فلسطینی بچوں پر اسرائیلی مظالم ، عالمی برادری خاموش

محمد ریاض احمد
اسرائیل نے فلسطینیوں پر مظالم کی حد کردی ہے ۔ اس کی جیلوں میں جہاں درجنوں فلسطینی مرد و خواتین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں وہیں دوسو سے زائد کمسن بچے بھی اپنے ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کاقصور یہ ہے کہ انھیں اپنی اراضی مقدس سے پیار ہے ۔ بیت المقدس ،مسجد اقصیٰ کیلئے وہ اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اسرائیلی پولیس اور سکیورٹی فورسس کی ظلم و بربریت بڑھ جاتی ہے تو یہ معصوم اپنے ہاتھوں میں پتھر لئے یا پھر غلیلوں سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ویسے بھی اسرائیلی فورسس کے عصری اسلحہ کے سامنے ان پتھروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی پھر بھی کمسن فلسطینیوں کی جانب سے برسائے جانے والے سنگ اسرائیلی فورسس کا غرور و تکبر خاک میں ملادیتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی سنگدلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فلسطینی کمسنوں کو اغواء کرتے ہوئے انھیں جیلوں میں بند کردیتی ہے

ان بچوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ یہودی آبادیوں پر دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنارہے تھے یا اس منصوبہ کاحصہ تھے جو یہودیوں کی تباہی و بربادی اور ہلاکتوں کیلئے بنایا گیا تھا ۔ حال ہی میں مقبوضہ مغربی کنارہ میں ایک 14 سالہ فلسطینی لڑکی ملکہ الخطیب کا یہودی فورسس نے اس وقت اغواء کرلیا جب وہ اسکول سے اپنے گھر واپس ہورہی تھی ۔ 6 ہفتہ قبل ملکہ الخطیب کا اغواء کیا گیا اور پھر گزشتہ جمعہ کو اس طالبہ کی رہائی عمل میں آئی ۔ اغواء کے بعد پتہ چلا کہ ظالم و جابر اسرائیلی فورسس نے اسے جیل میں بند کردیا ہے ۔ ملکہ الخطیب کو اب اس بات کااعزاز حاصل ہوگیا ہے کہ وہ اب تک قید کی گئی سب سے کم عمر فلسطینی قیدی ہے۔ ملکہ الخطیب ان ہزاروں فلسطینی بچوں میں سے ایک ہے جنھیں ہر سال اسرائیلی فورسس قانون کے شکنجے میں کستے ہوئے سلاخوں کے پیچھے ڈالدیتے ہیں ۔ ڈسمبر 2014 ء کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 156 فلسطینی بچوں کو قید کیا گیا جن میں 17 بچہ قیدیوں کی عمریں 16 سال سے کم ہیں۔

قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کی حامی عظامر پرزنر سپورٹ اینڈ ہیومن رائیٹس اسوسی ایشن کے مطابق حقوق انسان کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والا امریکہ فلسطینی بچوں کو جیلوں میں ڈالے جانے سے متعلق اسرائیلی مظالم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ اس میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کے استحصال کے خلاف آواز اُٹھانے کی جرأت ہی نہیں ہے ۔ اس تنظیم کا الزام ہے کہ اس جرم میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی شامل ہے اور اس کا ثبوت امریکی حکومت کی خاموشی ہے۔ اس اسوسی ایشن کا یہ بھی الزام ہے کہ امریکہ اسرائیل کی بربریت پر تنقید کرنے سے گریز کرتا ہے لیکن اس کے برعکس اسرائیل کے تشدد اور ظلم و جبر کی جب فلسطینی مزاحمت کرتے ہیں تو ان کی مذمت کرنے میں وہ کسی قسم کی تاخیر نہیں کرتا ۔ یہ دراصل امریکی حکومت کا ڈوغلا پن ہے ۔ گزشتہ سال اگست میں بھی جب اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کی حد کردی شیرخوار بچوں کو بھی نہیں بخشا کمسن لڑکے لڑکیوں کو موت کی نیند سلادیا تب بھی امریکہ اس کی مذمت کرنے کے بجائے اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف فلسطینیوں کی مزاحمت کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے لگا ۔

