فردِ فرید الحاج محمد فریدالدین احقرؔ

رحمان جامی
ایک بزرگ باریش دُبلا پتلا سا شخص شیروانی میں ملبوس سرپر کشتی نُما بالوں والی (کشمیری ٹوپی سے ملتی جُلتی مگر اونچائی میں قدرے کم ) اور اس پر سفید نمازی رومال (جس کو سعودی عرب میں ’’غطرہ ‘‘ کہتے ہیں) سجائے ہوئے ’’ الحرا‘‘ آیا اور بولا ’’ میں احقر نرملی ہوں ۔ یہیں آپ کے محلے ہل کالونی میں رہتا ہوں ‘’ اس کے بعد اپنا تفصیلی تعارف کرواتے ہوئے اپنی آمد کی غرض و غایت بیان کی ’’ میں آپ کی شاگردی میں آنا چاہتا ہوں اورمحض ہل کالونی میں اس لئے گھر خریدا ہے کہ آپ سے قربت رہے ‘‘ ظاہر ہے اِس شخص کے اس بیان سے میں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔پھر آگے یوں کہا ’’ یہ گھر میں نے ایک شریف برہمن سے خریدا ہے جس کی شرط یہ تھی کہ رقم یکمشت Cash میں ادا کی جائے ۔ میں نے اس کی شرط مان لی ۔ بعض میرے بہی خواہوں نے کہا کہ قیمت کم کرائی جاسکتی تھی جبکہ لاکھ دو لاکھ آسانی سے کم ہوسکتے تھے ۔ کیونکہ رقم یک مُشت ادا کی جارہی تھی ۔ مگر میں نے اس خیال سے Bargaining نہیں کی کہ یہ مکان مجھے حضرت رحمن جامی کے گھر کے بالکل قریب مل رہا تھا ۔ اس لئے مہنگا نہیں تھا ‘‘ احقر صاحب کے اس بیان نے گھر کے ساتھ ساتھ گویا مجھے بھی خرید لیا ۔

پھر احقر مسلسل میرے گھر ’’ الحرا ‘‘ آتے رہے کلام پر تصحیح کرانے کم ملنے ملانے کیلئے زیادہ اس روز روز کے میل جول نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے بے حد قریب کردیا ۔ ان کے مذہبی رنگ کا لحاظ کرتے ہوئے میں نے اُن کو اپنے بڑے بھائی حضرت قاری محمدعبدالعلیمؒ سے بطور خاص ملوایا ۔ جب میں نے ان کے ہل کالونی میں گھر خریدنے کی وجہ بتلائی تو بھیا بھی ان کے اس جذبے سے بے حد متاثر ہوئے ۔ پھر احقر صاحب نے اپنی دین داری کی وجہ سے بھیا کے دِل میں بھی اپنے لئے اچھی خاصی جگہ بنالی ۔

