غضنفر علی خان
غزہ پر گزشتہ کئی دنوں سے اسرائیل فضائی اور زمینی حملے کررہا ہے۔ عالمی برادری نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کے اس ظلم کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی۔ عالم اسلام نے فلسطینی باشندوں کے اس قتل عبث سے گویا آنکھیں بند کرلی ہیں۔ دنیا کا ضمیر بھی چپ ہے۔ ویسے بھی دنیا کو کیا پڑی کہ وہ مظلوم، نہتے، کمزور فلسطینیوں کی پرواہ کرے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی کے جن علاقوں پر وہ بمباری، شلباری کررہا ہے، راکٹ برسا رہا ہے وہاں فلسطین کی تنظیم حماس کے انتہا پسند عناصر چھپے ہوئے ہیں اور یہ انتہا پسند اسرائیل کے شہروں خاص طور پر دارالحکومت تل ابیب پر مسلسل راکٹ داغ رہے ہیں۔ حماس اس وقت فلسطین کی حکمراں تنظیم ہے۔ عالمی برادری نے تو اسرائیل کے ظلم و استبداد کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ساری عالمی برادری تماشہ بین بنی ہوئی ہے۔ اسرائیل، امریکہ کا ’’لے پالک‘‘ ہے، اس کی ناجائز اولاد ہے۔ امریکی صدر اوباما نے یہاں تک کہہ دیا کہ اسرائیل کو اپنی مدافعت کا پورا حق ہے۔ مدافعت کا مسئلہ تو فلسطینیوں کو درپیش ہے کیونکہ اس چھوٹے سے ملک پر حملہ اسرائیل کررہا ہے۔ ان حملوں میں ابھی تک 200 سے زیادہ فلسطینی مرد، خواتین اور معصوم بچے جاں بحق ہوگئے ہیں۔
ان یہودی حملوں میں اسرائیل نے فلسطینی آبادیوں کو تباہ کردیا ہے۔ اس جنگ کے یکطرفہ ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ کے 10 ویں دن خبر آئی کہ لڑائی میں ایک ہی اسرائیلی فوت ہوا ہے جبکہ فلسطین کے سینکڑوں باشندے ہلاک ہوگئے ہیں۔ ہزاروں فلسطینی اپنے گھر چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں پناہ لینے اور بے سرو سامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیئے گئے۔ سارے غزہ پٹی کا عملاً اسرائیل نے محاصرہ کرلیا ہے۔ بڑی مشکل سے فلسطینی شہری یہاں سے باہر جاسکتے ہیں۔ اگرچیکہ وزیراعظم اسرائیل نیتن یاہو نے فلسطینیوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے لیکن یہ مگرمچھ کے آنسو کے مماثل ہے۔ اگر فی الواقعی انھیں ہمدردی ہوتی تو وہ فوراً غزہ میں جنگ روک دیتے۔ یہ دراصل اظہار ہمدردی نہیں بلکہ ایک ڈھکوسلہ ہے۔ بلکہ اس جھوٹی ہمدردی کے بعد تو اسرائیل نے اپنے حملوں میں اور بھی شدت پیدا کردی ہے۔ عرب لیگ جو عرب ممالک کا ایک بااثر گروپ ہے نہ تو فلسطین کی حفاظت کے لئے کچھ کررہا ہے اور نہ جنگ بندی کرنے میں کوئی پہل کررہا ہے۔ سعودی عرب نے البتہ اقوام متحدہ پر تنقید کرتے ہوئے اتنا ضرور کہا ہے کہ یہ عالمی ادارہ اپنی شایان شان کوئی قدم جنگ ختم کرانے کے لئے نہیں اُٹھارہا ہے۔
عالم عرب کے حالات اس وقت بدترین ہوگئے ہیں۔ عراق، شام، لیبیا، لبنان میں برادر کشی ہورہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگیا۔ تو دوسری طرف افغانستان میں لاء اینڈ آرڈر بے حد بگڑ گیا ہے۔ غرض مسلم ممالک ایک ایسے نازک دور سے گزر رہے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس زمینی حقیقت سے عالم عرب بلکہ عالم اسلام غفلت برت رہا ہے۔ خود متحد ہوکر ان حالات پر قابو پانے کی کوئی تدبیر نہیں کی جارہی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی عالم اسلام کے خلاف یہودی، نصرانی سب ہی گروہ خطرناک سازش کررہے ہیں۔ ان ممالک کو ہوش نہیں آرہا ہے۔ فلسطین ہی کی بات نہیں دیگر عرب ممالک میں بھی جنگ و جدل کا ماحول گرم ہے اور یہ جنگ کسی دشمن کے خلاف نہیں بلکہ آپس میں برادر کشی کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ جہاں اسرائیل کے اس الزام کا تعلق ہے کہ حماس تل ابیب پر راکٹ داغ رہا ہے اور اسرائیل کو اس کی وجہ سے خطرہ لاحق ہوگیا ہے، صحیح نہیں ہے۔
اسرائیل کو اگر بالفرض محال اپنی مدافعت کا حق دیا بھی جاتا ہے تو اس کو یہ حق کیسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں کو ہلاکت خیز جنگ کا شکار بنائے۔ لڑائی دو فریقین میں ہوتی ہے لیکن ان میں سے کمزور فریق کو ہمیشہ زیادہ نقصان ہوتا ہے جو اس وقت فلسطین میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حکمراں حماس کو جنگ کے بارے میں یہ قول فیصل کو یاد رکھنا چاہئے کہ ’’جنگ میں وہ شہری زیادہ زخمی ہوتے ہیں جو محاذ جنگ پر نہیں جاتے‘‘۔ اسرائیل کے حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینی باشندے سارے کے سارے حماس گروپ کے لوگ نہیں تھے بلکہ ان میں 90 فیصد تو عام فلسطینی شہری ہیں۔ بے گناہ معصوم بچے، خواتین، بوڑھے اور جواں سال فلسطینی باشندے ہیں۔ اسرائیل کی اس زیادتی کا خمیازہ حماس نہیں عام فلسطینی شہری بھگت رہے ہیں۔ یہ کہنا آسان ہے کہ ان کا خونِ ناحق اسرائیل کی گردن پر ہے، یقینا ہے۔ لیکن حماس کو بھی سوچنا چاہئے کہ اس نے مصر کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کرکے خود اپنے کتنے ہی باشندوں کو موت اور ہلاکت کا شکار بنادیا۔ مصری تجویز معقول تھی یا نہیں، یہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن جن حالات سے فلسطین گزر رہا ہے، ان میں تو فوراً جنگ بندی کے لئے رضامندی ہی میں خیر تھی۔ اس تجویز کو مسترد کرکے اقوام متحدہ اور دیگر تمام عالمی اداروں بلکہ عالمی برادری کی نظر میں بھی حماس نے خود کو اسرائیل کے برابر کھڑا کردیا ہے۔
جنگ بندی کے شرائط اتنے اہم نہیں ہوتے جتنی اہم بات یہ ہوتی ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں کی جان بچانے کے لئے لڑائی کو ختم کیا جائے۔ حماس کے اس فیصلہ کے (جنگ بندی مسترد کرنے کا فیصلہ) بعد جتنی جانیں ہلاک ہوں گی جتنے فلسطینی بچے اور عام شہری ہلاک ہوں گے اس کی ذمہ داری اسرائیل کے ساتھ ساتھ حماس پر بھی عائد ہوگی۔ جنگ کے اصولوں میں جنگ سے گریز اور خون خرابہ کم سے کم کرنے کا اصول بھی شامل ہے۔ اس اصول کے تحت بھی حماس کو جنگ بندی کی تجویز قبول کرنی چاہئے تھی۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ جنگ میں سب سے پہلے دشمن کی طاقت کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک سچائی ہے کہ جنگی طاقت کے اعتبار سے حماس اسرائیل کے مقابلہ میں بے حد کمزور ہے۔ جنگ بسا اوقات مساوی طاقت والے ممالک میں ہوتی ہے اس سے کسی ایک ہی فریق کو نقصان نہیں ہوتا بلکہ دونوں کو نقصان ہوتا ہے۔ ابھی تک اس لڑائی میں تادم تحریر 200 سے زیادہ فلسطینیوں کی شہادت ہوئی ہے۔ جبکہ اسرائیل میں صرف ایک سپاہی کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اسرائیل نے جتنے راکٹ غزہ پر برسائے وہ شہری آبادی والے علاقوں پر گرے۔ جبکہ اسرائیل کے کسی شہری علاقہ کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس جنگ کا اسرائیل کی عام آبادی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
