سعید حسین
ایک دانشور کا قول ہے ’’بڑے آدمی زندگی میں کم اور کتابوں میں زیادہ ملیں گے اور ان کی تحریریں صدقہ ٔ جاریہ کی حیثیت رکھتی ہیں‘‘ اس قول کی صداقت کا احساس اس وقت ہوا جب فضل جاوید صاحب کی تحریریں میری نظر سے گزریں۔ یہ تحریریں ہی تو ہیں جو لکھنے اور پڑھنے والے کے درمیان گہرا تعلق پیدا کرنے کا موجب بنتی ہیں اور اسی طرح قاری اور تخلیق کار کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ استوار ہوجاتا ہے۔ اس رشتہ ٔ لطیف کے اسرار ان دونوں کے علاوہ کسی اور پرُ منکشف نہیں ہوسکتے۔ یہ رشتہ ٔ الفت ہی ہے جو قاری اور مصنف کو ایک دوسرے کے بہت قریب کردیتا ہے۔ یہی سب میرے ساتھ ہوا۔فضل جاوید صاحب سے میری ملاقات بارہ سال قبل BHELحیدرآباد میں ان کی قیام گاہ پر ہوئی ‘ پہلی ملاقات میں مجھے محسوس ہوا کہ آپ مخلص انسان ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی منکسر المزاج واقع ہوئے ہیں۔ بہت سلیس زبان میں وہ بات کرتے ہیں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ اس انداز کے پسِ پردہ ان کی علمی قابلیت ضرور ہے‘ لیکن پہلی ملاقات میں انہوں نے اپنے ادبی رجحانات کے بارے میں تو نہیں بتایا‘ تاہم سرسری طور پردہ اردو ادب پر اپنے خیالات کا اظہار ضرور کرتے رہے پھر چند ملاقاتوں کے بعد ہمارے درمیان تکلفات کی دیوار آڑے نہ رہی تب یہ عقدہ کھلا کہ آپ کو نہ صرف ادب سے دلچسپی ہے بلکہ وہ لکھتے بھی ہیں۔ مجھے جدہ واپس ہونا تھا۔ ان سے رخصت لیتے ہوئے میں نے سوچا کہ ان کی چند تخلیقات ساتھ لیتا چلوں تاکہ فرصت کے لمحات میں انہیں پڑھ سکوں۔ بہت سے جریدوں میں سے چند رسالے لے کر ان کی زیراکس کروا کر واپس کردیا۔
فضل جاوید 5؍نومبر 1936کو ہنمکنڈہ ‘ ورنگل میں پیدا ہوئے‘ اردو میں بھوپال سے ایم اے کیا۔ بھوپال میں قیام کے دوران بھوپال کے نامور دانشوروں ادباء اور شعراء کی سرپرستی اور صحبت سے استفادہ کا موقع ملا۔ جن میں چند مشہورنام یہ ہیں۔ پروفیسر گیان چند جین‘ ڈاکٹر ابو محمد سحر‘ پروفیسر عبدالقوی دسنوی اور پروفیسر آفاق احمد صاحب ‘ پروفیسر آفاق احمد جیسے شفیق اور ہمدرد اُستاد کی نگرانی میں آپ کے ادبی ذوق کو پرواز ملی۔آپ کا پہلا مضمون ’’علامہ خار‘‘ کے نام سے شگوفہ کے نومبر 1969ء میں شائع ہوا اس کے بعد 1970کے شماروں میں ان کے پانچ مضامین شریک اشاعت ہوئے جن میں دو تنقیدی مضامین فن پیروڈی سے متعلق ہیں۔اس کے بعد مسلسل آپ کے مضامین ہند و پاک کے معروف رسالوں اور جریدوں میں شائع ہوتے رہے۔
اب تک آپ کی تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن میں پہلی کتاب (1) ’’گل بوٹے‘‘ جس میں انشائیے اور مزاحیہ مضامین ہیں 2012ء میں منظر عام پر آئی اس کتاب کے مضامین کے تعلق سے دنیائے ادب کی چند مشہو ر اور نامور ہستیو ں کے خیالات پیش کررہا ہوں جو فضل جاوید صاحب کی کاوشوں کو بھرپور خراج ہے۔ بقول شگوفہ کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر سید مصطفی کمال صاحب کے الفاظ میں ’’فضل جاوید کے مضامین و اقعاتی مزاج کی خوبصورت مثال ہیں ۔ اردو طنز و مزاح میں ایسے ادیب کم ہیں جن کی تحریریں واقعاتی مزاج پر مبنی ہوں اور جنہیں ہم غیر افسانوی ادب میں شامل کرسکتے ہوں۔ ان کا شوخ‘ شریر مدبرانہ قلم ماحول سے مضحک صورتحال اور مضحک کردار چن لیتا ہے اور ان پر طنز و مزاح کے اسلوب اور مبالغہ کا مہین رنگ چڑھا کر قاری کو دلچسپ طربیہ کیفیت اور لطافت سے سرشار کرتا ہے۔
(2) دوسری کتاب ’’گہرائیاں‘‘ افسانے 2013-2014ء میں منظر عام پر آئیں اس کتاب کے تعلق سے جدہ کی ادبی شخصیت (مجلس علم و ادب جدہ) کے صدر جناب محمد مجاہد سیدلکھتے ہیں کہ ’’فضل جاوید کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ترقی پسند تحریک کے منفی اثرات قبول نہیں کئے نہ تو انہیں دائیں اور بائیں بازو سے جوڑا جاسکتا ہے۔ فضل جاوید نے معاشرے کو جیسا دیکھا ایمانداری کے ساتھ اسے ہو بہو قاری کے سامنے پہنچا دیا ان کے افسانوں میں کہیں تصنع نظر نہیں آتا البتہ اس میں اپر مڈل کلاس کی جھلک ضرور ہے۔ اگر افسانہ نگار کی حیثیت سے شائستہ باوقار‘ پابند اقدار ایماندار اور انسانیت دوست شخصیت کو کامیابی کا معیار سمجھا جائے تو فضل جاوید ہمیں اس معیار پر پورے اترتے نظر آتے ہیں۔
