فرصت اول شام

سید محمد حیدر رضوی ،الخبر ۔ سعودی عربیہ
دور حاضر کی بڑھتی جولانیوں اور کساد بازاریٔ حیات کے درمیان ، فکر و نظر کی باتیں اور احساسات کی برانگیختگی کا معیار بدل چکا ہے۔ دِن یوں نکلتا ہے ، جیسے اس کا نکلنا غیرمعمولی نہ ہو، ویسے نہ بھی نکلے تو معمولات زندگی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ آج نہیں نکلا تو کل نکلے گا ، انتظار کس لئے کیا جائے ۔ ان حالات میں آدمی کو اتنی فرصت کہاں کہ لطیف و نازک خیالات کی گہرائیوں اور گیرائیوں کو سمجھ سکے اور اُن کا لطف اُٹھاسکے۔ چلیں دن جیسے تیسے بیت ہی گیا، اب تو ’’فرصتِ اوّلِ شام ‘‘ ہے ۔ ذرا ان آمادۂ رخصت اُجالوں پر نظر ڈال کر اپنے نفس کا جائزہ لیا جائے ، مگر نہیں ، ویسے بھی ’’فرصتِ کاروبارِ شوق کسے ‘ ‘ اور ’’ذوقِ نظارۂ جمال کہاں ‘‘ کے مصداق دنیا کے حصار میں مقید یہ لوگ اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ روح کی سرگوشیاں سنائی ہی نہیں دیتیں۔ نہ تلاش و جستجو کہ دل کی آواز پر دھیان دیں۔

حسن المیرؔ کی شاعری اور ان کے کلام کی سحر انگیزیاں وہی سمجھ سکتے اور محسوس کرسکتے ہیں جو باشعور ، حساس اور بیدار ذہن کے مالک ہیں۔ شعر کے قالب میں ڈھلا ان کا خیال ، زمان و مکان کے مشاہدے اور تجربات کا عکّاس ہے ، جسے ایک پیام کی صورت میں پیش کرکے انھوں نے دعوتِ فکر و عمل دی ہے ۔ شاعر نے اپنے فکری سفر کی ابتداء بھی گردوپیش سے کی اور جب اُس کے احساس نے ترقی کی ، تو اس کی آپ بیتی ، اُس کی اپنی کہانی نہ رہی بلکہ قدرِ مشترک کی طرح ، دوسرے کے افسانے میں تحلیل ہوکر اُسے اپنا بنالیا۔ یہ عمل اُسے ایک امتیازی حیثیت عطا کرتا ہے کہ وہ اپنے ماحول کو دوسروں کا مرہونَ منّت سمجھنے لگتا ہے اور یہی اس کی انفرادیت ہے ؎

جس پہ جو بیت گئی ، دل پہ ہمارے گذری
آپ بیتی میں بھی افسانہ کسی اور کا تھا
یہ واردات قلبی ، اس کی انسانیت دوستی ، ہمدردی و غمخواری کی غماز ہے اور شرافت و تہذیبی معیار کی نشاندہی کرتی ہے ۔ المیرؔ کی شاعری میں جودتِ خیال کے ساتھ ساتھ دردمندی کی ایک پُراثر کیفیت شعر کے لاثانی ہونے پر دلالت کرتی ہے اور اُسے ایک پرکشش و دلفریب انداز بھی مل جاتا ہے ؎