سوشیل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی دکھائی جارہی ہیں جن میں اسرائیلی باشندوں کو مسرور ہوکر یہ مناظر دیکھتے ہوئے پایا گیا کہ کس طرح فلسطینی راکٹوں کی زد میں آکر ہلاک ہورہے ہیں۔ گویا فلسطینیوں کی موت بھی اسرائیل کے عام شہریوں کے لئے ایک تماشہ ہے۔ عام شہری اور اسرائیل کے حکمرانوں کے ظالمانہ مزاج میں کوئی فرق نہیں۔ خون خرابہ کیسے تفریح کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کا خون ان کی نظر میں کتنی ارزاں ہے۔ ان کی قیمتی جانیں کتنی بے قیمت ہیں۔ ان تمام باتوں پر حماس کو غور کرنا چاہئے۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ دنیا کا کوئی ملک ان کے نقصان پر کف افسوس تک نہیں مل رہا ہے۔ کوئی آنکھ آنسو نہیں بہا رہی ہے، طاقت میں اسرائیل آگے ہے۔ مومنانہ فراست کا تقاضا ہے کہ جنگ رکوانے میں عجلت کرنی چاہئے۔ حماس نے ایسا نہ کرکے بھی سنگین غلطی کی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فلسطینیوں کا اسرائیل نے قتل عام کیا۔ گزشتہ کئی مرتبہ فلسطینی کیمپوں پر بھی یہی ظلم ڈھایا گیا۔ ماضی کے تجربات سے کچھ نہ سیکھنا دانشمندی نہیں ہے۔ حکومتوں کو چھوڑ کر مختلف ممالک کے عوام البتہ فلسطین پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اُٹھارہے ہیں۔ ہندوستان کے کئی شہروں میں جن میں ہمارا شہر بھی شامل ہے۔ عوامی تنظیموں، طلبہ برادری نے ظلم بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جرمنی کے شہر برلن میں تو ایک عجیب واقعہ ہوا۔
گشت کرنے والی پولیس ویان نے ایک شخص کی درخواست پر اس کو ویان میں بیٹھنے کی اجازت دی۔ جیسے ہی وہ عام شہری پولیس ویان میں بیٹھ گیا ویان میں لگے ہوئے مائیکرو فون پر چیخ چیخ کر اسرائیل کے خلاف نعرے لگانے لگا کہ ’’معصوم بچوں کا فلسطین میں قتل عام بند کرو‘‘۔ دنیا کے عام شہریوں میں احساس ہے کہ اسرائیل ظالم ہے، معصوم بچوں اور نہتے شہریوں کا قاتل ہے لیکن حکومتوں میں ایسا احساس نہیں پایا جاتا۔ ہندوستان میں بھی مختلف شہروں میں مخالف اسرائیل مظاہرے ہوئے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہوئی کہ ہندوستانی پارلیمنٹ میں اسرائیل کی مذمت میں قرارداد پیش کرنے اور منظور کرانے کے حکمراں بی جے پی آمادہ نہیں ہوئی۔ حالانکہ پارلیمنٹ میں موجود تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کے اس رویہ کے خلاف احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ فلسطینی کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات ملک کی آزادی سے قبل ہی سے بے حد دوستانہ رہے ہیں۔ اسرائیل کو تو آزادی کے بعد کئی سالوں تک سفارتی تعلقات سے بھی ہندوستان نے محروم رکھا تھا۔ قومی رہنما گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’فلسطین پر فلسطینیوں کو اتنا ہی حق ہے جتنا فرانس پر فرانسیسیوں کا، برطانیہ پر انگریزوں کا حق ہے لیکن وہ گاندھی جی تھے اور آج ہندوستان پر بی جے پی کی حکومت ہے ’’وقت وقت کی بات ہے‘‘۔