فرقہ پرستی کا دھندہ کرنے والے یہ درندے

محمد وقاراحمد
ہندوستان ایک کثیر مذہبی ملک ہے جہاں متعدد مذاہب و عقیدوں کے ماننے والے اور بے شمار ذات پات سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی نہ صرف زبانیں اور بولیاں جدا جدا ہیں بلکہ کھانے پینے رہن سہن کے انداز بھی الگ ہیں۔ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں چند کیلو میٹر کے بعد آپ کو نئی بولی سننے نئی تہذیب کو دیکھنے کا موقع ملے گا۔ ان تمام حقائق کے باوجود ہندوستان، حقیقت میں جنت نشان ہے۔ اس ملک کی خوبصورتی اس زمین پر پائی جانے والی اعتدال پسندی، محبت و مروت، دوسرے مقامات پر بہت ہی کم دیکھنے میں آتی ہے لیکن ہندوستان کی یہ بدقسمتی بھی ہے کہ اسے فرقہ پرست اور اپنے مفادات کے غلام عناصر فرقہ پرستی کی آگ میں جان بوجھ کر ڈھکیل رہے ہیں۔ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کررہے ہیں۔ اپنے بینک بیالنس میں اضافہ اور سیاسی قدر و قیمت بڑھانے کی خاطر جانوروں کے لئے انسانوں کے قتل سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نعشوں پر سے گزر کر اقتدار کی کرسی یہاں تک کہ عہدہ وزارت عظمیٰ پر بھی فائز ہوسکتے ہیں۔ ان فرقہ پرستوں کو ہندوستان اور ہندوستانیوں کی ترقی و خوشحالی کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس طرح کے سیاستداں دراصل اپنے مفادات کے غلام ہیں۔ حال ہی میں ایک ٹی وی چیانل نے یہ جاننے کے لئے خفیہ آپریشن کیاکہ آیا سیاستدانوں اور مذہبی تنظیموں کے قائدین کی فسادات بھڑکانے، کسی فلم کی نمائش کے لئے احتجاجی مظاہرہ کرنے یا پھر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان اختلافات کے بیج بونے کی خدمات کرایہ پر حاصل کی جاسکتی ہیں؟ اس ٹی وی چیانل نے یہ بھی جاننا چاہا کہ ایسے سیاسی قائدین اور مذہبی چولا پہننے والے لوگوں کو دھوکہ دینے والے عناصر کس طرح اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے مار پیٹ پر اُتر آتے ہیں۔ ملک کے شہریوں کے درمیان نفرت کی دیوار کیسے کھڑی کردیتے ہیں، اس خفیہ (اسٹنگ آپریشن) کے نتائج چونکا دینے والے تھے۔ اسے کچھ ایسے سیاستداں اور مذہبی چولا پہنے وہ قائدین مل ہی گئے جن کا مقصد ملک یا مذہب کی خدمت نہیں بلکہ عوام کو اپنی جھوٹ و فریب اور مکاری کے ذریعہ گمراہ کرتے ہوئے دولت بٹورنا ہے۔

اپنے دس روزہ اسٹنگ آپریشن کے ذریعہ انڈیا ٹوڈے ٹی وی کے نمائندوں کی ملاقات ایسے مکروہ چہروں سے ہوئی جو فلموں کی نمائش روکنے سے لے کر مذہبی بنیادوں پر فسادات، دنگے اور احتجاجی مظاہرہ منظم کرنے کے لئے تیار ہوگئے اور اس کام کے لئے اچھی خاصی رقم طلب کی۔ ایک شخص نے تو 5 لاکھ روپئے کے عوض مذہبی فساد برپا کرنے پر آمادگی ظاہر کردی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا ملک کس نازک ترین اور اخلاقی گراوٹ کے دور سے گزر رہا ہے جہاں انسانی جانوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ لوگوں نے اخلاقی اقدار اور بحیثیت انسان اپنی انسانی ذمہ داریوں کو فراموش کردیا ہے۔ اس اسٹنگ آپریشن میں وہ شخص بھی بے نقاب ہوگیا جس نے اترپردیش میں ہندو نوجوانوں کے لئے جہادیوں کے خلاف مسلح تربیت کا اہتمام کروایا تھا۔ اپنے ہم وطنوں کے خلاف گمراہ ہندو نوجوانوں کو اسلحہ کی تربیت فراہم کرنے والا یہ بے ضمیر شخص فی الوقت نوئیڈا کے ایک اسپتال کے بستر پر پڑا آرام کررہا ہے۔ اس اداکاری کے ذریعہ شائد وہ جیل میں کچھ دن گزارنے سے بچنا چاہتا ہے۔ اس شخص کا نام پرمیندر آریہ ہے۔ انڈیا ٹو ڈے کے ایک رپورٹرنے خود کو ایک فلمساز ظاہر کرتے ہوئے پرمیندر آریہ سے ملاقات کی اور اسے بتایا کہ وہ شری رام کے متعلق ایک فرضی گستاخانہ فلم کی نمائش کرنے والا ہے۔ ایسے میں اسے (پرمیندر آریہ) کو اس فلم کی نمائش کے مقام پر ہلہ بولتے ہوئے وہاں توڑ پھوڑ مچانی ہوگی۔ کچھ لوگوں کی پٹائی کرنی ہوگی۔ فلم کی نمائش میں ہنگامہ برپا کرنا ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ پرمیندر آریہ اس کام کے لئے کچھ رقم کے عوض راضی ہوگیا۔ اس بیوقوف اور عقل کے اندھے مفاد پرست شخص کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کا ہر لفظ کیمرہ میں قید ہورہا ہے۔

پرمیندر آریہ نے رپورٹر کو فلمساز سمجھ کر جو کچھ بھی کہا اس سے اس کے دوغلے پن کا اندازہ ہوگیا۔ اسے یہ بھی بتایا گیا کہ احتجاج کا منصوبہ دراصل فلم کی تشہیر کے لئے کیا جارہا ہے۔ اگر احتجاج ہوگا تو فلم مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچے گی۔ اس پر بھی پرمیندر آریہ کو شری رام کی کوئی فکر نہیں ہوئی بلکہ اس نے رپورٹر کی شرط مان لی اور وہ سب کچھ صرف اور صرف چند سکوں کے عوض کررہا تھا۔ اسپتال کے بستر پر پڑے پرمیندر آریہ نے کہا ’’آپ مجھ سے جو بھی کرنے کے لئے کہیں گے میں کروں گا‘‘ آپ کو یہ بتادیں کہ پرمیندر آریہ جسے ہم بلا شک و شبہ فرقہ پرستی کی گندی نالی کا کیڑا کہہ سکتے ہیں، سخت گیر ہندو سوابھیمان سنگھٹن اور اُس کے دھرما سینا یونٹ کی قیادت کرتا ہے، وہ وشوا ہندو پریشد سے تعلق کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ آریہ حال ہی میں اُس وقت منظر عام پر آیا جب اس نے آئی ایس آئی ایس کے امکانی خطرہ سے نمٹنے کے لئے اترپردیش میں ہندو نوجوانوں کے لئے مسلح تربیت کا اہتمام کیا تھا، اسے جب فرضی فلم کے بارے میں بتایا گیا کہ ، اس فلم میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان شری رام کا جائے پیدائش نہیں ہے۔ اس بارے میں جان کر بھی اس کے جذبات مجروح نہیں ہوئے بلکہ اس نے اس نام نہاد دستاویزی فلم کی شہرت میں چار چاند لگانے کے لئے فلم کی نمائش کے مقام پر حملہ کرنے کیلئے کارکنوں کو ہدایت دینے پر تیار بھی ہوگیا۔ اس نے خود کو فلمساز ظاہر کرنے والے رپورٹر کو بتایا کہ فلم کی نمائش کے مقام پر ہمارے تقریباً 50 آدمی پہنچیں گے۔ اس نے یہ بھی پوچھا کہ آیا 50 آدمی کافی ہیں؟ اس نے یہی کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ اس کے کارکن یہ نعرے بلند کریں گے کہ یہ فلم رام کے خلاف ہے، جو رام کا نہیں وہ کسی کام کا نہیں، رام کا اپمان نہیں ہوگا ہندوستان‘‘۔ آریہ نے رپورٹر سے یہ بھی کہا کہ ہمارے کارکن آپ کے تمام پوسٹرس اور بیانرس اکھاڑ پھینکیں گے۔ اس نے احتجاج کے دوران مار پیٹ کرنے کا بھی وعدہ کیا تاکہ احتجاج کو حقیقت کا رنگ دیا جاسکے۔ اس نے کہا ’’بس ہمیں بتادیجئے کس کا لباس تار تار کرنا ہے، ہم کریں گے، بعض مرتبہ لڑکے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں جس کے باعث لوگوں کے شدید زخمی ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں، اس فرضی دستاویزی فلم کی تشہیر کے لئے اس نے میڈیا کے سامنے پیش ہونے اور ایک انٹرویو بھی دینے کی بات کہی۔ آریہ نے اس تمام پروگرام کو قطعیت دینے 10 یوم کی مہلت طلب کی۔ انڈیا ٹوڈے کے رپورٹر نے آریہ سے نمٹنے کے بعد مظفر نگر کی راہ لی جہاں سال 2013 ء میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا، مسلم لڑکیوں کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی تھی۔ رپورٹر نے اس علاقہ کے بی جے پی ایم ایل اے باہل دیو اگروال سے ملاقات کی۔ اسے جب بتایا گیا کہ ایک دستاویزی فلم کی نمائش کی جانے والی ہے اس کیلئے سستی شہرت کی خاطر آپ کی مدد چاہئے تب اس نے سب سے پہلے یہی کہاکہ اس سے اُس کا کیا فائدہ ہوگا۔ اس ایم ایل اے نے یہاں تک کہاکہ وہ اس فلم کو لے کر علاقہ میں بے چینی پیدا کردے گا۔ اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا استحصال کرے گا جس کے نتیجہ میں فلم کو خود بخود شہرت مل جائے گی۔ اپنے مفاد کے لئے فرقہ پرستی کا ننگا ناچ صرف بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد کے لیڈر ہی نہیں کھیل رہے ہیں بلکہ کچھ اقلیتی چہرے اس مکروہ کام میں شامل ہیں۔

انڈیا ٹوڈے کا صحافی اس فلم کو مخالف مسلم قرار دیتے ہوئے سماج وادی پارٹی کے ہردوار یونٹ کے صدر حافظ محمد عرفان سے ملاقات کی۔ عرفان نے بھی فلم کے خلاف احتجاج منظم کرنے کی حامی بھر لی۔ اس نے دریافت کیا آپ احتجاج، نعرے اور کیا چاہتے ہیں؟ ہر چیز کا انتظام کیا جائے گا اور پھر اس نے اس کام کے لئے 5 لاکھ روپئے طلب کئے اس کی وجہ یہ بتائی کہ اسے اس کام کے لئے 50 تا 60 لوگوں کو تیار کرنا پڑے گا۔ اس بارے میں جب بی جے پی اور ایس پی کے ذمہ داروں سے ربط پیدا کیا گیا تب ان لوگوں نے یہ کہہ کر ڈھٹائی کا مظاہرہ کیاکہ یہ سب کچھ ان کی پارٹیوں کو بدنام کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔  بہرحال ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی مذہبی جماعتوں کے قائدین کو مندر، مسجد، رام رحیم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ انھیں تو بس اپنی جیب بھرنی ہے چاہے اس کے لئے خون خرابہ ہو یا خواتین و لڑکیوں کی عصمت ریزی، کسی کا کاروبار تباہ ہوجائے یا چاہے کسی کا گھر جلادیا جائے اور اس آگ میں کسی انسان کے ارکان جل کر خاکستر کیوں نہ ہوجائے۔ایسے لوگ کسی بھی طرح معاشرہ کی خدمت نہیں کرسکتے بلکہ یہ ان درندوں سے بدتر ہے جو دوسروں کو چیڑ پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی کی حکومت میں اس طرح کے درندوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ پچھلے دو برسوں میں ہندوستان کی کوئی ترقی نہیں ہوئی ملک میں خوشحالی کی لہر نہیں چلی اور نہ ہی عوام کے اچھے دن آئے لیکن فرقہ پرست درندوں کی دنیا سدھر گئی ان پر نوٹوں کی بارش ہونے لگی ہے۔ کاش عوام ایسے عناصر سے چوکس رہتے تو کتنا بہتر ہوتا۔