آپ کی تیسری کتاب ’’نگینے‘‘ جس میں شخصیات اور کتابوں پر تبصرے تجزیے شامل ہیں 2015ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا دیباچہ پروفیسر آفاق احمد صاحب (بھوپال) نے لکھا ہے۔ جس میں وہ فضل جاوید صاحب کا تعارف کچھ اس طرح کرتے ہیں ’’اردو میں پیروڈی‘‘ کے موضوع پر ایک سیر حاصل تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ یہ مقالہ اردو میں پیروڈی کے موضوع پر اتبدائی کاوشوں میں سے ایک تھا اس کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ نیاز فتح پوری کے ’’نگار‘‘ میں اس کا ایک پورا باب نقل کیا گیا۔ زندہ دلان حیدرآباد کے رسالہ ’’شگوفہ‘‘ نے ایک پورا نمبر اس مقالہ کے لئے وقف کیا۔ اگر اس مقالہ کو اردو میں پیروڈی کے حوالے کا درجہ دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
فضل جاوید کو پڑھنے کے بعد جناب سید وسیم شاہد بخاری (پاکستان انٹرنیشنل اسکول جدہ) یوں لکھتے ہیں۔ ’’فضل جاوید کو پڑھیئے اور زیر لب مسکرائیے‘‘ فضل جاوید کی تحریروں میں ایک روانی اور بہاؤ ہے خاصہ یہ ہے کہ قاری انہیں پڑھتے ہوئے ہمیشہ زیر لب مسکراتا ہے۔ وہ الفاظ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر نہایت خوش سلیقگی سے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پڑھتے ہوئے ان کی تحریر دل میں ایسی اترتی چلی جاتی ہے جیسے فضاء میں قوس قزح پھیل جاتی ہے۔مزاح نگاری کوئی مذاق نہیں ہے۔ جس طرح بچوں کے لئے لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ مزاح لکھنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ زرا پاؤں اوچھا پڑجائے تو آدمی دو لخت ہوکر منہ کے بل زمین پر آرہتا ہے۔مزاح لکھنے والا زبردست ذوق اور اعتدال کا نقاضہ کرتا ہے۔ مزاح نگاری کا ایک وصف یہ ہے کہ مزاح کی تہہ میں آنسو گرنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ہر مزاح نگار شائستہ مزاج ہوتا ہے۔ مزاح وہی شخص لکھ سکتا ہے جس کے پاس خود پر ہنسنے کا حوصلہ ہو‘ اچھے مزاح نگار اور طنز نگار کے لئے مشتاق احمد یوسفی ایک جگہ لکھتے ہیں ’’اچھے مزاح نگار اور طنز نگار تنے ہوئے رسسّے پر اترا اترا کر کرتب نہیں دکھاتے بلکہ …
’’رقص یہ لوگ کیا کرتے ہیں تلواروں پر‘‘
زہرِ غم جب رگ و پے میں سرائیت کرکے لہو کو کچھ اور تیز و تند و توانا کردے تو نس نس سے مِزاح کے شرارے پھوٹنے لگتے ہیں‘ عملِ مزاح اپنے لہو کی آگ میں تب کر نکھرنے کا نام ہے۔ لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ راکھ۔ لیکن اگر کوئلہ کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے تیز ہوتو پھر وہ راکھ نہیں بنتی‘ ہیرا بن جاتی ہے۔ یہ وصف جناب فضل جاوید صاحب کی مزاح نگاری میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ پاکستان کے ممتاز ادیب محمد عامر خورشید صاحب نے جدہ کے ایک ’’مجلس علم و ادب جدہ‘‘ کے جلسہ تہنیت میں فضل جاوید صاحب کے ادبی سفر کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں۔
جناب فضل جاوید کی ادبی شخصیت پہلودار اور متنوع ہے۔ انہوں نے اشہب قلم کو ادب کے مختلف میدانوں میں دوڑا رکھا ہے۔ چنانچے ان کے مضامین‘ افسانے‘ مزاح نگاری اور تحریف نگاری یعنی پیروڈی مختلف رسائل اور جرائد کے ذریعہ قارئین تک پہنچ چکے ہیں۔ بہرحال فضل جاوید صاحب قابل مبارکباد ہیں اور ہم منتظر ہیں کہ جلد سے جلد ان کی چوتھی کتاب منظر عام پر آئے تاکہ قارئین کی تسکین کا سامان بنے۔