محمد ریاض احمد
ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کی گئی ہے جس سے نہ صرف ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں قریشی برادری کے لوگ روزگار سے محروم ہوئے ہیں بلکہ کسانوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ دوسری طرف بڑے جانور کا گوشت کھانے والے بھی پریشان ہیں ۔ جہاں تک ذبیحہ گاؤ اور گائے کے گوشت کے استعمال پر پابندی کا سوال ہے یہ سب کچھ فرقہ پرستوں کی چال ہے ۔ انھیں گائے اور دیگر جانوروں کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ وہ عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان میں صرف 5 فیصد برہمن ہیں اور مابقی ہندو دلت ، درج فہرست طبقات و قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ ان میں اکثر بڑے جانور کا گوشت کھاتے ہیں اور اس بارے میں سب جانتے ہیں ۔ بقر عید کے موقع پر یہ مسئلہ بڑی شدت کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے ۔ بی جے پی یا اس کی حکومت کو عوام کی بھلائی یا جانوروں کی بہبود سے کوئی سروکار نہیں ۔ انھیں تو بس اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل چاہئے ۔بی جے پی قائدین اس کیلئے کمزور طبقات کو استعمال کرتے ہیں حالانکہ ان میں ذات پات کی تفریق اس قدر پائی جاتی ہے کہ پسماندہ ذات کا کوئی لیڈر مندر میں داخل ہوجاتا ہے تو اس مندر کو دودھ سے دھویا جاتا ہے ۔ اگر بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین کو ہندوؤں کی اتنی ہی فکر ہے تو انھیں اپنی بیٹیوں کی شادیاں دلت نوجوانوں سے کرنی چاہئے اور دلتوں کی لڑکیوں کی شادیاں اپنے بیٹوں سے کرنی ہوگی لیکن آر ایس ایس اور بی جے پی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چلے گا کہ کسی اعلی ذات کے ہندو لیڈر نے کبھی کسی دلت کی بیٹی کو اپنی بہو بنایا اور نہ ہی کسی دلت نوجوان کو اپنا داماد بنانے کی زحمت کی کیونکہ ایسا کرنے سے ان کا ’’دھرم بھرشٹ‘‘ (خراب) ہوجاتا ہے ۔
ہاں سنگھ پریوار کے قائدین نے بڑے فخر سے اپنی بیٹیاں شاہنواز حسین اور مختار عباس نقوی جیسے مسلمانوں کے حوالے کردیں ۔ اب رہا سوال کہ مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کے مسلمان ہونے کا تو اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ انھیں صرف نام کے مسلمان کہتے ہیں ۔ ہاں ہم بات کررہے تھے ذبیحہ گاؤ اور گائے کے گوشت پر پابندی کی ، ہندوستان اور ہندوستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سے دنیا کے مختلف ممالک کو لاکھوں ٹن گائے کا گوشت بھیجا جاتا ہے ۔ گائے کی کھالیں فروخت کی جاتی ہیں ۔ مالی سال 2015 ء میں ہندوستان نے دوسرے ممالک کو 2.5 ٹن گائے کا گوشت اکسپورٹ کیا ۔ 2 ملین ٹن کے ساتھ برازیل دوسرے اور آسٹریلیا 1.5 ملین ٹن کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے ۔ گذشتہ سال گائے کے گوشت کے اکسپورٹ سے ہندوستانی بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر میں 4.8 ارب ڈالرس کا اضافہ ہوا ۔ اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2011 سے گائے کے گوشت کے اکسپورٹ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اس اقدام پر ہندوتوا کی کوئی تنظیم یا گائے کو اپنی ماں کہنے والے احتجاج نہیں کرتے اور نہ ہی بیل کو اپنا باپ ماننے والوں کو کسی قسم کی شرم آتی ہے لیکن جب مسلمان گائے نہیں بیل ذبیحہ کرتے ہیں ، اس کا گوشت کھاتے ہیں تو ان کے مذہبی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں حالانکہ گائے اور بیل کو کاٹ کاٹ کر بیرون ممالک ان کا گوشت حکومت کی باضابطہ اجازت و ہدایات کے مطابق مغربی وخلیجی ممالک کو روانہ کیا جاتا ہے ۔ اگر اپنی ماتا اور پتا سے اتنی ہی محبت ہے تو سنگھ پریوار کے قائدین کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے ان مسالخ اور کمپنیوں پر ہلہ بولیں جو گائے یا بڑے جانور کا گوشت بڑے پیمانے پر دوسرے ملکوں میں فروخت کرتے ہیں ۔ غریب مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر ملک کا امن و چین تباہ کرنے کے خواہاں ہیں اور یہ خواہش ہمارے ملک کے دشمنوں کی ہوتی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوں ، لڑائی جھگڑے اور فسادات کے باعث معیشت تباہ و برباد ہوجائے ، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار ہندوستان میں سرمایہ مشغول کرنے میں خوف محسوس کریں ، ہڑتالیں ، احتجاجی مظاہرے ہوں تاکہ مختلف شعبوں کی ’’پیداوار متاثر ہوجائے‘‘ ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا سنگھ پریوار یا ہندوتوا کے نام پر وجود میں آئیں تنظیمیں اپنی حرکتوں کے ذریعے ہندوستان کے دشمنوں کے عزائم کی تکمیل نہیں کررہی ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو دشمن ممالک ہندوستان میں تباہی و بربادی کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ بھی اب سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ہندوستان میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں ہمارا کام بڑے جوش و خروش سے کررہی ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندوتوا کی طاقتوں کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ دوسروں کی پلیٹ پر نظر رکھیں کہ اس میں کیا ہے ؟ دوسروں کو کیا کھانا اور کیا نہیں کھانا چاہئے اس کا فیصلہ کرنے والے وہ کون ہوتے ہیں ؟ آر ایس ایس اور اس کی قبیل کی جماعتوں تنظیموں اور ان کے قائدین کو یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہندوستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں یا کسی کے ماتا کے جہیز میں نہیں آیا ۔ جنت نشان اس ملک پر ہر ہندوستانی کا حق ہے ۔ اگر فرقہ پرست ذبیحہ گاؤ کے مسئلہ پر لوگوں کو ڈراتے دھمکاتے اور قتل و غارت گری کرتے رہیں تو وہ دن دور نہیں جب بکرے کے گوشت پر بھی پابندی عائد کردی جائے گی ۔ مرغی پر امتناع ہوگا ۔ ملک میں کہیں بھی بل بورڈس پر سنڈے ہو یا منڈے کھاؤ انڈے کے نعرے دکھائی نہیں دیں گے اور ٹی وی چیانلوں پر یہ صحت بخش نعرے سنائی نہیں دیں گے ۔ ملک میں جس کی آبادی پہلے ہی سے 1.25 ارب تک پہنچ چکی ہے ۔ گائے ، بھینس ، بکریوں ، مرغیوں اور دیگر جانوروں کی تعداد انسانوں سے کئی گنا زیادہ ہوجائے گی اور جانور خوراک نہ ملنے پر انسانوں کو کھانے لگیں گے ۔ فرقہ پرستوں کو یہ اندازہ نہیں کہ ملک میں شدید غربت پائی جاتی ہے ۔ ہندوؤں کی کئی ایسی ذاتیں ہیں جو چوہے ، کیڑے مکوڑے ، گھونس ، کتے ،بلیاں وغیرہ کھانے پر مجبور ہیں ۔ کیا ذبیحہ گاؤ کے مخالفین اور اس کے نام پر دنگے فساد برپا کرنے والے یہ جواب دے سکتے ہیں کہ انسان چوہے اور کیڑے مکوڑے کھانے پر کب مجبور ہوتا ہے ؟ ہمیں یقین ہے کہ وہ بے شرم اس سوال کا جواب دینے کی بجائے اول فول بکنے لگیں گے ، مذہبی جذبات بھڑکانے والے نعرے لگا کر حقیقت کو دبانے کی کوشش کریں گے ۔
لیکن ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود اس سوال کا جواب منظر عام پر ضرور آئے گا ۔ اور وہ جواب ہوگا ’’غربت …ہاں جب غربت بڑھ جاتی ہے تو لوگ کیڑے مکوڑوں پر گذارا کرلینا سیکھ لیتے ہیں‘‘ ۔ ہمارے ملک میں غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مقامات پر لوگ جلتی ہوئی ارتھیوں کو نوچ نوچ کر اپنی غذا کا بندوبست کرلیتے ہیں ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ نریندر مودی کے بیرونی دوروں کے دوران دکھائی جانے والی جھوٹی شان و شوکت ہندوستان کے خوشحال ہونے کا ثبوت ہے تو وہ بیوقوفوں کی جنت میں رہ رہا ہے ۔ اندرون و بیرون ملک ہندوستانیوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ غربت ، سب سے بڑی دشمن غربت ، ہماری سب سے بڑی خامی غربت ہے ۔ ہمیں ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کرنے یا پھر دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بتانے کے آپ کیا کھائیں کیا پئیں کی بجائے خاتمہ غربت کے اقدامات کرنا چاہئے ۔ فرقہ پرستوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کسی کو اس کی اپنی پسند کے مطابق کھانے پینے سے نہیں روک سکتے ان کی بات کوئی نہیں مانے گا بلکہ اس سے معاشرہ میں نفرت و عداوت کا زہر پھیلے گا اور یہ زہر کسی ایک طبقہ یا فرقہ کیلئے نہیں بلکہ سارے ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ فرقہ پرست جان بوجھ کر کچھ نہ کچھ مسائل اٹھا کر مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنارہے ہیں ۔ افسوس کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ پر اقتدار حاصل کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی ان فرقہ پرستوں کے سامنے ایسے بے بس و مجبور ہیں جیسے بلی کے سامنے کمزور چوہا ہوتا ہے ۔ ان کا حال آر ایس ایس اور فرقہ پرستوں کے سامنے اس سارق جیسا ہے تھانہ دار کے غیض و غضب کو دیکھ کر جس کا پتلون گیلا ہوجاتا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو مودی صاف طور پر فرقہ پرستوں کو آڑے ہاتھوں لیتے انھیں سنبھل جانے کیلئے انتباہ ضرور دیتے ہیں تاہم ایسا نہیں ہورہا ہے ۔ فرقہ پرست قانون اور دستور کی دھجیاں اڑارہے ہیں اور مودی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں یا پھر ان پر بیرونی دوروں کا دورہ پڑجاتا ہے ۔ ذبیحہ گاؤ کے مسئلہ پر فرقہ پرستوں کی شرانگیزی کے باوجود مودی کی زبان حرکت میں نہ آئی حالانکہ بقرعید کے موقع پر دہلی سے صرف 45 کیلومیٹر کے فیصلے پر اشرار نے گائے کا گوشت گھر میں رکھنے کی افواہ پر ایک 50 سالہ مسلم شخص کو شہید اور ان کے جوان بیٹے کو شدید زخمی کردیا ۔ پیر کو اترپردیش کے دادری علاقہ کے گاؤں پسارا میں یہ شرمناک واقعہ پیش آیا ۔ گاؤں کی مندر سے کسی نے یہ اعلان کردیا کہ محمد اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت جمع کیا گیا ہے اور یہ خاندان گائے کا گوشت کھارہا ہے ۔ اس افواہ کے عام ہونے کے ساتھ ہی اشرار کی ایک کثیر تعددا محمد اخلاق کے گھر میں داخل ہو کر انھیں اور ان کے 22 سالہ فرزند کو زدوکوب کرنا شروع کردیا ۔
اخلاق اس حملہ میں برسرموقع شہید ہوگئے ۔ اخلاق کے ارکان خاندان کا کہنا ہے کہ ان کے فریج میں گائے کا گوشت نہیں بلکہ بکرے کا گوشت تھا ۔ اس کے باوجود گاؤں میں ان کے گھر کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ محمد اخلاق کے گھر پر منصوبہ بند طریقہ سے حملہ کیا گیا ۔ یہ حملہ رات 10 بجے کیا گیا ۔ اس واقعہ کے بعد پولیس نے 6 افراد کو گرفتار کرلیا ۔ ان کی گرفتاری کا خیر مقدم کرنے کی بجائے علاقہ کے شرپسندوں نے احتجاج کیا ۔ پولیس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا ، نتیجہ میں پولیس کو فائرنگ کرنی پڑی ۔ دوسری جانب فارم ورکر اخلاق کی بیٹی ساجدہ کا کہنا ہے کہ ان کے گھر کے فریج میں گائے کا گوشت نہیں بلکہ مٹن رکھا ہوا تھا ۔ شرپسندوں نے ایک جانور کے بہانے انسان کا قتل کردیا ۔بہرحال اس طرح کے واقعات سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی ایک لہر پیدا ہوسکتی ہے ۔ گوشت کیلئے کسی انسان کا قتل کرنا شرمناک حرکت ہے ۔ غذائی اشیاء پر پابندی عائد کرنا خود غیر مہذب حرکت ہے ۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے یہاں ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل ہے اگر ایک دوسرے کے رسوم و رواج اور روایتوں کی مخالفت کی جانی شروع ہوگئی تو یہ ملک کیلئے نقصاندہ ثابت ہوگا ۔ عوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ حکومت نے ملک میں گائے کے گوشت پر پابندی صرف اور صرف دنیا کا نمبرون بیف اکسپورٹر بننے کیلئے کیا ہے اسے ہندو مذہب یا گائے کے تحفظ کی کوئی فکر نہیں مسلمان اور دیگر پسماندہ طبقات اس پابندی کا مقابلہ ان پلانٹس پر ہلہ بولتے ہوئے کرسکتے ہیں جہاں سے گائے کا گوشت اور اس کی کھال دوسرے ملکوں کو برآمد کی جاتی ہے اگر بیف اور کھال دوسرے ملک جانا ہی بند ہوجائے تو حکومت خود شہروں میں گائے کے گوشت کے اسٹالس لگا کر عوام کو گائے کا گوشت کھانے کی ترغیب دے گی ۔ بہرحال ہندوستان میں مذہبی غنڈے گردی کو سختی کے ساتھ روکنے کی ضرورت ہے ورنہ ہمارے ملک کا حال ہی پاکستان جیسا ہوگا جہاں ہر وقت قتل و غارت گری کا کھیل ہوتا رہتا ہے ۔
mriayz2002@yahoo.com