فرضی انکاؤنٹر ،20سال بعد سزاء

…….قانون اندھا ہی نہیں، بھینگا بھی ہوتا ہے……..

اوربے قصور فاضلی کی 12سال بعد رہائی

محمد جسیم الدین نظامی

علی سردار جعفری نے برسوںپہلے جیل کے حوالے سے کہا تھا  ؎
جیل تو بھیانک ہے ، اس ذلیل دنیا میں
حسن کا گزر کیسا ، رنگ ہے نہ نکہت ہے
نور ہے نہ جلوہ ہے ،جبر کی حکومت ہے
شاعرکے نوک قلم سے حقیقت کا یہ برملا اظہار کسی بھی جیل اور قیدوبند کی صعوبتوں کی ترجمانی کیلئے کافی ہے…جیل دراصل نام ہے دنیا کے اندر ہی ایک ایسی دنیاکا جس کا ایک نرالا کلچرہے اور جہاںکاماحول ،رہن سہن ’’جسکی لاٹھی اسکی بھینس‘‘کے اصول پراسطوارہے …یہ لاٹھی کبھی قیدیوں کے درمیان موجود ’’داداؤں‘‘ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے توکبھی خاکی وردی میں ملبوس قانون کے رکھوالے کے ہاتھوںمیں، جوقانون اورانصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنی اپنی مرضی سے استعمال کرتے رہتے ہیں….بد قسمتی سے اگرکسی قیدی کا تعلق مذہب اسلام کے پیروکاروںسے ہوا وروہ کسی حساس معاملے کے تحت یہاں پہنچاہو تو ..پھر جہنم کا نظارہ کرنے کیلئے انہیں مرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ،انہیں یہ اعزاز یہیںحاصل ہوجاتاہے… دراصل جیل کے اندر متعلقہ آفیسر س اورپولیس کا’’ متعصبانہ رویہ ‘ ‘ مسلم قیدیوںکی ذہنی اورجسمانی اذیت کا سبب بنتاہے …چونکہ جب کسی بھی آفیسر یا عملہ پرتعصب کا بھوت سوار ہو تو انہیں کسی بھی معمولی بہانے کی تلاش ہوتی ہے اورجب انہیں یہ موقع مل جاتاہے تو پھرانصاف و قانون کو با لائے طاق رکھ کرظلم و بربریت کی وہ داستان رقم کی جاتی ہے جسکے بعد قیدیوں کیلئے اپنی موت کی دعاء مانگنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا… 2005 کے دہلی بم بلاسٹ مقدمہ میں 12سال تک ’’قسطوں ‘‘میں عزت کی دھجیاں اڑدئے جانے کے بعد  محمد حسین فاضلی عدالت سے’’ با عزت‘‘ بری کردیئے گئے .. 12 سال کے طویل عرصہ بعد جب وہ اپنے آبائی مقام بش پورہ پہونچے تو یہاں سب کچھ بدل چکا تھا ، زندگی کی ساری رونقیں ختم ہوچکی تھیں.. وہ حکومت سے پوچھ رہے ہیں کہ ’’کیا کوئی میری زندگی کے قیمتی 12سال لوٹا سکتاہے؟‘‘ ..انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے حسین فاضلی نے’’ پولیسیا ذہنیت‘‘ کا پردہ فاش کرتے ہوئے بتا یا کہ’’ دہلی پولیس ان کے منہ میں پاخانہ ڈال کر روٹی رکھ کر پانی ڈالتے تھے ، تاکہ وہ اس کو نگل لیں، ساتھ ہی پولیس نے ان پر 200 سادہ کاغذات پر بھی دستخط کرنے کے لئے کہا‘‘…پچھلے دو دہاسے پولیس پرعموماً ایسے ہی الزامات عائدکئے جاتے رہے ہیں،کہ جب وہ کسی حادثے کے اصل مجرم تک نہیں پہنچ پاتی ہے تو کسی بے قصورنوجوان کو گرفتار کرکے ذ ہنی اورجسمانی اذیت دے کر انہیں سادے کاغذات