میرے اکلوتے بھتیجے قاری احمد عبداللہ محبوب کے اچانک انتقال کے بعد میرے بھائی بھاوج دونوں گویا ٹوٹ کر بکھر سے گئے تھے ۔ میری حالت بھی ان دونوں سے جُدا گانہ نہیں تھی ۔ بلکہ اور زیادہ بدتر تھی کیونکہ وہ میرا حد سے زیادہ چہیتا بھی تھا اور خدمت گذار بھی ۔ پھر 1996ء میرے بھائی قاری محمد عبدالعلیمؒ کا آخری حج تھا ۔ قبل ازیں سولہ حج ادا کرچکے تھے ۔ طواف کے دوران ان پر فالج کا حملہ ہوا جبکہ وہاں ان کے دونوں دامادوں ناسق اقبال اور بابر نے ان کی اچھی دیکھ ریکھ کی ان کا جدہ میں معقول علاج ہوا ۔ اس کے باوجود جب وہ حیدرآباد لوٹے تو بغیر سہارے کے چلنے پھرنے سے معذور ہوچکے تھے ۔ کہیں جانا ہوتا مثلاً جلسوں کی صدارت ہو ، کسی دوکان یا مکان کا افتتاح کرنا ہو ، قرات کے مقابلوں کی نگرانی ہو ، جج کے فرائض انجام دینے ہو ، کسی شادی میں خطبہ نکاح پڑھنا ہو لوگ آتے اور ان کی معذوری کے باوجود بالاصرار لے جاتے تو ایسے مواقع پر میرے شاگرد رشید جناب محمد فرید الدین احقرؔ نرملی بھیا کو سہارا دینے کیلئے نہ صرف ساتھ ساتھ رہتے بلکہ ان کی خدمت کیلئے پیش پیش رہتے ۔ میرا روز معمول تھا کہ میں عصر سے لے کر عشاء تک بھیا کی خدمت میں ہوتا ، نمازوں میں بھیا کو جماعت کا ثواب دلانے کیلئے بھیا کے دیوان خانے میں باضابطہ نمازوں کا اہتمام ہوتا ۔ میں خود امامت کرتا ، مقتدیوں میں بھیا کے ساتھ میرے لڑکپن کا دوست سید ناظرالدین ناظر جو محکمہ ٹاون پلاننگ میں منتظم کے عہدہ پر فائز تھا جو مشہور ماہر اقبال اور انگریزی کے پروفیسر سید سراج الدین کا چھوٹا بھائی تھا ۔ چھوٹا افسر ڈاکٹر دل ہاشمی ، نسیم اعجاز نسیم ، سید لطیف محی الدین احمد سابق ڈپٹی سی ٹی او سعید صحرائی سابق ڈپٹی کلکٹر بھی میرے ساتھ ہوتے جب میری بڑی بھتیجی قاریہ احمدی اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے سعودی عرب سے مستقلاً حیدرآباد لوٹ آئی تو اس کے دونوں لڑکے حسنین اور نورین بھی دیوان خانے کی نمازوں میں شامل ہونے لگے ۔ رمضان میں بھیا کے دیوان خانے میں افطار و تراویح کا خاص اہتمام ہوتا تھا ۔ اس کے بعد آدھی رات تک محفلیں برپا ہوتیں جن میں بھیا سے مسئلے مسائل پوچھے جاتے اور پند و نصائح حاصل کرتے ۔ ان نمازوں میں جناب احقر نے اپنی عقیدت اس طرح جتائی کہ وہ بھی از خود بھیا کا ساتھ دینے کیلئے نمازوں میں شریک ہونے لگے ۔ جبکہ چھوٹی مسجد ان کے گھر کے بازو تھی پھر میں نے ان کی بزرگی و حاضر باشی کا لحاظ کرتے ہوئے بھیا کے دیوان خانے کی نمازوں کی امامت بھی احقر صاحب کے سپرد کردی ۔ بھیا کو یعنی عصر اور عشاء کے درمیان میں مختلف اخبارات سے اہم اہم خبریں اور مضامین پڑھ کر سنانا ، بعض موضوعات پر بھیا سے افہام و تفہیم بھی حاصل کرتا اکثر مذہبی موضوعات زیر بحث رہتے ، بھیا کے نام آئے ہوئے خطوط انہیں پڑھ کر سُناتا ان کے جوابات لکھتا بعض اوقات بھیا خود Dictate کراتے تھے ۔ رفتہ رفتہ میرے ان امور میں بھی احقر صاحب ہاتھ بٹانے لگے ۔ اس طرح وہ میرے اور میرے گھریلو مصروفیات اور خاندانی معاملات میں بھی بہت دخلے ہوتے چلے گئے پھر گھر کے فرد کی طرح ہوگئے ۔

ان کی بزرگی اور رکھ رکھاؤ کی وجہ سے لوگ اکثر غلط فہمی کا شکار ہوجاتے تھے ۔ اس سلسلے میں ایک دلسچپ واقعہ سنئے ۔ ہوا یوں کہ پُرانے شہر میں میرے ایک شاگرد ہیں رزاق لیڈر ، نعت سے بے حد شغف رکھتے ہیں ۔ عوامی آدمی ہیں ۔ ایک سیاسی پارٹی سے وابستہ بھی ہیں ۔ مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی رکھتے ہیں اور خود بھی اپنی بستی کے مقبول ترین لیڈر ہیں ۔ عوامی مسائل حل کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ اس لئے ’’ رزاق لیڈر ‘‘ کہلاتے ہیں ’’ لیڈر ‘‘ ان کے نام کا جُز و لانیفک بن چکا ہے ۔ ایک دن رزاق لیڈر میرے پاس آئے اور پُرانے شہر کے ایک دینی مدرسے کی سفارش لے کر آئے کہ مدرسے کے لوگ آپ کو اپنے سالانہ نعتیہ مشاعرے میں بلانا چاہتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ منتظمین مشاعرہ آپ کی شہرت سے واقف ہیں ۔ لیکن اب تک آپ کو دیکھا اور سُنا نہیں ہے اور وہ آپ کو دیکھنا بھی چاہتے ہیں اور بہ نفس نفیس سننا بھی چاہتے ہیں ۔ اگر آپ ان کے نعتیہ مشاعرے کی صدارت قبول کریں اور اجازت مرحمت فرمائیں تو دعوت نامے چھپوالیں ۔ پرانے شہر کے مشاعروں کی صدارت کا مطلب ہے ’’ رت جگا ‘‘ اس لئے کہ قبل ازیں میں صدارتوں کے عوض کئی رت جگے بُگھت چکا ہوں اور ویسے بھی میں نے مقامی مشاعروں میں شرکت کرنی ترک کردی ہے