بس دُعا کو ہاتھ اُٹّھے تھے کہ بارش ہوگئی !!
چھت کی کیا حالت ہے ، درویشوں کو کیا معلوم تھا
تنگنائے غزل متقاضی ہے کہ اس میں نیرنگی ہو ، جمال بھی ہو ، جلال بھی ، خوشبو و نکہت بھی ہو اور نشاط و سرور بھی ، حزن و ملال بھی ہو اور شکستگی و پامالی بھی ۔ زمینی رشتے بھی ہوں اور آفاقی مزاج کی جلوہ گری بھی ۔ مضامین نو ، زندگی کے ہمہ جہت گوشوں کی نشاندہی کریں۔ جہاں روایت سے انحراف تو ہو مگر ساتھ میں اس کی پاسداری کا خیال بھی رہے ۔ نئے جہانوں کی سیر ، نئے اسلوب میں کروائی جائے ۔ المیرؔ کی شاعری انھی باتوں سے عبارت ہے ۔ یہ لہجہ شاعر کے دل کی آواز ہے کہ وہ نئے قالب میں شعر کو ڈھالتے ڈھالتے ، خود اس میں ڈھل جاتا ہے۔ اپنی ذات کی نفی ، حکایت ہستی بیان کرتے کرتے ، اس انداز میں کردیتا ہے کہ جیسے یہ ایک لاشعوری عمل ہو، حالانکہ وہ اپنے وجود کا شعور بھی رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی اس کی تنہائی کو محسوس کرے ، اُس کسک اور آہِ نیم شبی کوسنے اور اُس کرب کو سمجھے ، جو اس پر بیت رہے ہیں۔ ماضی ، حال اور مستقبل پر اس کی نظر یہ کہنے پر مجبور کردیتی ہے ، ماضی و حال و مستقبل کی انوکھی تمثیل ملاحظہ ہو ؎

ساری تہذیب نوکر اُٹھا لے گئے
یادگارِ شرافت مکاں رہ گیا
عارفوں کی بات چھوڑو ، ہر زمانہ ساز کو
آج کے دن کون بندہ ہے خدا، معلوم تھا
کھلونے گر کے نہ ٹوٹیں گے نرم ہاتھوں سے
اسی گمان میں بچّے مرے بڑے ہوں گے
یہ دنیا ہر گھڑی ، ہر پل بدل جاتی ہے ماضی میں
یہاں مرنے سے پہلے ، کوئی مستقبل نہیں ہوتا
شاعری بنیادی طورپر واردات قلبی کے اظہار کا ذریعہ ہے، جہاں شاعر اپنے خیال ، فکر ، نظریہ اور فلسفۂ حیات کیلئے ایک ایسا پیکر تراشتا ہے جو اس کے سینے میں دہکتی آگ کو سرد کرسکے اور جذبوں کی منہ بولتی تصویر بن جائے۔ المیرؔ کی شاعری ان فنکارانہ خصوصیات کی حامل ہے ؎
میں بیک وقت تماشہ بھی تماشائی بھی
میرا ہر زخم نمائندہ کسی اور کا تھا
اپنے اندر اِسی کُہرام کو رکھا تھا اسیر
کُھل گئے کیا مرے زخموں کے ذہن میرے بعد
سمندِ آب و ہوا نے زمینوں کو تہہ و بالا کیا ، تو راستہ بدل دیا جائے ، اجنبی راستوں کو اپناکر اپنے وجود کو اثباتی انداز میں سمجھنا ، جاننا اور اس عمل کو روش روش عام کرنا ، شاعر کے پیش نظر ہے۔ جبھی تو وہ خود پیاسا رہ کر دوسروں کی تشنگی مٹانے کا سامان بہم کرتا ہے ، اپنی آہوں کے پرتاثیر ہونے اور مٹی کے خدوخال بدلنے کی بات تو کرتا ہے مگر اپنی شناخت نہیں کھودیتا بلکہ اپنی قامت کی بلندی پر نازاں ہے ۔ اپنے ضمیر کی آواز سنتا اور اپنے افعال کے احتساب کرنے کے ہنر سے واقف ہے ۔ کہیں پر ولولہ انگیز کیفیت ، کہیں اُداس اُداس اور غم انگیز لہجے میں چھپی تلخ حقیقت ۔ غرض کبھی مانوس ، کبھی نامانوس ، کبھی محکم ، کبھی متشابہ ، کبھی خواب تو کبھی بیداری ، متضاد خیالات کو اِس شگفتگی اور سلیقے سے بیان کیا ہے کہ وہ شیر و شکر ہوگئے ہیں۔ شاعر کی نظر میں ان کااختلاف و تضاد ہی حُسن ہے ؎

