محمود شام، کراچی (پاکستان)
ہم پاکستانی اپنی بھی اور سب کی ہمدردی کے مستحق ہیں کہ ہم اپنی ساری توانائیاں ان سے مذاکرات پرصرف کررہے ہیں، جو نہ ملک کے آئین کو مانتے ہیں۔ نہ قانون کو۔ اسی لئے وہ الیکشن لڑتے ہیں نہ پارلیمنٹ کی بالادستی مانتے ہیں۔ حکومت سے بہتر سیاست سمجھتے ہیں۔ مذاکرات کے لئے وہ نام پیش کئے ہیںجو ان کے رکن ہیں نہ ان کے ساتھ جہاد میں حصّہ لے رہے ہیں۔ اپنے رہنماؤں کو سامنے نہیں لارہے ہیں۔ دوسری جماعتوں اور اداروں کے معزز اور محترم بزرگوں سے اپنی ترجمانی اور نمائندگی بڑی ذہانت سے کروارہے ہیں۔ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی بھی طالبان کو اخلاقی اور سیاسی تقویت پہنچا رہی ہے معلوم نہیں جان بوجھ کر یا نا دانستہ۔ میڈیا کا بھی یہی کردار ہے دانستہ یا نادانستہ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ عام تاثر طالبان کے حق میں جا رہا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی میں سوائے ایم کیو ایم اور اے این پی کے یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ طالبان کے موقف کی مخالفت کر سکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے طور پر سمجھ رہی ہے کہ وہ حکمراں مسلم لیگ (ن) کو الجھارہی ہے۔ لیکن وہ یہ باور نہیں کر رہی ہے کہ یہ چالیں آگ سے کھیلنے کے برابرہیں۔ جہاں انسانی جانوں کو خطرہ ہو وہاں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے۔ صرف یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ مخالف پارٹی پریشان ہو کر آخر میں ناکام ہو جائے گی۔ اس دوران میں دہشت گرد طاقتور ہوتے جارہے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت جس گروپ یا تنظیم سے بات چیت کا اہتمام کررہی ہے اسے کالعدم کہا جاتا ہے۔ قانونی حیثیت میں اس کا وجود نہیں ہے۔ اگر مذاکرات کی کامیابی حقیقت میں مقصود ہے اور نواز حکومت نیک نیتی سے طالبان سے مفاہمت کی راہ اختیار کرنا چاہتی ہے تو پہلا قدم تو یہ ہونا چاہئے کہ تحریک طالبان پاکستان سے پابندی ہٹائی جائے اس سے طالبان کو یہ یقین ہوگا کہ حکو مت واقعی سنجیدگی سے مذاکرات کرنا اور انہیں کسی نتیجے تک لے جانا چاہتی ہے۔ دوسرے اس اقدام سے حکومت اس الزام سے بھی بری ہو جائے گی کہ سرکار ایسے گروپوں سے بات کر رہی ہے جن کی حیثیت ہی قانونی نہیں ہے۔ خیبر پختون خواہ حکومت طالبان کو دفتر فراہم کرنے کی پیشکش کر چکی ہے۔
مختلف حلقوں کی طرف سے بجا طور پر بعض سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جن کا جواب طالبان کی طرف سے بھی نہیں آرہا۔ حکومت کی جانب سے بھی نہیں کہ طالبان نے جو راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس کا مقصد کیا ہے۔ طالبان کی تنظیم کیوں وجود میںآئی۔ ان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اس کا سیدھا راستہ تو یہ ہے کہ وہ الیکشن میں حصّہ لیں۔ اکثریت حاصل کرکے حکومت قائم کریں اور شریعت نافذ کریں۔ پاکستان کی غالب آبادی شریعت کی بالادستی کی خواہش رکھتی ہے۔ پاکستان کا آئین بھی اسے لازمی قرار دیتا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کا ادارہ اسی نیک مقصد کے لئے تشکیل دیا گیا 1973کے آئین میں یہ پابندی رکھی گئی تھی کہ کونسل دس برس یعنی 1983تک تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق کردے لیکن درمیان میں جنرل ضیاء کا مارشل لاء آگیا اور یہ کام رک گیا یہ الگ بات کہ انہوں نے بندوق کے زور پر اپنا اسلام نافذ کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا شیرانی مولانا فضل الرحمان کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ طالبان کو مولانا کی شریعت سے کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔ شریعت کا نفاذ اگر بنیادی نکتہ ہے تو اس کا حصول خودکش بم دھماکوں اور ہلاکتوں سے کیسے ممکن ہے۔