پردستخط کرنے پرمجبورکردیتی ہے ،جو بعد میں انکی موت کا پروانہ بن جاتاہے…محکمہ پولیس میں موجودایسی ذہنیت کو ذرا واضح طور پرسمجھنے کیلئے ، سابق قیدی عبدالواحد شیخ کی کتاب ’’بے گناہ قیدی‘‘ کا مطالعہ کیجئے…ممبئی کے اسکول ٹیچر عبدالواحد شیخ ان 13 نوجوانوں میں سے ایک ہیں جن کو ممبئی ٹرینوں کے سیریل بلاسٹ (11جولائی2006) کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا… 10 سال تک قیدوبندکے بعد ستمبر 2015میں انہیں بھی باعزت رہائی مل گئی ..مگر انہیں کی طرح بے قصور ملزمین میں سے 5 کو پھانسی اور 7 کو سزائے عمر قید سنائی گئی.. عبدالواحد شیخ کے مطابق’’ ان ملزموں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا ، ان کو صرف اقبالیہ بیانات کی بنیاد پر سزا دی گئی ہے، شدید ترین جسمانی اور ذہنی اذیت ، رشتہ داروں خصوصاً خواتین کو بے عزت کرنے اور انھیں بھی دہشت گردی کے کیسوں میں ملوث کرنے کی دھمکی کی وجہ سے گرفتار ملزمین نے اقبالیہ بیانات اور سادے کاغذات پر دستخط کئے تھے.. جبکہ عبدالواحد شیخ آخر ی دم تک ان ہتھکنڈوں کو سہتے رہے اور دستخط سے انکار کرتے رہے..جس کانتیجہ ہے کہ آ ج وہ آزاد ہیں…اس تجربے کے بارے میں عبدالواحد شیخ نے ’’بے گناہ قیدی‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی ہے جسے دہلی کے معروف ناشر فاروس میڈیا نے شائع کیا ہے ‘‘  .. دراصل مسئلہ صرف کسی ایک حسین فاضلی اورعبدالواحد کا نہیں ،ایسے سینکڑوں فاضلی اورعبدالواحد ہیں جنہیںدہشت گردی کے جھوٹے الزامات میںزبردستی ماخوذ کرتے ہوئے انہیںجیلوںمیں سڑنے کیلئے چھوڑ دیا جاتاہے..دوغلے پن کاشکار میڈیا انکے نام کے ساتھ’’دہشت گرد‘‘ کا ٹھپہ لگاکر انکواور انکے خاندان کو پورے معاشرے میں یکا و تنہا کردیتاہے.. اور پھر برسہا برس بعد عدالت انہیں ’’باعزت بری‘‘ کرتے ہوئے احسان عظیم کردیتی ہے… سوال یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں ایسے بیسیوںواقعات پیش آچکے ہیں …تاہم ان تمام تر حقیقتوںکے باوجود کیا کوئی ایسا،لیگل سسٹم نہیں ہے ،جسکے تحت عدالت ملزمین کو ’’باعزت بری‘‘ کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ آفیسرس کو بھی جیل نہ سہی کم ازکم انہیں خدمات سے ہی برطرف کردے، تاکہ دوسرے عہدیدا ر ایسی حرکت کرنے سے پہلے کچھ تو خوف کھائے… پولیسیا ذہنیت کی دوسری مثال دیکھئے …  8 نومبر 1996کو ضلع بھوجپور کے مچھلی گاؤں میںفرضی انکاؤنٹر ہوا، جس میں چار بے قصور نوجوانوںکوانکاؤنٹر کے نام پرہلا ک کردیا گیا..سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ نے عدالت کوبتا یاکہ’’ آؤٹ آف ٹرن پروموشن ‘‘ حاصل کرنے کے لئے پولیس نے انکاؤنٹرکیا، سی بی آئی کے مطابق بھوجپور میں مارے گئے چاروں افراد (18سالہ پرویش،16سالہ جلا ل الدین،18 سالہ اشوک،24سالہ جسویر) با لکلیہ غیر مسلح تھے، چائے کی دکان پر بیٹھے تھے، پولیس آئی اور چاروں کو اٹھا کر لے گئی ،دو کو ایک پل پر گولی ماری اور دو کو کھیت میں گولیوں سے بھون ڈالا… پھر کیا ہوا؟