فلسطین میں یونیورسٹی کے قیام کیلئے ریاست حیدرآباد کا گراں قدر عطیہ

ڈاکٹر سید داؤد اشرف آرکائیوز کے ریکارڈ سے
آخری آصف جاہی حکمران میر عثمان علی حان تعلیم کے فروغ اور علم و ادب کی ترقی سے غیر معمولی دلچسپی اور ان کی فیاضی و داد و دہش کی شہرت دنیا کے دور دراز ملکوں تک پہنچ چکی تھی ۔ اہم تعلیمی اور علمی ادارے خواہ وہ برصغیر کے ہوں یا ان کا تعلق بیرونی ملک سے ہو اپنی سرگرمیوں کو بحال اور برقرار رکھنے یا ان کو فروغ و وسعت دینے کے لئے ان کی جانب امید بھری نظروں اور یقین کے ساتھ دیکھتے تھے اور ان کی دی گئی امداد سے مستفید ہوتے تھے ۔ چنانچہ برصغیر کے کئی اہم تعلیمی اور علمی اداروں کے علاوہ انگلستان اور ہالینڈ کے ادارے بھی حیدرآباد کی مالی امداد سے مستفیض ہوئے تھے ۔ یہ مضمون مفتی اعظم فلسطین حضرت سید محمد امین الحسینی کی نمائندگی پر فلسطین میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے دئے گئے گراں قدر عطیے کے بارے میں قلم بند کیا گیا ہے ۔ آرکائیوز کے ریکارڈ کے مواد کی بنیاد پر فلسطین میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے دی گئی امداد کے لئے دی گئی امداد کے بارے میں پیش کردہ تفصیلات پہلی بار منظر عام پر آرہی ہیں ۔

مفتی اعظم فلسطین حضرت سید محمد امین الحسینی فلسطین کے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے بڑے خواہاں تھے ۔ چنانچہ انھوں نے فلسطین میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے ایک پراجکٹ تیار کیا تھا ۔ چونکہ اس پراجکٹ کی تکمیل کے لئے کثیر سرمایہ درکار تھا اس لئے انھوں نے مالیے کی فراہمی کا ایک منصوبہ بند پروگرام بنایا ۔ اس سلسلے میں ہندوستان آئے تھے اور حیدرآباد کا بھی دورہ کیا تھا ۔ یہاں انھیں ریاست حیدرآباد کے آخری حکمران میر عثمان علی خان سے باریابی کا موقع ملا ۔ بعد ازاں انھوں نے ایک معروضے کے ذریعے پراجکٹ کی تکمیل کے لئے مالی امداد کی درخواست کی ۔ اس معروضے پر فلسطین میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے ایک لاکھ روپے کلدار کی گراں قدر مالی امداد منظور کی گئی ۔ مجوزہ یونیورسٹی مالی امداد دینے کے تقریباً دس گیارہ سال بعد بھی قائم نہ ہوسکی ۔ تو وہ رقم چیف سکریٹری بیت المقدس کی درخواست پر دی جنرل عرب کمیٹی فار آرفنس ان پلسٹائن کو دے دی گئی ۔

