ڈاکٹر محمد یوسف الدین
فرید انجم قلمی نام اور اصل نام محمد فریدالدین تھا ۔ موصوف مستقر عادل آباد میں 1945 ء میں پیدا ہوئے ۔ بچپن سے لکھنے کا شوق تھا ، میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور پیشہ تدریس سے وابستہ ہوئے اور ایک کامیاب مدرس کی حیثیت سے نام کمایا ۔ شاعری تو ان کے خون میں سرایت کرگئی تھی ۔ انداز شاعرانہ طبیعت قلندرانہ پائی تھی ۔ باضابطگی سے نفرت اور بے ضابطگی ان کا وطیرہ تھا ۔ لیکن انسان بڑے رکھ رکھاؤ کے تھے ۔ دوران ملازمت عادل آباد میں محصور رہے جب وظیفہ لیا تو حیدرآباد منتقل ہوگئے ، کلام میں بڑی فنکاری تھی لیکن اضلاعی فہرست میں شامل نام اضلاع کا ہو کر رہ گیا تھا ۔ حیدرآباد منتقل ہونے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ ملک بھر کے مشاعروں میں شرکت کی اور بین الاقوامی دورے کئے ، اردو دنیا میں فرید انجم کا سکہ جم چکا تھا کہ احباب کے اسرار پر اپنا پہلا اور آخری مجموعہ کلام ’’چغلیات‘‘ کے عنوان سے اردو اکیڈیمی کے مالی تعاون سے شائع کرویا ۔
ملک کے نامور مزاح و طنز نگار پدم شری مجتبیٰ حسین نے مختصر تعارف میں ان کے مجموعہ ’’چغلیات‘‘ میں لکھا کہ ’’فرید انجم دیکھنے میں نہایت دھان پان سے آدمی نظر آتے ہیں لیکن شاعری کے میدان میں پہلوان سخن نظر آتے ہیں‘‘ ۔ دو تین برس پہلے ایک محفل میں ملاقات ہوئی تو بڑی محبت سے ملے ، نہایت منکسر المزاج وضعدار ، مرنجان مرنج اور حیدرآبادی تہذیب کا نادر نمونہ نظر آئے‘‘ ۔
حیدرآباد میں طنز و مزاح کی روایت پرانی ہے اور فرید انجم اس روایت کے ایک توانا شاعر تھے جہاں وہ سلیس اور شستہ زبان میں شعر کہنے پر قدر رکھتے ، وہیں دکنی زبان میں تخلیقی اظہار کی زبردست صلاحیت رکھتے تھے ۔ آج کا معاشرہ تضادات ، بے اعتدالیوں اور بوالعجبیوں کا معاشرہ ہے ایک اچھے طنز نگار کی حیثیت سے ان تضادات پر فرید انجم کی گہری نظر تھی ۔ فرید انجم مشاعروں کے کامیاب شاعر تھے وہ سامعین کو اپنے طلباء کی طرح گرفت میں رکھتے تھے ۔ سامعین ان کا کلام ہم تن گوش ہو کر سنتے تھے ۔ اظہار بیان پر بلا کی قدرت حاصل تھی ۔ ان کے شعر پڑھنے کا انداز ان کی مدرسی کی دین تھا کیونکہ وہ ایک کامیاب مدرس تو تھے ہی بعد میں شاعر بھی کمال نکلے ۔ انھیں ڈرامے لکھنے اور اسٹیج کرنے کا فن بھی آتا تھا ۔ اس لئے اسٹیج سے سامعین کو قابو کرنے کا فن کوئی ان سے سیکھے ۔
ڈاکٹر آئی اے ایس بانی سماج درپن حیدرآباد نے چغلیات میں انھیں ’’فرید آسمان نظم کا انوکھا انجم‘‘ کے عنوان سے تبصرہ لکھا وہ کہتے یہیں کہ ’’فرید انجم ایک شاعر ہی نہیں ایک تحریک کا نام ہے ایسی تحریک کو حضرت سلیمان خطیب اور گلی نلگنڈوی کے انتقال کے بعد معطل ہوگئی تھی اسے متحرک کرنے میں جو رول فرید انجم نے انجام دیا ہے اس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے ۔ فرید انجم کی دکنی شاعری میں ان کے مزاح سے زیادہ پیغام واضح ہے۔
اچھے اچھے ڈوب کو مرگیں
تیر کو نکلا لنگڑا کیا
کھیر تو کتے کو نئیں پچتی
تم بھی پی رئیں پچنا کیا
مرشد اب تم اُپر جارئیں
کچھ بھی نئیں ہے توشہ کیا
اشرف المخلوقات ہو کر بھی
دم ہلانے کی بات کرتے ہو
وہ کہتے ہیں کہ ہے آباد مسجد
فقط چنوں میاں ہے اور میں ہوں
جب فوت ہوا نیتا سب لوگ کہہ اٹھے
جلدی سے جلا ڈالو سب سے بڑا فتنہ ہے
نیتا کو ڈاکو بھی کہنا
ڈاکو کا اپمان ہے بابا
فرید انجم کی نظمیں بڑی ہی باکمال لکھی ہیں ان میں فیملی پلاننگ ، سسرال کا جغرافیہ ، آخ تھو ، ڈپلیکیٹ شاعر ، معجزہ ، طوطا چشمی ، نان میٹرک داماد وغیرہ ۔ بے جوڑ شادیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں بیٹی سسرال سے واپس آئی ہے تو اپنی ماں سے یوں شکایت کرتی ہے ۔
کیسے کیوں کو تو کھنگالی گے
کیسے لوگاں میں منجے ڈالی گے
بہت ارماں تھا میری شادی کا
کتّے ارمان تو نکالی گے
کیا مصیبت میں ڈال دی اماں
جان آفت میں ڈال دی اماں
فرید انجم کلام کوبڑے ہی پرلطف اور موثر انداز میں پیش کرتے ، انکا انداز پیشکشی ہی سامعین کو بے اختیار قہقہے لگانے پر مجبور کردیتا ، پھر جب وہ اپنی تخلیق کو سنجیدگی کی طرف موڑ دیتے ہیں تو بے ساختہ واہ واہ سے آہ آہ نکلتی ۔ ان میں ایک اچھا استاد ، سچا شاعر ، بہترین شوہر ، شفیق باپ اور ایک اچھا دوست ثابت ہونے کی سبھی خوبیاں تھیں ۔ انھوں نے صرف ایک ہی مجموعہ کلام ’’چغلیات‘‘ کی اشاعت سے ساری اردو دنیا میں نام کمایا ، اور شہرت دوام حاصل کی ۔ بہ عارضۂ سرطان یہ شاعر خوش بیان 22 اگست 2005 کو اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ کر ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