کھلیان تک آئے نہ ہمارے دُرِ شہوار
دانے یہ سمندر میں لگانے کے نہیں تھے
جمالیاتی کیفیت سے معمور ہونا ضروری بھی ہے اور فطری بھی ۔ غزل میں ا س کا اظہار سراسر جائز سمجھا گیا ہے۔ المیرؔ کی غزلیات میں کہیں کہیں یہ باتیں بڑی ہی احتیاط سے اشارتاً کنایتاً مبہم اسلوب میں ملتی ہیں۔ مثال کے طورپر ؎
ہم کہہ نہ سکے ، رنگِ قبا رنگِ بدن ہے
کچھے آئینے اُنکو بھی دکھانے کے نہیں تھے
تیری آرائشِ بدن کے سوا
کچھ نہ قدرِ جواہرات ہوئی
کمالِ فن پہ صراحی ترے بدن کی تھی
تو کوزہ گر ترا سپنا دوبارہ دیکھے گا
حالانکہ شاعر نے اپنی شرافتِ نفسی اور شعار و مزاج پارسائی کے سبب یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ؎
غزل گوئی نے میر کب تجھے رسوائیاں دی ہیں
تجھے تو استعاروں میں بھی مبہم کردیا میں نے
’’فرصتِ اوّل شام ‘‘ میں (۲۳) غزلیں اور (۴) نظمیں شائع ہوئی ہیں۔ قاری ھَل من مزید کی آوازیں بلند کرتا ہے مگر نظم ’’معذرت ‘‘ پڑھ کر اکتفا کرلیتا ہے ، اس دُعا کے ساتھ کہ آئندہ اُسے اس معیار اور منفرد طرز کی تحریریں ، جو جواہر پاروں سے کم نہیں ، زیادہ سے زیادہ ملتی رہیں گی ۔ حسن المیرؔ کی زبان و بیان کے بارے میں خامہ فرسائی کوئی ماہر فن ہی کرسکتا ہے البتہ اس مجموعہ میں جو نادر ترکیبیں دکھائی دیں ، جو قاری کے ذہن و دل پر اثرانداز ہوتی ہیں وہ کچھ یوں ہیں :

’’سمندِ آب و ہوا ، ارتعاش زمیں ، یادگارِ شرافت ، محتاجِ تعمیرِ نَو، خطِ غربت ، دستِ کوزہ گر ِ ، اکلِ حلال ، کاروبارِ کوچۂ چارہ گراں ، خسروِ شہرِ نگاراں، زینتِ بزمِ نگاراں ، خاکِ درِ میخانہ ، بے نیازِ زخم و مرہم ، زمینِ کشتگاں، مزاجِ عادلِ وقت ، نقابِ اہلِ سخن ، قدرِ عہدِ ستمگروغیرہ
المیرؔ کی غزلوں کے چند منتخب اشعار جنھیں بجا طورپر ’’جواہرات المیرؔ‘‘ کہا جاسکتا ہے ملاحظہ ہوں

سب دے رہے تھے داد مگر زخم چپ رہے
کس کام کا وہ شعر جو نشتر نہ ہوسکا !!
شاید میں اُسے اس لئے پہچان نہ پایا
وہ شخص مجھے دیکھ کے انجان بہت تھا
سب کاروبارِ کوچۂ چارہ گراں ہیں بند
گروی ہے دردِ دل کی دوا قاتلوں کے پاس
کسی زرخیز مٹی کی امانت تھے مرے آنسو
زمینِ کشتگاں کی خاک کو نم کردیا میں نے
مکررّ شاہزادہ چھت پہ سویا
مگر اب کے پری واپس نہ آئی
ہمسایوں کا ذکر ہی کیا ہے ، گھر والوں کو پتہ نہ تھا
بھوکے نے دم توڑدیا تب اخباروں تک بات گئی
آج پھر کل کی واردات ہوئی
دن نکلتا ہی تھا کہ رات ہوئی
ساری تہذیب نوکر اُٹھا لے گئے
یادگارِ شرافت مکاں رہ گیا
نکل کر جھیل سے جاتا کہاں میں
کوئی کپڑے اُٹھاکر لے گیا ہے
وہ جو اشعار میں زندہ ہے وہی ہے المیرؔ
کل جو اُٹھا وہ جنازہ تو کسی اور کا تھا