے انہیں ملک کی دوسری بڑی اکثریت کا باغی بنانے پر اتر آئی ہے کیونکہ اب بابر کا مسئلہ اہم نہیں رہا تو کوئی اور مسئلہ انہیں چاہئے تاکہ سیاسی دکان کھلی رہے۔