ایک بار پھر مسئلہ فلسطین اپنے شباب پرہے۔ اسرائیل نے حماس کے خلاف جنگ ہی نہیں چھیڑ دی ہے بلکہ غزہ پٹی پر با قاعدہ فضائی حملہ کردیاہے۔ درجنوں معصوم فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہمیشہ کی طرح معصوم فلسطینی بے یارو مدد گار اسرائیلی فوج کے ہاتھوں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کبھی حل ہو گا یا نہیں ؟ کیا فلسطینی ہمیشہ ایسے ہی اپنی جان گنواتے رہیں گے؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے مسئلہ فلسطین حل ہوا ہے اور نہ ہی اس کے کوئی حل ہونے کی امید ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی اسی طرح مارے جاتے رہیں گے۔ جیسے کہ فی الحال اسرائیلی فوج ان کو غزہ پٹی میں گھس کر مارتی ہے۔ اگر کسی مسلمان سے سوال کیجئے کہ آخر یہ فلسطینیوں پر آئے دن اسرائیل کیوں ظلم ڈھا تا ہے تو اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ امریکہ اور یہودیوں کی سازش ہے۔ بچپن سے ابتک راقم کے کان پک گئے۔ مسلمانوں کے خلاف یہودی اور امریکی سازش کی کہانیاں سنتے سنتے عالم اسلام میں کہیں بھی کوئی پتہ کھڑکا اور بس مسلمانوں کی زبان پر امریکہ اور یہودیوں کی سازش کا قصہ شروع ہو گیا۔کیا دنیا اس حقیقت سے واقف نہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کا دشمن ہے؟ تاریخ شاہد ہے کہ سن 1949 میں انگریزوں کی پشت پناہی اور اقوام متحدہ کے فیصلے کے بعد یہودیوں نے فلسطین کابٹوارہ کر آدھے سے زیادہ فلسطین پر اپنا قبضہ کر لیا تھا۔
پر سن 1960 کی دہائی میںجو کچھ فلسطین بچا اس پر امریکہ کی مدد سے اسرائیل نے باقی فلسطین پر بھی قبضہ کر لیا۔ حد یہ ہے کہ اس وقت سے آج تک یروشلم یعنی مسلمانوں کا قبلہ اول بھی اسرائیلیوں کے قبضے میں ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جس سے دنیا واقف ہے۔اسرائیل اور امریکہ کے جو گہرے مراسم ہیں اس سے بھی دنیا بخوبی واقف ہے۔ آئے دن اسی بات کی تسبیح پڑھنا اور ہر موقع پر امریکہ اور یہودیوں کو کوسنا اور محض ان کی شکایت کرنے کے کیا معنی؟ راقم کی رائے میں اس شکایت سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر اب تک مسلمانوں نے (جو ہر نماز جمعہ میں قبلہ اول کی رہائی کی دعائیں مانگتے ہیں)فلسطینیوں کی حمایت میں کیا کیا؟
ہم مسلمان اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف کیا کر رہے ہیں اس کا ذکر تو ہر وقت کر تے ہیں لیکن یہ ذکر کرنابھول جاتے ہیں کہ سن 1960 کی دہائی سے حال تک خود مسلم حاکموں نے کتنی بار فلسطینیوں کو دھوکہ دیا؟ آئیے ذرا ہماری صفوں میں چھپے میر جعفر اور میر صادق کے کر توتوں پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں۔ سن 1949 میں اسرائیل کے قیام کے بعد جب فلسطینیوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر بھا گنا پڑا تو ظاہر تھا کہ انہوں نے فلسطین کے ارد گرد ممالک میں پناہ لی۔ سب سے زیادہ فلسطینی ملے ہوئے ملک اردن میں پناہ گزیں ہو گئے اور پناہ گزینوں کی جو قسمت ہے جلد ہی خیموں میں اردن میں فلسطینی پناہ گزینوں کے شہر آباد ہوگئے۔ آہستہ آہستہ یہیں اسرائیل کے خلاف فلسطینی جد و جہد کی داغ بیل بھی پڑی اور یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطین کی آزادی کے لئے پی ایل او تنظیم کا قیام ہوا۔اس پی ایل او کو سب سے زیادہ مدد اور امداد اس وقت امریکہ کے دشمن سابق سویت یونین اور دیگر کمیونسٹ ممالک نے کی۔ حد یہ ہے کہ ان ہی ممالک نے یاسر عرفات کو فلسطین کے خلاف اسلحے بھی فراہم کرنے شروع کر دیئے۔ جب اردن میں فلسطینیوں کے پاس اسلحے جمع ہونے لگے تو ہاشمی النسل شاہ اردن یعنی شاہ حسین کے کان کھڑے ہوئے اور ان کو اسرائیل سے زیادہ فلسطینی اپنے دشمن نظر آنے لگے۔ چنانچہ شاہ حسین نے پاکستانی حاکموں سے رجوع کیا اور درخواست کی کہ دریائے اردن کے کنارے بسے ہوئے فلسطینیوں کو ختم کر نے کے لئے پاکستانی فوج بھیج دی جائے۔ مملکت خداداد پاکستان نے ہمیشہ کی طرح سب سے جلدی اردن اپنی فوج بھیجی جس نے ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ آپ جانتے ہیں؟ اردن میں جس پاکستانی فون نے فلسطینیوں کا قلع قمع کیا اس کے کمانڈر کون تھے۔ وہی جنرل ضیاء الحق جو آج بھی جہادیوں کی آنکھوں کے تارہ ہیں اور پاکستان کی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھنے والے بھی ہیں۔
ظاہر ہے کہ یاسر عرفات کو اپنے فوجیوں کے ساتھ اردن ترک کرنا پڑا ۔ سن 1970 اور سن 1980 کے دہائی میں عرفات اور ہزاروں فلسطینیوں نے لبنان میں پناہ لی ۔ یہاں پھر سویت یونین کی مدد سے عرفات نے اسلحے جمع کئے اور ایک بڑی فوج اکٹھا کرلی۔ سن 1980 کی دہائی کے اولین دور میں اسرائیل کو عرفات اور ان کے فلسطینیوں سے بھر پور خطرہ لگنے لگا۔ چنانچہ اسرائیل نے لبنان میں فلسطینی ٹھکانوں پر حملہ بول دیا۔ عرفات بے یارو مدد گار لڑتے رہے۔ ان کو صرف سویت یونین ، ہندوستان اور دیگر کمیونسٹ ممالک کی مدد ملی جب کہ عالم اسلام عرفات اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جنگ کو بطور خاموش تماشائی دیکھتا رہا۔ اس وقت پاکستان نے عرفات کی مدد کے لئے کوئی فوج نہیں بھیجی۔ آخر عرفات کو لبنان بھی خیر باد کہنا پڑا۔ پھر سویت یونین کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اب عرفات اور فلسطینیوں کا کوئی بھی یارو مدد گار نہ بچا، بس او آئی سی سے پیسوں کی کچھ بھیک تو مل جاتی تھی۔ لیکن کسی اسلامی ملک میں یہ جرأت نہ تھی وہ عرفات کو اسلحہ دے یا آج جیسے خود کو جہادی کہنے والے دنیا بھر میں لڑنے کے لئے پہنچ جاتے ہیں ویسے ہی فلسطینیوں کی مدد کے لئے جہادی فلسطین پہنچ جاتے۔ آخر مجبور ہوکر عرفات نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور یہ معاہدہ ہوا کہ سن 1960 کی دہائی میں اسرائیل نے فلسطینیوں کی جو زمین غصب کی ہے وہ واپس کر دی جائے گی۔ اس پر سارے عالم اسلام نے عرفات کی لعنت ملامت کی۔ لیکن عرفات نے اسرائیل کے خلاف اپنی جدو جہد نہیں چھوڑی ۔ آخر اسرائیل فوج نے عرفات کے ہیڈ کوارٹر کو بموں سے مسمار کر دیا لیکن عرفات ڈٹے رہے۔ اس دوران ایک بھی جہادی ، فلسطینیوں کی حمایت میں فلسطین نہ پہنچا۔ آ خر اسرائیل نے زہر دلوا کر عرفات کا خاتمہ کر دیا۔ عرفات کی موت کے بعد سے آج تک حال کی طرح اسرائیل جب چاہتا ہے تب فلسطینیوں کا قتل و غارت گری کرتا ہے اور تمام عالم اسلام خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔بس جب بھی فلسطینیوں پر بمباری ہوتی ہے تو ہم مسلمان ایک بار پھر امریکہ اور یہودیوں کو گالیاں دیتے ہیں اور مڑ کر یہ نہیں دیکھتے کہ نہ تو اسرائیل کے خلاف کسی جہادی کو غصہ آتا ہے اور نہ ہی اپنے کو مسلم ملک کہنے والے ایک بھی ملک کی حمیت جاگتی ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی محض امریکہ اور یہودیوں کی سازش کے شکارنہیں ہیں بلکہ فلسطینی عالم اسلام کی خاموش سازش کے بھی برابر کے شکار ہیں۔ اور جب تک یہ سازش جاری رہے گی فلسطینی ایسے ہی مارے جاتے رہیں گے جیسے اسرائیل آج کل ان کو مار رہا ہے۔