وہ ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کردیئے جانے یر بے چین نہیں ہوتا ہاں اگر ایک اسرائیلی سپاہی کا اغواء ہوتا ہے تو اسے بربریت ناک اقدام قرار دیتا ہے۔ اسرائیل نے آٹھ برسوں سے فلسطینیوں کا محاصرہ کر رکھا ہے ۔ فلسطینی، ادویات اور غذائی اشیاء کیلئے ترستے ہیں۔ سرنگوں کے ذریعہ اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر وہ اس محاصرہ کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل کی بربریت امریکہ اور اس کے حلیفوں کو نظر نہیں آتی ۔ بہرحال ملکہ الخطیب اب رہا ہوچکی ہے ۔ اس کی گرفتاری پر فلسطین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا ۔انھیں اس بات پر تشویش تھی کہ اسرائیلی فورسس اب صرف اور صرف مفروضوں کی بنیاد پر فلسطینی بچوں کو گرفتار کرتے ہوئے انھیں جیلوں میں قید کرنے لگی ہے۔ اس طرح کے ظالمانہ اقدامات کے ذریعہ دراصل وہ فلسطینیوں کی نئی نسل میں خوف و دہشت پیدا کرنے کی خواہاں ہیں لیکن جو نسل اسرائیل کے فضائی حملوں ، فائرنگ ، ظلم و بربریت کے دوران آنکھیں کھول رہی ہے اسے اسرائیل سے کسی بھی قسم کا خوف نہیں ۔ غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں فلسطینی بچے اسرائیلی فوجیوں کے ہتھیاروں کے سامنے سینے تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اسرائیلی فورس کو للکارتے ہیں کہ اگر دم ہو توہمارے سینوں پر گولی چلاؤ ۔

ملکہ الخطیب کی گرفتاری اور پھر رہائی کے عالمی میڈیا میں زبردست چرچے ہوئے ۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس لڑکی نے یہودیوں پر حملوں کے منصوبہ میں شامل ہونے کا اعتراف کرلیا لیکن اس کے والد نے اپنی بیٹی کے اعتراف جرم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک 14 سالہ لڑکی کو زور زبردستی کرتے ہوئے ہر قسم کے جرم کا اعتراف کرایا جاسکتا ہے ۔ اسرائیلی جھوٹ کی قلعی کھولنے والی سب سے اہم بات یہ ہیکہ ملکہ الخطیب سے جو اقبالی بیان لیا گیا وہ اس کے والدین یا ایڈوکیٹ کی عدم موجودگی میں لیا گیا۔اسرائیلی فورسس کمسن فلسطینیوں سے ایسے ایک نہیں دو نہیں بلکہ ہزاروں بیانات لے سکتی ہے ۔ وہ تو M16 رائفل رکھنے کا بھی اعتراف کرسکتے ہیں ۔ خود ملکہ الخطیب نے اپنی بے گناہی کا دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے پتھر پھینکے اور نہ ہی اپنے ساتھ چاقو رکھا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قابض صیہونی فورس فضائی حملوں اور عصری اسلحہ سے فلسطینیوں کو نشانہ بناتے ہیں تو کیا فلسطینی ان کے خلاف مزاحمت کیلئے پتھر بھی نہیں اُٹھاسکتے؟ ۔ ایک قابض طاقت کے خلاف پتھر اُٹھانا عالمی قوانین کے تحت بھی جائز ہے ۔ 1987ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور ہوئی جس میں قابض طاقت کے خلاف مزاحمت کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ مزاحمت دراصل عوامی جدوجہد ہے اور آزادی کے لئے چلائی جاتی ہے ۔ حق جدوجہد کی اس قرارداد کو 153 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کیا گیا تھا جبکہ اس قرارداد کی مخالفت کرنے والے صرف دو ہی ملک امریکہ اور اس کرہ ارض کی ناجائز مملکت اسرائیل تھے ۔ خود اسرائیل کے ایک صحافی اپرایاس لکھتے ہیں کہ بیرونی حکمرانی کے خلاف نبردآزما ہر شخص کیلئے سنگباری اس کا پیدائشی حق ہے یہ دراصل قابض طاقت کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے ۔
mriyaz2002@yahoo.com