فروغ طب یونانی اور حکیم سید غوث الدین

فیض محمد اصغر

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندوستان میں علاج و معالجہ کے لئے عوام یونانی طریقہ علاج کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ آزادی کے بعد ملک نے عصری ضرورتوں و دیگر علوم اور سائنس میں جس طرح ترقی کی ہے وہ سب جانتے ہیں۔ ایک ایسے وقت جبکہ دیسی طریقہ علاج کو کم درجہ کی حیثیت سے دیکھا جارہا تھا جبکہ دیسی طریقہ علاج سب سے کم خرچ اور دیرپا صحت کا ضامن ہے۔ اُس وقت ہندوستانی طب کی زوال پذیری کو دیکھتے ہوئے ملک کے کئی علاقوں میں طبی علاج کے فروغ کے لئے ہمدردانِ قوم آگے بڑھے۔ ان میں حکیم عبدالحمید صاحب بانی ہمدرد کا نام سرفہرست ہے۔ جبکہ حکیم محمود الرحمن، حکیم نواب مظفرالدین خاں، حکیم قدرت اللہ حسامی، حکیم عبدالباسط، طبیبہ سروج آستھانہ، طبیبہ بلقیس جہاں قادری، طبیبہ بلقیس ملک، ڈاکٹر غلام یزدانی، حکیم غلام حسین، حکیم عبدالوحید نے بھی طب یونانی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح متحدہ ریاست آندھراپردیش میں حکیم سید غوث الدین نے فروغ طب یونانی کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ حکیم سید غوث الدین نے ہمیشہ اطباء و طلبہ طب یونانی کے مسائل حل کرنے اور اس نظام کو فروغ دینے کے لئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔ ابتداء سے ہی اپنے اساتذہ اور طب یونانی سے متعلق ممتاز شخصیتوں سے مشاورت کے ذریعہ طب یونانی کے فروغ کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ اس سلسلہ کی جدوجہد کے دوران 1995 ء میں ایک ہمدرد صحافی محمود اظہر نے راقم الحروف کو اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ حیدرآباد اور کرنول میں دو طبی کالج موجود ہیں۔ جبکہ طلبہ کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ اس پر غور و خوض کرنے کے بعد نتیجہ برآمد کیاکہ کیوں نہ اس کو فروغ دینے کے لئے جدوجہد کی جائے۔ ہمارے محسن جنھیں مرحوم لکھتے ہوئے قلم لڑکھڑا رہا ہے خادم نے اس مسئلہ کو محسنِ طب حکیم سید غوث الدین سے رجوع کیا۔ حکیم سید غوث الدین قبل ازیں حکومت آندھراپردیش کے مشیر طب یونانی رہے اور ساتھ ساتھ وہ آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے اہم عہدہ پر فائز تھے۔ چنانچہ اس کو حقیقی معنی میں فروغ دینے کے لئے مشاورت کی گئی۔ اس دوران یہ اہم مسئلہ درپیش تھا کہ طلبہ میں کس طرح طب یونانی کی افادیت اور اس کی اہمیت سے متعلق شعور بیدار کیا جائے۔ طے پایا کہ روزنامہ سیاست کی فلاحی خدمات اظہرمن الشمس ہیں کیوں نہ اس کو جناب زاہد علی خاں ایڈیٹر روزنامہ سیاست سے رجوع کریں۔ راقم الحروف نے پیش کش کی کہ ایڈیٹر روزنامہ سیاست جناب زاہد علی خاں سے بات کی جائے۔ جناب زاہد علی خاں کو تفصیلات پیش کی گئیں تو وہ حیرت زدہ ہوگئے کہ حیدرآباد جیسے اُردو کے شہر میں طب یونانی کے لئے طلبہ کی تعداد کی کمی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اس کے لئے ایک جامع پلان بنانے کا مشورہ دیا اور پھر جناب ظہیرالدین علی خاں منیجنگ ایڈیٹر سیاست سے رابطہ اور عملی اقدامات کے لئے پہلا قدم اُٹھایا گیا۔ اس دوران حکیم سید غوث الدین نے بتایا کہ طب یونانی میں داخلہ کے لئے ایک امتحان حکومت کی جانب سے لیا جاتا ہے جسے BUMSET کہتے ہیں جب تک طلبہ کو ہم اس کی بہتر تعلیم و تربیت نہ کریں داخلہ میں کامیابی ممکن نہیں۔ کئی ایک اساتذہ سے اس سلسلہ میں مشاورت کے بعد طے پایا کہ BUMSET کی کلاسیس کا اہتمام کیا جائے۔ اس کے لئے مالیہ اور جگہ سے متعلق جناب زاہد علی خاں نے پیشکش کی اور1996 ء کے داخلوں کے لئے BUMSET کلاسیس کا آغاز کیا گیا۔ طلباء میں شعور بیداری کے لئے روزنامہ سیاست کے ذریعہ بہتر تشہیر کا نتیجہ رہا کہ طلبہ کی بڑی تعداد اس امتحان میں شرکت کے لئے تیار ہوگئی۔ 2 ماہ کے کورس کے ذریعہ ممتاز اساتذہ کرام نے اپنا قیمتی وقت دے کر سینکڑوں طلبہ کو بی یو ایم ایس میں داخلہ دلوایا۔ نظامیہ طبی کالج، عبدالحق یونانی کالج کرنول کے علاوہ ریاست کرناٹک میں لقمان کالج آف فارمیسی میں داخلہ دلوایا۔ پرنسپل لقمان کالج آف فارمیسی ڈاکٹر عاقل قادری اور پروفیسر ڈاکٹر سید زین العابدین خان کے مطابق اس کالج کے قیام میں بھی حکیم سید غوث الدین کا اہم کردار رہا۔ وہ خوش لباس اور خوش کلامی میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ حکیم سید غوث الدین کئی ایک فلاحی تنظیموں اور فلاحی کاموں سے وابستہ تھے۔ انھوں نے حیدرآباد کے علاوہ مختلف اضلاع میں حجامہ کیمپ کا انعقاد عمل میں لایا۔ یونانی طبی کانفرنس کے ذریعہ کانفرنسوں کا اہتمام کیا۔ ملک و بیرون ملک لیکچرز میں شرکت کی۔ حکیم اجمل خاں سمینارس و لیکچرس کا انھوں نے ریاست میں آغاز کیا۔ مرکزی و ریاستی حکومتوں سے نمائندگی کی۔ فلاحی تنظیم انجمن فلاح معاشرہ کے مشیر رہ کر یتیموں اور نادار لڑکیوں کے علاج و معالجہ کے علاوہ ان کی شادیوں کے انتظام میں ڈاکٹر مشتاق علی کے ہمراہ خدمات انجام دیں۔ حج و عمرہ گائیڈنس سوسائٹی میں اہم کردار ادا کیا۔ روزنامہ سیاست کے لئے مسلسل ہفتہ واری کالم ’’بیماری اور علاج‘‘ لکھتے رہے۔ کتاب، ترکش باتھ کے مصنف تھے۔ اس کتاب کو طب کی دنیا میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لئے وہ مختلف فلاحی انجمنوں سے وابستہ رہے۔ یونائیٹیڈ ہندو مسلم فرنٹ اور میناریٹیز ڈیولپمنٹ فورم کے ایک ذمہ دار کی حیثیت سے خاموش خدمات انجام دیتے رہے۔ نام و نمود کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ عملی طور پر بات کو مکمل حل کروانے کی صلاحیت موجود تھی۔ اطباء یونانی سے ان کے روابط تھے اور ان کے ذریعہ نئی نسل کو طب سے متعلق بہتر معلومات کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ حکیم سید غوث الدین نے جب بی یو ایم ایس میں داخلوں کی کوشش کو عملی جامہ پہنانا چاہا طب یونانی کے ممتاز اطباء حکیم مظفرالدین، حکیم سید سجاد، حکیم بشیرالدین وغیرہ سے مشورہ کیا۔ حکیم سید غوث الدین کے قدیم رفقاء میں جناب عابد صدیقی، عارف الدین سلیم ایڈیٹر نیوز ٹرسٹ آف انڈیا، حکیم سید قدرت اللہ حسامی، حکیم یداللہ ، حکیم حامد علی مرحوم اور کئی ایک اہم شخصیتیں ہیں جن کی تفصیل اس وقت ممکن نہیں۔ حکیم سید غوث الدین نے ساری زندگی ملک و ملت کے لئے وقف کردی تھی اور ہمیشہ وہ بے لوث اور بے ضرر زندگی گزار کر انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیتیں اور ضرورت مند انھیں ہمیشہ اپنا خیر خواہ اور ہمدرد کے طور پر دیکھتے تھے۔ آج ایسے افراد کی کمی ہوتی جارہی ہے جو حقیقی معنوں میں ملت کا درد رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