قوم وزیر اعظم اور طالبان دونوں کی طرف دیکھ رہی ہے اور بے تابی سے منتظر ہے کہ دونوں کے نکات کب سامنے آئیں گے کہ بنیادی اختلافات کیا ہیں۔ طالبان کے کونسے مطالبات ہیں جو حکومت کی طرف سے پورے نہیں کئے گئے۔ جس کی وجہ سے طالبان ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ میڈیا اس موضوع کو بہت اہمیت دے رہا ہے روزانہ کئی کئی ٹاک شوز اسی حوالے سے ہو رہے ہیں لیکن جیسا کہ دنیا بھر میں ہونے والے مذاکرات سے پہلے دونوں طرف سے واضح انداز میں اپنا اپنا موقف اور نکات آتے رہے ہیں۔ اس مذاکراتی عمل میں ایسی قطعیت اختیار نہیں کی گئی۔ سرکار کی جانب سے صرف یہ کہا جاتا ہے کہ امن کو ایک موقع اور دینا چاہتے ہیں۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ حکومت ان مذاکرات سے کیا کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح طالبان نے بھی واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ وہ حکومت سے کیا شرائط منوانا چاہتی ہے۔ یا آئین میں کیا ترامیم کروانے کی خواہاں ہے یا کونسے قوانین بدلوانا چاہتی ہے۔ داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں کیا تبدیلیاں لائی جائیں ۔اس مبہم صورت حال میں بعض حلقوں کی جانب سے جب یہ کہا جائے کہ ملک کو در پیش حقیقی چیلنجوں سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ ڈول ڈالا گیا ہے تو دل یہ ماننے کو تیار ہونے لگتا ہے آپ کو یاد دلاؤں کہ جب محرم کے دنوں میں راولپنڈی میںفائرنگ سے بہت ہلاکتیں ہوئیں اور کشیدگی پھیلی قوم اس کی تفصیل جاننا چاہتی تھی اور ایسی بھیانک واردات کے ذمہ داروں کی شکلیں دیکھنے کی منتظر تھی اس روز وزیر داخلہ نے مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی خوشخبری سنائی اور اب جب یہ مقدمہ الجھ رہا ہے۔ کوئی رزلٹ مرضی کا نہیں نکل رہا تو قوم کو طالبان سے بات چیت کی خبروں میں مصروف کیا جارہا ہے۔ مشرف کے مقدمے میں ایسا تاثر پیدا ہورہا تھا کہ فوج نہیں چاہتی کہ ان کے ایک سابق چیف پر غداری کی چارج شیٹ لگائی جائے۔ اس لئے فوج کی جانب سے طالبان کے خلاف آپریشن کی تیاریوں کے باوجود مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا۔ مشرف کیس پس منظر میں چلایا گیا۔ اسی اثنا میں یہ خبر آئی کہ آرمی چیف سعودی عرب کے دورے پر چلے گئے ہیں۔ سننے میں آرہاہے کہ وزیراعظم نے یہ عندیہ سعودی عرب کو دیا کہ مشرف کو سزا ہونے دیں پھر جیسے نواز شریف صاحب سزا کے بعدمعافی مانگ کر سعودیہ چلے گئے تھے۔ اسی طرح مشرف صاحب کو بھی موقع دے دیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ بات منتخب وزیر اعظم کی سنی جاتی ہے یا عسکری حلقے سعودیہ کو قائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ مشرف صاحب غداری کا الزام عائد کروائے بغیر ملک سے باہر چلے جائیں۔ یہ معاملہ صرف ایک فرد کا نہیں ہے۔ ایک ادارے کا ہے۔۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے: 92-3317806800