… تقریباً 20 سال بعد 22فروری 2017 کو  عدالت نے اسے مکمل فرضی انکاؤنٹر قبول کرتے ہوئے چارپولیس آفیسرس کو سزائے عمرقید کا فیصلہ صادر کردیا ..مگرالمیہ یہ ہے کہ اس قدرطویل عرصے کے بعد عدالتوںسے صادر کئے جانے والے’’ صحیح فیصلے‘‘ بھی اپنی اہمیت کھودیتے ہیں. .. یہ اصول تو قانون کا ہی نا؟  ’’ انصاف میں تاخیر، انصاف نہ ملنے کے برابر ہے‘‘… اور  انصاف کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ’’ بے شک 100 گنہ گار بچ جائیں، لیکن ایک بھی بے گناہ کو سزا نہیں ملنی چاہئے‘‘… لیکن آج کیا ہورہا ہے؟.. برطانوی پولسنگ سسٹم اور عدالتی قانون کی پیچیدگیوںکی وجہ سے 100 بے گناہ تو ’’خاک ہوجائنگے ہم تم کو خبر ہونے تک‘‘ کے تحت  سزا جھیل ر ہے ہیں ، لیکن جو اصل مجرم ہیں وہ’’ آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک‘‘  کے تحت  بچتے رہتے ہیں…دراصل قصور کسی’’ فرد ‘‘کا نہیں بلکہ اس سسٹم کا ہے، جسے ٹھیک کرنے کوئی بھی حکمراں جماعت تیا ر ہی نہیں.. 1861کا پولیس ا یکٹ  آج بھی  آزاد ہندوستان میںنافذالعمل ہے… سپریم کورٹ نے بہت پہلے پولیس اصلاحات کے  تحت پولیس کو’’ سیاسی کنٹرول‘‘ سے آزاد رکھنے کی ضرورت پر زور دیا تھا،مگر نیک نیتی کے ساتھ آ ج تک اس احکام پرعمل آوری نہیں کی گئی..پولیس اصلاحات کیلئے کئی کمیشن بنے ،مگرافسوس نتیجہ کچھ نہیںنکلا… سچ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جب اقتدار میں ہوتی ہے تو اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے وہ پو لیس کو آزاد کرنا نہیں چاہتی.. چونکہ پولیس آزاد ہوگی تو قانون کے مطابق کارروائی کرے گی … قانون کے وہی ہاتھ جو عام شہریوںکیلئے تو’’ لمبا‘‘ ،مگر سیاسی اثرو رسوخ والوںکیلئے ’’ لولے پن‘‘ کا شکارہوجاتا ہے ۔ اگر پولیس کو سیاسی کنٹرول سے’’ آزاد‘‘ کردیا جائے توقانون کے ہاتھ اتنے لمبے تو ضرور ہوسکتے ہیں جو اقتدار و اختیاررکھنے والوںکے گریبان تک پہنچ سکے مگر یہی وجہ ہے کہ حکمراں طبقہ ’’پولیس اصلا حات ‘‘کیلئے کبھی سنجیدہ نہیںرہااور حکمرانوںکے مقصد کی تکمیل کیلئے انگریزوں نے جو پولیسنگ سسٹم قائم کی تھی اُسے آج تک برقرار رکھا گیا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ’’ پولیسنگ سسٹم اور قانونی پیچیدگیوں‘‘کی وجہ سے انسانی معاشرے میں’’قانون‘‘ نامی مخلوق اندھا ہونے کے ساتھ ’’ بھینگا ‘‘ بنا ررہتا ہے۔جسے کبھی کبھار کچھ نظربھی آتا ہے تو آڑ ا تیڑا  نتیجتاً انصاف تو ملتا ہے مگرسب کچھ لٹ جانے کے بعد…
jnezami@gmail.com