اردو کے ممتاز شاعر اور رسالہ فاران کے ایڈیٹر ماہر القادری کے مفتی اعظم فلسطین سے شخصی مراسم تھے ۔ وہ ہندوستان ، پاکستان اور فلسطین میں مفتی صاحب سے متعدد بار مل چکے تھے ۔ 1974 ء مفتی اعظم فلسطین کے انتقال ہر ماہر القادری نے اپنے رسالے ’’فاران‘‘ کے لئے ایک مضمون قلم بند کیا جو اب ان کی کتاب یاد رفتگان میں شامل ہے ۔ اسی مضمون میں ماہر القادری مفتی اعظم فلسطین کے بارے میں لکھتے ہیں ’’اب سے پچاس برس پہلے فتنہ یہودیت سے عالم اسلام کو آگاہ کردیا تھا ۔ مفتی اعظم فلسطین نے اس فتنے کی روک تھام کے لئے برسوں جد وجہد کی مگر تنہا وہ کیا کرتے ۔ شروع شروع میں ان کے انتباہ کو شاید وہم ہی سمجھا گیا پھر بیت المقدس کے سقوط اور یہودی حکومت کے قیام کا جو المیہ ظہور میں آیا اس نے نہ صرف عربوں کو بلکہ تمام ملت اسلامیہ کی عزت و وقار کو دھچکا لگایا … مفتی اعظم فلسطین بین الاقوامی شخصیت اور عالمی شہرت کے مالک تھے ۔یورپین طاقتیں ان کی فراست کا لوہا مانتی تھیں بلکہ ان سے چوکنا اور خوف زدہ رہتی تھیں کہ فلسطین سے متعلق مسائل کو نہ جانے وہ کب کس رخ پر موڑ دیں‘‘ ۔
مفتی اعظم فلسطین 1933 ء میں جب حیدرآباد تشریف لائے اس وقت ماہر القادری حیدرآباد ہی میں تھے ۔ انھوں نے اپنے مضمون میں مفتی اعظم کے دورہ حیدرآباد کے بارے میں لکھا ہے کہ حیدرآباد میں باغ عامہ کے سامنے حکومت کے سب سے شان دار گیسٹ ہاوز میں مفتی اعظم کا قیام تھا اور وہ سرکاری مہمان تھے ۔ ماہر القادری ، مفتی اعظم سے ملنے کے بڑے خواہشمند تھے لیکن کسی تعارف و تقریب کے بغیر ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے ۔ مفتی اعظم کے حیدرآباد پہنچنے کے دوسرے روز جب مولانا عبدالقدیر بدایونی ان سے ملنے گئے تو ماہر القادری کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ اس موقع پر بہادر یار جنگ بھی وہاں پہنچے جن سے مفتی صاحب نے گرم جوشی کے ساتھ معانقہ کیا ۔

فلسطین میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے جو مالی امداد دی گئی تھی اس کارروائی کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جارہا ہے ۔
مہاراجا سرکشن پرشاد ، صدر اعظم ریاست حیدرآباد کو رزیڈنسی سے ایک مکتوب مورخہ 27 جون 1933 ء کے ذریعے یہ اطلاع دی گئی کہ فلسطین کے مفتی اعظم فلسطین میں محمڈن یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں ان دنوں ہندوستان آئے ہوئے ہیں ۔ وہ فلسطین کے برطانوی ارباب اقتدار کے تعارف نامے اپنے ساتھ لائے ہیں ۔ وہ اپنے پراجکٹ کی تکمیل کے سلسلے میں اندرون چند یوم حیدرآباد تشریف لائیں گے ۔ اس خط کے تین چار روز بعد ہی خود مفتی اعظم نے آگرہ سے مہاراجا سرکشن پرشاد کے نام ایک مکتوب مورخہ یکم جولائی 1933 ء روانہ کیا ۔ جس کے ذریعے انھوں نے اطلاع دی کہ فلسطین کا ایک وفد جو ان کے علاوہ محمد علی پاشا سابق وزیر اوقاف حکومت مصر پر مشتمل ہے یکم جون کو ہندوستان پہنچا ۔ یہ وفد وائسرے سے ملنے کے لئے آگرہ گیا تھا جہاں ورلڈکے نے 10 جون کو ملاقات کا موقع دیا ۔ وائسرے نے یہ سن کر کہ وفد کے مشن کا مقصد مکمل طور پر غیر سیاسی ہے اور وفد فلسطین میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے مسلمانوں کی ہمدردی اور تعاون کا خواہاں ہے تمام ممکنہ مدد کا وعدہ فرمایا ۔ وائسرے نے وفد کے لئے ایک تعارفی خط بھی مرحمت کیا جو اسی خط کے ساتھ منسلک ہے ۔ اسی خط کے آخر میں مفتی اعظم نے لکھا کہ ہزاگزالئٹیڈ ہائنس آصف جاہ (میر عثمان علی خان آصف سابع) کی شہرت ایک بڑے مسلم حکمران اور تعلیم کے عظیم سرپرست کے طور پر ہمارے ہندوستان آنے سے بہت پہلے ہمارے ملک میں پہنچ چکی ہے ۔ اس لئے وفد کی یہ تمنا اور آرزو ہے کہ اسے آصف سابع سے جلد از جلد ملنے کا موقع نصیب ہو ۔ اس لئے آپ سے یہ درخواست ہے کہ آپ ہمیں یہ اطلاع دیں کہ ہم آصف سابع سے کب ملاقات کرسکتے ہیں ۔ وفد کے ارکان کے لئے پہلے سے طے شدہ مصروفیات کی وجہ سے ماہ جولائی 1933 کے ختم کے بعد ہندوستان میں قیام کرنا ممکن نہیں ہے ۔ مفتی اعظم کے خط کے بارے میں مہاراجا نے ایک عرض داشت مورخہ 11 جولائی 1933 ء آصف سابع کی خدمت میں روانہ کی جس میں انھوں نے لکھا کہ ان کے نام مفتی اعظم کے روانہ کردہ مکتوب پر باب حکومت (کابینہ) نے یہ قرارداد منظور کی ہے کہ اسلامی دنیا میں مفتی اعظم کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے وفد کو شرف باریابی مرحمت ہو تو مناسب ہوگا ۔ آصف سابع نے اپنے فرمان کے ذریعے وفد سے ملاقات کے لئے 21 جولائی کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے یہ ہدایت دی کہ حیدرآباد آنے کے بعد مذکورہ وفد کو سرکاری مہمان رکھا جائے ۔ اس فرمان کی تعمیل میں فلسطین کے وفد کو حیدرآباد میں سرکاری مہمان کے طور پر ٹھہرایا گیا ۔ اور وفد نے مقررہ تاریخ پر آصف سابع سے ملاقات کی ۔
آصف سابع نے باریاب ہونے کے بعد مفتی اعظم فلسطین اور محمد علی پاشا نے ایک طویل معروضہ مورحہ 27 جولائی 1933 ء آصف سابع کے نام پیش کیا جس میں انھوں نے لکھا کہ آصف سابع کی سخاوت اور فیاضی کی دھوم سارے مسلم ملکوں کے کونے کونے تک پہنچ چکی ہے ۔ حالیہ زلزلے نے بیت المقدس میں بڑی تباہی مچائی تھی ۔ آصف سابع کی فیاضی ہی کے سبب زلزلے سے وقوع پذیر ہونے سے قبل مسجد اقصی کی تعمیر و مرمت ہوسکی تھی جس کی وجہ سے یہ منفرد اور عالی شان مسجد زلزلے کے صدمے سے محفوظ رہی ۔ اہل فلسطین اس بات پر یقین رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ آصف سابع کے دل میں ان کے لئے ایک خصوصی گوشہ ہے ۔ ابتداء میں چند تمہیدی جملے لکھنے کے بعد یہ تحریر کیا گیا کہ دو سال قبل انٹرنیشنل مسلم کانفرنس کے اجلاس میں جس میں 22 مسلم ممالک کے 150نمائندے شریک تھے یہ فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کے مسلمانوں کے لئے ایک یونیورسٹی قائم کی جانی چاہئے جو کہ نہ صرف فلسطینی مسلمانوں کی ضرورت کو پورا کرے بلکہ اس مسلم تعلیم کا مرکز ہو جس کی وسیع بنیادیں عربی ثقافت پر قائم ہوں نیز دوسرے ممالک سے طلبہ اعلی تعلیم کے لئے اس علمی درسگاہ کا رخ کریں ۔ انٹرنیشنل مسلم کانگریس ، سپریم مسلم کونسل فلسطین اور مجوزہ یونیورسٹی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان کی ساری توجہ صرف مسلمانوں کی سماجی اور تعلیمی اصلاح تک محدود ہے ۔ فی الوقت اسی مجوزہ یونیورسٹی میں چار فیکلٹیوں فیکلٹی آف تھیالوجی ، فیکلٹی آف میڈیسن ، فیکلٹی آف آرٹس ، سائنس و ٹکنالوجی اور فیکلٹی آف اگریکلچر کے کھولنے کی تجویز ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ن فیکلٹیوں پر ایک ملین اسٹرلنگ کا صرفہ ہوگا ۔ معروضے کے آخر میں فلسطینی وفد کے ارکان نے لکھا کہ انٹرنیشنل مسلم کانگریس اور فلسطین کے مسلمانوں کا پیام آپ کی خدمت میں پہنچانے کے بعد ہم آپ کے جواب اور احکام کے منتظر ہیں ۔

اس معروضے کے بارے میں باب حکومت میں یہ قرارداد منظور ہوئی کہ اگر گورنمنٹ آف انڈیا کو اعتراض نہ ہو تو حکومت ریاست حیدرآباد اس یونیورسٹی کی امداد کے لئے ایک لاکھ کلدار اس شرط کے ساتھ دے سکتی ہے کہ اس رقم سے ہائی کمشنر فلسطین کی زیر نگرانی زمین خریدی جائے جو ایک وقف متصور ہو جس کی آمدنی حکومت ریاست حیدرآباد بطور امداد اس یونیورسٹی کو دے گی لیکن اس کو اختیار ہوگا کہ اگر مناسب سمجھے تو اس آمدنی کو دوسرے خیراتی اغراض کے لئے دیدے یا کسی غرض کے لئے بھی صرف نہ کرے اور وقف کو مسدود کرے ۔ مفتی اعظم فلسطین کی درخواست کا خلاصہ اور باب حکومت کی قرارداد ایک عرض داشت میں درج کرکے اسے آصف سابع کے ملاحظے اور احکام کے لئے بھیجا گیا ۔ اس پر آصف سابع فرمان مورخہ 18 اکتوبر 1933 ء کے ذریعے ہدایت دی کہ رزیڈنسی سے دریافت کیا جائے کہ حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے اس یونیورسٹی کو مجوزہ شرائط کے ساتھ امداد دینے پر حکومت ہند کو اعتراض تو نہ ہوگا ۔ اس فرمان کی تعمیل میں رزیڈنسی کو لکھا گیا جس سے جواب میں رزیڈنسی نے مراسلہ مورخہ 25 مئی 1934 ء کے ذریعے اطلاع دی کہ فلسطین میں قائم ہونے والی یونیورسٹی کے لئے امداد دینے پر حکومت ہند کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ہی رزیڈنسی کی جانب سے وقف نامہ کا مسودہ بھی روانہ کیا گیا ۔ باب حکومت نے رزیڈنسی کی جانب سے روانہ کردہ وقف نامے کے مسودے کو منظور کرلینے کی سفارش کی اور اس سلسلے میں یہ فرمان مورخہ 15 نومبر 1934 ء صادر ہوا ۔ ’’ہماری مذکورہ امداد سے یونیورسٹی کے لئے اراضی خرید کر اس کو وقف کرنے کی نسبت فلسطین کی سپریم کونسل کا مرتبہ وقف نامہ جو رزیڈنسی سے وصول ہوا ہے ۔ کونسل (باب حکومت) کی رائے کے مطابق منظور کرلیا جائے ۔ اور اس کی رجسٹری بتوسط گورنمنٹ آف انڈیا فلسطین میں کرادی جائے ۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ سرکار عالی (حکومت ریاست حیدرآباد) کو وقتاً فوقتاً نگرانی کا حق رہے گا کہ جس مقصد سے یہ عطیہ دیا گیا ہے اس کی تعمیل برابر ہورہی ہے یا نہیں‘‘ ۔ اس فرمان کی تعمیل میں رزیڈنسی کو اطلاع دی گئی اور ماہ فروری 1935ء میں ایک لاکھ کلدار ہائی کمشنر فلسطین کو بھیج دئے گئے ۔

