فلاحی اسکیمات سے نوکر شاہی اور سیاسی ٹولیوں کی کمائی

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
فلاحی و بہبودی اسکیمات اور منصوبوں سے نوکر شاہی اور سیاسی ٹولیاں بہت کماتی ہیں ان کی وجہ سے عوام کی بہبود کے دیگر معاملات جیسے تعلیم ، صحت کے منصوبے صرف نذر کردیئے جاتے ہیں۔ تلنگانہ میں اس وقت عدالت کی تقسیم، ملازمین کا بٹوارہ، دستاویزات اور اثاثہ جات کی منتقلی کے جھگڑے کے درمیان یہ نئی ریاست کدھر جارہی ہے یہ خود حکمراں پارٹی کو پتہ نہیں ہوگا۔ چیف منسٹر کی نظرِ کرم اپنے اہل و عیال کی ترقی پر ہے ۔ عوام اور ریاست کے بارے میں سوچنے کے دن صرف انتخابات کے عین موقع پر ہی آئیں گے۔ فی الحال ماضی کے وعدوں کی لوری دے کر عوام کو سُلادینے کا ملکہ رکھنے والے چیف منسٹر نے مسلمانوں کو بھی ٹھینگا دکھایا ہے۔ اپوزیشن پارٹی کانگریس نے چیف منسٹر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کم از کم ماہ مقدس رمضان المبارک کے موقع پر مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دینے کیلئے جھوٹے منہ سہی بی سی کمیشن کی تشکیل کا اعلان کریں لیکن چیف منسٹر کے سیاسی دل میں کوئی مثبت  جنبش نہیں ہوئی۔ حکمراں پارٹی کے چند سرکش گوشوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو تحفظات کی کیا ضرورت ہے کیونکہ ان کے ماہ مقدس رمضان میں مارکٹ کے اندر جو خریدی اور فروخت کا عشاریہ ہوتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں خفیہ امیروں اور کھاتے پیتے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔

مسلمانوں نے پورا رمضان کھانے پینے اور زبردست بلکہ جم کر خریداری کرنے پر بے دریغ روپیہ خرچ کیا اس کا راست فائدہ ان ذخیرہ خوروں، کالا بازاریوں اور دھوکہ باز تاجروں کو ہوا جو اپنا ناقص مال محض رمضان میں فروخت کرنے کیلئے گوداموں سے نکال کر مارکٹ میں پھیلاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ہر سال رمضان میں برسوں سے چلا آرہا ہے بلکہ مسلم اکثریتی علاقوں میں خراب اور مہنگا مال فروخت کرنے کی عادت بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ مسلمان زیادہ تحقیق طلب اور تول مول سے عاری نہیں ہوتے ایسا بھی نہیں کہ مسلمانوں میں خراب اور اچھے مال کی پرکھ بھی نہیں بلکہ کافی پرکھ اور تجربہ رکھنے کے باوجود ضرورت پڑنے پر دھوکہ دہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ ٹی آر ایس کو ووٹ دے کر 12فیصد تحفظات حاصل کرنے کا خواب دیکھنے کا دھوکہ کھایا تھا۔ انہیں خواب ہی ایسا دکھایا گیا تھا کہ وہ اس میں محصور ہوکر رہ گئے۔ ریاست کا نظام چلانے والوں کو اب ان کی فکر نہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح جب کوئی مطالبہ زور پکڑتا ہے تو انہیں خاموش کرانے کیلئے دہشت گردی کے واقعات کے بہانے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تاکہ یہ لوگ اپنے حق میں تحفظات کا مطالبہ کرنے کا زور ختم کرکے گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو ہلکان کرلیں۔ مقامی جماعت کے ارکان کا ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی دوہرا رول رونما ہوا۔ ایک طرف گرفتاریاں دوسری طرف قانونی امداد کی پیشکش۔ ایک تیر سے دو شکار کرنے میں کامیاب سیاستدانوں کی تیروں کا ہر بار مسلمان ہی نشانہ بنائے جاتے ہیں۔

اب دیکھیئے تحفظات کی بات زور پکڑتے پکڑتے تھم گئی۔ بی سی کمیشن کا اعلان نہیں کیا گیا۔ مسلمانوں کا ذہن ان کے بچوں کو دہشت گردی کے واقعات میں ماخوذ کرنے کی سازش کے ساتھ دھاوے کرکے گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ ہمیشہ قوم کو ہی قربانی کا بکرا بناکر سیاسی فوائد حاصل کرنے والوں نے رمضان کے مقدس مہینے میں بھی مسلم محلوں میں پولیس اور تحقیقاتی ایجنسی کے دھاوے کروائے اور مسلمان یا تو عبادتوں میں رہے یا پھر بازاروں میں مصروف رہے۔ ان کی پیٹھ پیچھے کیا ہورہا ہے سامنے کیا ہورہا ہے اس سے انہیں سروکار نہیں ہے۔ حیدرآباد سے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا واقعہ قومی سطح پر موضوع بحث بنا اور مقامی لیڈر کی بیان بازی پر قومی میڈیا نے بھی اتنی اہمیت دی کہ واقعی دہشت گردی میں ماخوذ نوجوانوں کو رہا کرانے وہ قانونی مدد دینے والے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ڈرامائی واقعات میں قانون اور انصاف کا رول صرف سیاسی عزائم تک ہی محدود ہوتا ہے۔ تحفظات دینے کے بجائے مسلم بچوں کو جیل کی ہوا کھلانے کا ہتھکنڈہ دیرینہ ہے، مسلمانوں کے حق میں کوئی بھی پالیسی بنائی جائے یا بنانے کا وعدہ کیا جائے اس پر عمل آوری صد فیصد ہرگز نہیں ہوتی۔

