ابو معوذ
اسرائیل کو کرہ ارض کی ناجائز مملکت کہا جاتا ہے۔ اور یہ سچ بھی ہے یروشلم مسلمانوں کے لئے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ بیت المقدس عیسائیوں کے لئے بھی حرمت کا مقام ہے۔ اگرچہ یہودی بھی یروشلم کو اپنا ازلی دارالحکومت قرار دیتے ہیں لیکن ان لوگوں نے ہمیشہ اس ارض مقدس کی بے حرمتی کی ہے۔ خاص طور پر یہودی درندوں نے مسجد اقصیٰ کی حرمت کو متعدد مرتبہ پامال کیا ہے۔ انہیں اس خباثت سے بھرے فعل کو روکنے کی کوشش کرنے والے فلسطینیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔افسوس تو اس بات پر ہے کہ اسرائیلی حکومت کی درندگی پر ساری دنیا خاموش ہے۔ اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ بھی مجبور و بے بس دکھائی دیتا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے اشاروں پر کام کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے اور یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے وعدے کئے تھے، چنانچہ اپنے وعدوں پر عمل آوری کی جانب پیشرفت میں ٹرمپ نے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا جس کے ساتھ ہی فلسطینیوں میں برہمی کی لہر دوڑ گئی اور جنگجو فلسطینیوں نے اسرائیل کے عصری ہتھیاروں کے سامنے اپنے سینے تان لئے لیکن ظالم اسرائیلی فورسیس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور پھر اسرائیلی فورسیس نے گولیاں چلادیں جس کے نتیجہ میں صرف ایک ہی دن میں 62 فلسطینی مظاہرین بشمول بچے شہید ہوئے اور تقریباً 3000 شدید زخمی ہوئے۔ اسرائیل کی درندگی کے باوجود عالم اسلام نے روایتی انداز میں صرف اسرائیل کی مذمت کرکے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس نے اپنا فرض پورا کرلیا ہے۔ واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی سرحد کے قریب 6 ہفتوں سے مظاہرے جاری ہیں۔ ان مظاہروں کے ساتھ نہتے فلسطینیوں کی شہادتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکہ نے 14 مئی کو تل ابیب سے اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کیا اور جھوٹ، مکاری اور ظلم و جبر کی بنیادوں پر قائم کئے گئے اسرائیل کے قیام کی 70 ویں سالگرہ (اسے سال گرہ نہیں بلکہ انسانی حقوق پامالی کی برسی کہا جانا چاہئے) کے موقع پر اپنے سفارتخانہ کا افتتاح کیا۔ اسرائیل بڑی بے شرمی سے یروشلم کو اپنا ازلی اور غیر منقسم دارالحکومت کہتا ہے۔ حالانکہ اس نے 1967 کی جنگ میں یروشلم پر قبضہ کرلیا۔ اس قبضہ کو آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک تسلیم نہیں کرتے۔ آج مشرق وسطیٰ کے جو حالات ہیں اور اسرائیل کو جو تقویت حاصل ہوئی ہے اس کے لئے امریکہ، برطانیہ اور امریکی حلیفوں کی اسرائیل کو ناجائز تائید و حمایت ذمہ دار ہے۔ امریکہ نے نہتے فلسطینیوں کی ہلاکتوں اور بے شمار مظاہرین کے زخمی ہونے کے واقعہ پر رنج و ملال کا اظہار کرنے کے بجائے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف یہ کہتے ہوئے بڑی بے شرمی کا مظاہرہ کیا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام کا مطلب یہ نہیں کہ اس نے فلسطین ۔ اسرائیل تنازعہ کے مذاکرات میں ایک حتمی موقف اختیار کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صدر ڈونالڈٹرمپ اور دیگر امریکی حکام فلسطینیوں کے قتل عام پر رنج و ملال کا اظہار کرتے اور ٹرمپ حکومت اسرائیل کی تائید سے گریز کرتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہائٹ ہاوس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سفارتخانہ کی منتقلی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کی اہم ضرورت تھی۔
وہائٹ ہاوس کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ساری دنیا کو بے وقوف سمجھتے ہیں لیکن اسرائیل کے حمایتوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ امریکہ نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرتے ہوئے ایک نئی تباہی و بربادی کا آغاز کردیا ہے اور یہ امریکہ کیلئے بہت مہنگا ثابت ہوگا۔ فلسطینیوں کو ٹھیک 70 سال قبل برطانیہ اور امریکہ کی تائید سے اسرائیل نے ان کے اپنے گھروں، ان کی اپنی ارض مقدس سے بے دخل کردیا تھا تب سے ہی فلسطینی حق واپسی کے لئے مظاہرے کرتے ہیں اور ان مظاہروں کو نکبہ کہا جاتا ہے۔ پچھلے 7 ہفتوں سے فلسطینی غزہ پٹی میں مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ 1948 میں جن علاقوں سے انہیں زبردستی نکالا گیا تھا ان ہی علاقوں میں انہیں واپسی کا حق دیا جائے۔ یہ احتجاج 30 مارچ کو شروع ہوا تھا جس میں اب تک اسرائیلی فورسیس نے بے شمار فلسطینیوں کو شہید اور 1200 سے زائد کو زخمی کردیا۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فورسیس کی بربریت کے خلاف شدید برہمی پائی جاتی ہے۔ فلسطینی اتھاریٹی نے فلسطینی باشندوں کے اسرائیلی فورسیس کے ہاتھوں قتل عام کے خلاف یوم سوگ منایا۔ اسکولس، یونیورسٹیز، بینکس، خانگی اور سرکاری ادارے بند رہے۔ 62 شہدا میں ایک 8 ماہ کی شیرخوار بھی شامل ہے۔ یہ بچی اسرائیلی فورسیس کی جانب سے برسائے گئے آنسو گیس کے شل سے دم گھٹنے کے نتیجہ میں شہید ہوئی۔ اسرائیلی فورسیس نے فلسطینیوں کے خلاف عصری اسلحہ کا بے دریغ استعمال کیا اور ان پر اندھادھند گولیاں چائیں، آنسو گیس کے شل برسائے گئے، فلسطینیوں کا یہ احتجاج امریکی سفارتخانہ کے یروشلم میں افتتاح کے موقع پر صیہونی فورسیس کی درندگی سے خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے۔
اسرائیلی فورسیس کی درندگی اور اسے حاصل امریکی پشت پناہی کے خلاف اگرچہ عالم اسلام میں زیادہ حرکت دیکھنے میں نہیں آئی لیکن کچھ ایسے ممالک ہیں جو غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی فلسطینیوں اور ان کے کاز کی حمایت پر اتر آئے ہیں۔ اگرچہ وہ فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف ہیں لیکن سفارتی مجبوریوں کے باعث خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ برطانیہ جس کی پشت پناہی کے نتیجہ میں ہی اس کرہ ارض کی ناجائز مملکت فلسطین کا قیام عمل میں آیا تھا، فلسطینیوں کی جانوں کے اتلاف پر غم و غصہ کا اظہار کیا۔ برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن کے مطابق وہ غزہ میں انسانی جانوں کے اتلاف پر غمزدہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانیہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا اور ان کا خیال ہے کہ امریکہ غلط وقت پر غلط چال چل رہا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے انتباہ دیا ہے کہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ کے افتتاح سے مشرق وسطی مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ امریکی صدر نے اس اقدام کے ذریعہ امن مساعی میں اپنا کردار ختم کردیا ہے اور دنیا و فلسطینی عوام بالخصوص عرب دنیا کی توہین کی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ایمنسٹی اٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی مسلم ممالک کی طرح فلسطینیوں سے زبانی ہمدردی کی روایات کو برقرار رکھا ہے۔ ان تنظیموں نے اسرائیلی فوج کی جانب سے طاقت کے استعمال کی مذمت کی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ٹرمپ انتظامیہ نے بیت المقدس میں اپنا سفارتخانہ کھولتے ہوئے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں اور فلسطینیوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بڑی حقارت سے مسترد کردیا ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ عالمی برادری دنیا میں بے چینی کا باعث بنے اس مسئلہ کو حل کرنے میں بالکلیہ طور پر ناکام رہی ہے۔ یہ دراصل اس کی بے حسی کی بدترین مثال ہے۔ دوسری جانب امریکی سفارتخانہ کی یروشلم منتقلی پر انتہا پسند یہودی جشن منارہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے سفارتخانہ کے افتتاح کے بعد اپنے خطاب میں یہ کہہ کر امریکی صدر کی ستائش کی کہ آج ایک تاریخ رقم ہوئی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اس کے لئے بطور خاص امریکی صدر ان کی یہودی بیٹی اور یہودی داماد کا شکریہ ادا کیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے ایک تاریخ رقم کردی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی فورسیس نے نہتے فلسطینیوں پر اندھادھند گولیاں چلاتے ہوئے ظلم و جبر کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے اور انسانیت کے خلاف اس سنگین جرم میں امریکہ اُسکا شریک جرم ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوٹیرس نے حسب رویت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سکریٹری جنرل کی تشویش کے اظہار سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے اس باوقار عہدہ پر فائز شخص کو صرف اظہار تشویش کرنا ہی سکھایا جاتا ہے۔