ایک لاکھ کلدار ایصال کردئے جانے کے تقریباً گیارہ سال بعد چیف سکریٹری حکومت بیت المقدس نے ایک مراسلہ مورخہ 11 جنوری 1946 گورنمنٹ آف انڈیا کو روانہ کیا جس کی نقل روانہ کرتے ہوئے گورنمنٹ آف انڈیا نے حکومت ریاست حیدرآباد کی رائے دریافت کی ۔ چیف سکریٹری حکومت بیت المقدس نے اپنے مراسلے میں لکھا تھا کہ جس یونیورسٹی کے لئے امداد دی گئی تھی اس کے قیام کی ہنوز کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی اور کئی سال تک یونیورسٹی کے وجود میں آے کی توقع نہیں ہے ۔ یونیورسٹی کے لئے دی گئی رقم ابھی تک صرف نہیں ہوئی ہے اور بینک میں محفوظ ہے ۔ یہ اطلاع دینے کے بعد درخواست کی گئی کہ اس زیر بحث رقم کو منافع کے ساتھ دی جنرل عرب کمیٹی فار آرفنس ان پلسٹائن کو عطا کی جائے ۔ باب حکومت نے چیف سکریٹری حکومت بیت المقدس کی درخواست کو منظوری دینے کے لئے آصف سابع سے سفارش کی جنھوں نے فرمان مورخہ 26 جون 1947ء کے ذریعے باب حکومت کی سفارش کو منظور کرتے ہوئے ہدایت دی کہ مذکورہ یونیورسٹی کے قیام کے لئے جو ایک لاکھ کلدار کی امداد دی گئی تھی وہ مع منافع چیف سکریٹری حکومت بیت المقدس کی تحریک کے مطابق دی جنرل عرب کمیٹی فار آرفنس ان پلسٹائن کو دے دی جائے ۔ مفتی اعظم فلسطین جب حیدرآباد آئے تھے ان سے متعدد لوگ ملے ہوں گے اور مفتی اعظم نے بھی یہاں کی بااثر شخصیتوں سے مل کر مالی امداد کی فراہمی میں ان کا تعاون چاہا ہوگا ۔ وہ ایک اچھے اور نیک مقصد کے تحت حیدرآباد آئے تھے اس لئے یقیناً انھیں تعاون حاصل ہوا ہوگا ۔ حیدرآباد سے واپس ہونے پر انھوں نے نظامت جنگ کو مکتوب مورخہ 3 اگست 1934 ء روانہ کیا تھا جس کے حسب ذیل اقتباس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے ۔

’’ہمارے دوران قیام حیدرآباد میں جس قدر کرم گستری ، مہمان نوازی و اخلاق کریمانہ کا برتاؤ آپ نے فرمایا ہے اور ہمارے اغراض و مقاصد کے متعلق جس قدر مخلصانہ سعی و جد وجہد آپ نے فرمائی ہے اس کے اظہار شکر گزاری کے لئے حقیقتاً الفاظ ناکافی ہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی آپ جیسے مخلص حضرات کے وجود اور فیض کرم سے امت اسلامی کو زیادہ سے زیادہ متمتع اور فیض یاب ہونے کا موقع عطا فرمائے ۔ (مکتوب سے مکمل متن کے لئے ملاحظہ ہو ’’حیات نظام‘‘ ۔ تذکرہ نواب سرنظامت جنگ بہادر‘‘ مولفہ نظیر حسین فاروقی)