آپ آئے دن اخبار میں پڑھ رہے ہوں گے کہ ریاست تلنگانہ سے اقلیتی اداروں کی درگت کیا ہورہی ہے۔ اسکالر شپ، شادی اسکیم، بینکوں سے قرض کی اجرائی اور دیگر امور کی انجام دہی کے سلسلہ میں اب تک اقلیتی اداروں نے کیا تیر مارے ہیں۔ ماہ رمضان میں بھی ان اقلیتی اداروں نے کوئی بہتر مظاہرہ نہیں کیا ۔ حکومت نے اقلیتوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کا دعویٰ کررہی ہے۔ اقلیتی طلبہ کیلئے اقامتی اسکولس قائم کئے گئے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اس منصوبہ کو روبہ عمل لانے کیلئے قبل ازیں 200کروڑ روپئے اقلیتی بہبودکیلئے جاری کئے مگر اس میں صرف نصف رقم ہی خرچ کی گئی۔ ریاست میں اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کیلئے 120 اقلیتی اقامتی اسکولس کا قیام چیف منسٹر کے نظریہ کی اختراع ہے اس کیلئے اے کے خاں کو چیرمین کی حیثیت سے مقرر کیا گیا۔ میناریٹی ریذیڈنشیل اسکولس سوسائٹی چیرمین کی حیثیت سے اے کے خاں نے اقلیتی اقامتی اسکولوں میں مسلم بچو ں کو انگریزی میڈیم کی تعلیم کے ساتھ تلگو اور اردو سیکھانے اور نماز پڑھنے کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کا انتظام کیا۔ ہریش راؤ نے بھی کہا کہ آئندہ چارسال کے دوران اقلیتی تعلیم اور اقامتی اسکولس پر 4000 کروڑ روپئے خرچ کئے جائیں گے۔ اس سے پہلے ریاست میں کسی بھی چیف منسٹر نے اقلیتوں کیلئے اتنی فراخدلی کا مظاہر نہیں کیا تھا۔ اقلیتوں کو قرضہ جات فراہم کرنے کی غرض سے درخواستیں طلب کی گئیں لیکن اقلیتوں نے جو درخواستیں داخل کی تھیں ان کی تعداد اتنی زیادہ تھیں کہ حکومت اور بینکوں کو قرض ادا کرنے میں غیریقینی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا۔
تلنگانہ اسٹیٹ میناریٹی فینانس کارپوریشن کے ایگزیکیٹو ڈائرکٹر کے دفترعابڈس میں جمع ہونے والی قرضوں کی درخواستوں کا انبار دیکھ کریہ اندازہ کرلیا جاسکتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں درخواستوں کی یکسوئی ناممکن ہے اور ہوا بھی ایسا ہی صرف ان درخواستوں کو منتخب کیا گیا جنہوںنے روپیہ خرچ کیا۔ 1.32لاکھ درخواستوں میں کتنی درخواستوں کی یکسوئی کی گئی ہے اس کا ریکارڈ دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت کی یہ اسکیم بھی ناکام ہوگئی ہے۔صرف بدعنوانیوں کے ذریعہ قرض حاصل کرنے والے کامیاب ہوئے ہیں۔ شہر حیدرآباد کی صورتحال کے بارے میں چیف منسٹر اور ان کی کابینہ کے رفقاء کا خیال حالات کے مغائر ہی معلوم ہوتا ہے۔

شہر کی بڑھتی آبادی کے دوران صاف صفائی کا مسئلہ اور پینے کے پانی کی سربراہی میں لاپرواہی نے کئی افراد کو مختلف امراض میں مبتلاء کردیا ہے، آلودہ پانی پی کر سب سے زیادہ بچے متاثر ہورہے ہیں۔ سرکاری و خانگی دواخانوں میں قئے و دست کے کیس والے مریض شریک ہیں۔ شہر اور پڑوسی اضلاع سے تقریباً 10 لاکھ ڈائیریا کے کیس سامنے ہیں، ہر سال ایسے کیس رونما ہونے کے باوجود حکومت اور وزارت صحت نے حفاظتی اقدامات نہیں کئے۔ ہر روز 30تا40ڈائیریا کے کیس آرہے ہیں۔ یہ مرض بچوں کیلئے جان لیوا ثابت ہورہا ہے۔ عالمی سطح پر ڈائیریا سے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ہماری ریاست میں نظم و نسق کی لاپرواہی کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان میں امراض کا مسئلہ بھی ہے۔ اس حکومت کے سربراہوں کی نفسیاتی کیفیت پر عوام کو حیرت ہوتی ہے کہ ہزار خرابیوں کے باوجود حکومت کے فلاحی کاموں کا ڈِھنڈورہ پیٹ رہی ہے۔ پرانے شہر سے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ہی شہریوں کو معلوم ہوا کہ ماضی کی حکومت اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی طرح کے حربے صرف مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے ہوتے ہیں تاکہ مسلمان اپنے حقوق یا حکومت کے انتخابی وعدوں کو حاصل کرنے کیلئے دوڑ نہ لگائیں، آواز نہ اٹھائیں۔ اگر حکمراں پارٹی کے قائدین کی اکثریت اپنی سیاسی خودسری میں مبتلا رہے تو حالات ابتر ہوں گے۔