فرقہ پرستی کی عینک

فیض محمد اصغر
بی جے پی قائدین خاص کر اس کے عوامی نمائندوں کے اذہان و قلوب میں مسلمانوں کے خلاف اس قدر زہر بھرا ہوا ہے کہ وہ ہر چیز کو فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھنا اپنی عادت بنا چکے ہیں۔ ہمیشہ وہ لوگ ہندو مسلم کے نظریہ سے سوچتے ہیں حالانکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوری و سیکولر ملک ہونے کے ناطے دستور ہند نے تمام شہریوں کو بلا لحاظ مذہب و ملت، رنگ و نسل، ذات پات و علاقہ، مساویانہ حقوق عطا کئے ہیں اور کوئی بھی حکومت مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو بھی اس کے دستوری حق سے محروم نہیں کرسکتی چاہے وہ وزیر اعظم مودی ہو یا پھر کسی گلی کوچہ کا بی جے پی لیڈر سب کے سب عوام کی خدمت کے پابند ہیں۔ ایسے رہنما جو مقامی اداروں، بشمول بلدیات و پنچایت کے علاوہ اسمبلی و قانون ساز کونسل اور لوک سبھا و راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوتے ہیں ان کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ بہتر انداز میں عوام کی خدمت بجالائیں، کسی سے بھی جانبدارانہ رویہ اختیار نہ کریں۔ ہر ہندوستانی شہری اور اس کے مذہب کا احترام کریں ۔ یہ لوگ باضابطہ ملک و قوم کی خدمت کا عہد کرتے ہیں اور اس عہد کی پاسداری ان کا فریضہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ عوامی نمائندے ملک میں فرقہ پرستی کا زہر گھول رہے ہیں اور یہ سب کچھ اپنے شخصی مفادات کے تحفظ اور سستی شہرت کے لئے کیا جارہا ہے۔ ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس نے جتنا نقصان پہنچایا ہے شاید آزاد ہند کی تاریخ میں کسی اور جماعت اور تنظیم نے نہیں پہنچایا ہوگا۔ مودی حکومت میں ہندوستان نے بلا شک و شبہ زبردست ترقی کی ہے لیکن یہ ترقی تعلیم، صحت، روزگار اور صنعت و حرفت یا زرعی شعبہ میں نہیں ہوئی بلکہ فرقہ پرستی کے شعبہ میں ہوئی ہے۔ بی جے پی کے کئی ایسے ارکان پارلیمان ارکان اسمبلی اور کارپوریٹرس یہاں تک کہ بعض مرکزی وزراء ہیں جنہوں نے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی ہے۔ انہیں پاکستان چلے جانے کے لئے کہا ہے، حد تو یہ ہے کہ کچھ نے یہ تک کہہ دیا کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس قائدین مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کردینے کی باتیں بھی کررہے ہیں۔ کرناٹک سے تعلق رکھنے والے ایک سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی رکن اسمبلی بسن گوڑا پاٹل پتنال نے بی جے پی کارپوریٹرس کو ہدایت دی ہے کہ وہ صرف اُن ہندوؤں کے لئے کام کریں جنہوں نے ان کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ اس ایم ایل اے نے فرقہ پرستی کی حد کرتے ہوئے کارپورٹروں کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ مسلمانوں کے لئے کام نہ کریں۔ اس سلسلہ میں ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آیا جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگیا ہے۔ مسٹر بتنال بیجاپور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس رکن اسمبلی نے ویڈیو میں یہ کہا ہے کہ میں نے اپنے لوگوں کو ہدایت دی ہے کہ سرپر ٹوپی پہننے والے مرد اور برقعہ پوش عورتیں میرے دفتر میں نہیں آنا چاہئے۔ بتنال واجپائی کے دور حکومت میں ایک ایم پی اور مملکتی وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکا ہے۔ اسے اس کے ریمارکس کے لئے صرف ایک فرقہ پرست کیڑا ہی کہا جاسکتا ہے جو ہندوستانی معاشرہ کی سیکولر بنیاد کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہے، لیکن اسے فرقہ پرستی کی وباء یا وائرس کو ختم کرنے کے لئے استعمال کئے جانے والے جراثیم کش ادویات سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بی جے پی اور سنگھ پریوار کی بکواس کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے قبل بی جے پی کے ارکان پارلیمان اور مرکزی وزراء نے مسلمانوں کو پاکستان یا بنگلہ دیش چلے جانے کے لئے کہا تھا۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ ونئے کٹیار نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ ہندوستان چھوڑ کر پاکستان یا بنگلہ دیش میں بس جائیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو یہ مشورہ ایسا دیا جیسے ہندوستان ان کے والد محترم کی جاگیر ہو۔ ونئے کٹیار کو یہ جان لینا چاہئے کہ ہندوستان کسی کے پتا کی جاگر نہیں ہے۔ بلکہ ہندوستان پر ہندو مسلم سکھ عیسائی سب کا برابر کا حق ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سنگھ پریوار جان بوجھ کر مسلمانوں کو اشتعال دلا رہا ہے تاکہ اس کا سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے۔ ویسے بھی 1966 میں آر ایس ایس کے نظریہ ساز ایم ایس گولوالکر نے اپنی کتاب BUNCH OF THOUGHTS میں لکھا کہ ملک میں جہاں مسجد ہو اور مسلم محلہ ہو وہاں کے مسلمان اس علاقہ کو اپنا آزادانہ علاقہ تصور کرتے ہیں۔ گولوالکر نے ایسے علاقوں کو چھوٹے پاکستان سے تعبیر کیا تھا۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم دشمن نفرت انگیز بیانات سنگھ اور اس کے حامیوں کے رگ وپے میں دوڑتے ہیں۔ اس سے قبل بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے بھی مسلم دشمنی میں تمام سرحدیں عبور کرتے ہوئے ہندوستان میں آبادی میں اضافہ کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی آبادی پر فوری کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہندوستان ایک ہندو اکثریتی ملک باقی نہیں رہے گا۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے بھی متعدد مرتبہ عجیب و غریب بیانات جاری کئے۔ انہوں نے ہندوستان کو ہندو ملک قرار دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان ایک ہندو ملک نہیں بلکہ سیکولر ملک ہے جس کے دستور نے تمام شہریوں کو مساویانہ حقوق دیئے ہیں۔