فرقہ پرستوں کو روکنے میں راجستھان کی حکومت ناکام ہوئی ۔

جمعیت لعلماء کے نائب صدرشبیر احمد نے کہاکہ پہلو حان کے قاتل بے قصور نہیں ہیں‘ انہیں سخت سزا ملنی چاہئے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ہر ضلع میں نوڈل افیسر کی تقرری کی جائے ‘ انصاف کی راہ میں روڑہ بنے والی چیزیں ہٹائی جائیں۔ افرازل الاسلام کا قتل معاملے میں انصاف کے لئے ہیومن رائٹس پروٹکشن اسوسیشن قانونی لڑائی لڑے گی
نئی دہلی۔ راجستھان میں مسلسل ہورہے مسلمانوں کے قتل پر اظہار تشویش کرتے ہوئے جمعیتہ علماء راجستھان کے نائب صدر شبیر احمد نے کہاکہ حکومت راجستھان فرقہ پرستوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ سے ایک وفد کے ساتھ ملاقات کرنے کے بعد انہوں نے انقلاب بیور و سے بات کی اور جمعیتہ علماء راجستھان کی جانب سے حکومت سے راجستھان سے کئے گئے مطالبات کا ذکر کیا۔انہو ں نے کہاکہ کچھ غلط فہمی کی بنیاد پر انقلاب میںیہ خبر شائع ہوگئی تھا کہ وزیر داخلہ سے ملاقات کے دوران پہلو خان اور عمر خان کے معاملہ میں بات نہیں ہوئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری گفتگو کا آغاز انہیں کے مسئلے سے ہوا تھا۔

انہوں نے کہاکہ انقلاب بیورو جمعیتہ علماء راجستھان کے صدر مولانا یحییٰ کریمی سے بات کی تھی لیکن اتفاق سے وہ ملاقات کے بعد وہا ں پہنچ سکے تھے جس کی بنیاد پر بیور کو پوری بات نہیں بتاسکے تھے اسی کی وجہہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی تھی۔شبیر احمد نے کہاکہ ہمارے وفد نے وزیر داخلہ کے سامنے اپنی تکلیف اور اپنے غم کا اظہار کیااور 3اپریک 2017کو الور میں پہلو حان ‘ پرتاب گڑھ میں ظفر حان‘ پھر الور میں عمر خان اور اب راجسمند میں افرازالاسلام کے قتل کا ذکر کرتے ہوئے کہاتھا کہ اس ظالمانہ اور وحشیانہ قتل کی وجہہ سے ملک کاہر امن پسندطبقے تناؤ محسوس کررہاہے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے وزیر داخلہ سے کہاکہ ایک پرائیوٹ گروہ کے ذریعہ قانون ہاتھ میں لے کر بے گناہوں کے قتل کئے جانے کو کوئی بھی جائزقرار نہیں سکتا۔

انہو ں نے کہاکہ ہم نے یہ بھی یہ بھی کہا ہے کہ لوجہاد جیسے بے بنیاد مسئلہ کو اٹھاکر سماجمیں نفرت وعدوات کو فروغ دینا ‘ خاص ھور پر راجستھان میں ایک سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے بجرنگ دل کے ذریعہ نفرت کے لٹریچر کی تقسیم کا بھی سوال اٹھایا اور اس کی شکایت کی۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے یہ بھی کہاکہ اس کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔شبیر احمد نے کہاکہ ہم نے یہ بات اپنے میمورنڈم میں بھی کہی ہے کہ پہلو خان کے قاتل بے قصور نہیں ہیں اور اس کے قاتل تنہا نہیں ہیں بلکہ وہ سب قاتل ہیں جنھوں نے اس قسم کے صوبے میں حالات پیدا کئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے افرازالاسلام کے اہل خانہ کے لئے بیس لاکھ کا معاوضہ مانگا ہے اور یہ کہاہے کہ جوحکومت نے معاوضہ کا اعلان کیا ہے وہ بہت ہی کم ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے یہ مطالبہ کیاہے کہ اسکولی بچوں کے لئے نصابی کتابوں میں جو نفرت پھیلانے والی چیزیں ہیں ان کو فوری طور پر ہٹایاجائے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ہر ضلع میں ایک نوڈل افیسر تعینات کیاجائے تاکہ حالات پر نظر رکھتے ہوئے حکومت تک سچالی پہنچاے۔اسی دوران کلکتہ سے اس بات کی خبر ائی ہے کہ ہیومن رائٹس پروٹکشن سوسائٹی نے راجستھان کے راجسمند ضلع میں لوجہادکے نام پر بہیمانہ طور پر قتل کردئے گئے افرازالاسلام کے اہل حانہ کے اس مقدمہ کو کلکتہ ہائی کورٹ منتقل کرنے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ جس حکومت نے اس پورے واقعے کے خلاف سخت رویہ نہیں اپنایا اور جس ریاست کی وزیراعلی نے اس پورے معاملے پر خاموشی اختیار کرلی ہو وہاں انصاف ملنا مشکل ہے۔

ہیومن رائٹس پروٹکشن اسوسیشن کا ایک وفد کلکتہ سے مالدہ جاکر افرازالاسلام کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے قانون کاروائی میں مدد کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہاکہ افرازالاسلام خان کے بہیمانہ قتل کا جو معاملہ سامنے آیا ہے وہ دردناک اوربے رحمانہ ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے جمہور ی وسکیولر نظام کے لئے شرمناک ہے۔ اسوسیشن کے صدر شمیم احمد نے کہاکہ اس واقعہ نے مجبور کردیا کہ مالدہ جاکر افرازل کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے درد کو تقسیم کیاجائے ۔ انہوں نے کہاکہ وہ یہاں اگر نہیںآتے تو شائد یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس واقعے نے اس خاندان کو کس قدر جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے اور یہ واقعہ ہندواور مسلمانوں سے کہیں زیادہ تشویش ناک اس لئے ہے کہ روزی روٹی کمانے کے لئے جانے والے غریب مزدور کی سکیورٹی اور تحفظ کا کیاہوگا۔

شمیم احمد نے کہاکہ بنگال اور بہار کے کئی اضلاع سے مزددور راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ آندھرا‘ کرناٹک مزدوری او رتعمیراتی کاموں کے لئے جاتے ہیں۔ اگر اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے تو پھر بے چارے مزدور کہاں جائیں گے اور ان کا گھر کا کیاہوگا۔