چنانچہ دعوت یک لخت رد کردی اور صدارت سے معذرت چاہ لی ۔ لیکن وہ رزاق لیڈر ہی کیا جو اپنی بات نہ منوالے ۔ اچھے اچھے پولیس والے انسپکٹر سے لے کر کمشنر پولیس تک رزاق لیڈر کی بات ماننے پر مجبور ہیں تو بھلا ایک مُروت کا مارا شاعر رحمن جامی کی کیا بساط بالاخر ان کے اصرار پر صدارت قبول کرنی پڑی ۔ اس کی وجہ رزاق لیڈر نے یہ بات پھر دہرائی کہ آپ کو مدرسہ والوں نے آج تک دیکھا نہیں ہے صرف آپ کا کلام اخبارات و رسائل میں پڑھتے رہے ہیں اور ریڈیو پر سنتے رہے ہیں ۔ وہ آپ کو بہ نفس نفیس دیکھنا بھی چاہتے ہیں اور جی بھر کر سننا بھی چاہتے ہیں ۔ اس طرح رزاق لیڈر نے ہم کو رجھایا اور ہمیں رزاق لیڈر کے آگے سپر ڈالنے ہی پڑے ۔ جب دعوت نامہ ملا تو اس پر جلی حروف میں لکھا تھا ’’ حضرت رحمن جامی کی خدمت میں معہ تلامذہ ‘‘ کار میں لے جانے اور واپس لاکے چھوڑنے کی ذمہ داری خود رزاق لیڈر نے قبول کی تھی ۔

جب ہم مشاعرہ گاہ پہونچے تو ابھی تقاریر کا سلسلہ جاری تھا اور جامعہ نظامیہ کے مولانا طاہر رضوی شیخ الحدیث جلسہ کی صدارت فرما رہے تھے ۔ جلسہ کے بعد مشاعرہ تھا ۔ جس کی صدارت رحمن جامی کے سپرد تھی ۔ ہماری کار رُکی تو کارکنان مدرسہ ہمارے استقبال کیلئے دوڑ پڑے ۔ کار کا دروازہ کھلا سب سے پہلے کار سے جناب احقر اُترے ، کارکنان مدرسہ نے ان کی بزرگی کے پیش نطر انہیں ہی رحمن جامی سمجھا اور انہیں ہار پہناکر ہاتھوں ہاتھ لے کر جاکر مسند پر حضرت طاہر رضوی کے پہلو میں بٹھا دیا ۔ جب انہیں لے جایا جارہا تھا تو جناب احقر حیران و پریشان مُڑ مُڑ کر میری طرف دیکھ رہے تھے ، میں نے انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ کر انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اشاروں میں ہدایت کردی کہ چُپ چاپ جاکر بیٹھ جائیں ۔ اس دوران میں اور میرے دیگر شاگرد خاموشی سے جاکر ایک گولے میں دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے اور احقر صاحب کی بے بسی اور بے چینی کا لطف لیتے رہے ۔ جب جلسہ ختم ہوا تو طاہر رضوی صاحب سیدھے میرے پاس آئے اور معذرت چاہی کہ ’’ آپکی صدارت میں مشاعرہ ہے اور میں اپنی بیماری کی وجہ سے اس مشاعرے میں شریک رہ کر لطف اٹھانے سے قاصر ہوں مجھے معاف کردیجئے اور گھر جانے کی اجازت دیجئے تو اس مرحلے پر مدرسہ والوں کو پتہ چلاکہ وہ جن بزرگ کو مشاعرہ کا صدر سمجھ بیٹھے تھے وہ رحمن جامی نہیں بلکہ رحمن جامی کے ایک شاگرد احقر نرملی ہیں ۔ ’’ ایں سعادت بزورِ بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ ‘‘

سر سید نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ’’ اگر اللہ تاتعالی پوچھے گاکہ تُم اپنی بخشش کیلئے دنیا سے کیا سامان اپنے ساتھ لائے ہو تو میں جواب دوں گا کہ حالی سے مسدس لکھواکر لایا ہوں ۔ اس مرحلے پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی مجھ سے بھی اگر یہیں سوال پوچھے گا تو میرا جواب ہوگا کہ میں میرے شاگرد احقر سے متبرک کلام احقر لکھواکر لایا ہوں ۔ دراصل میرے شاگرد جناب الحاج محمد فریدالدین احقر اس قدر نیک انسان تھے کہ اپنی حلال کی کمائی سے ہل کالونی میں ایک گھر خریدا وہ جس محکمہ میں عہدیدار تھے ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کئی بنگلے بنالیتا ۔ انہوں نے ہمیشہ اہل حاجت کی پذیرائی کی ضرورت مند لوگوں کی چھپاکر مدد کرتے تھے ۔ غریب طلبہ کی مدد کیلئے ہمیشہ تیار رہتے تھے ۔ غریب لڑکیوں کی تربیت پڑھائی اور شادی بیاہ میں ہمیشہ پیش پیش رہے ۔ تعلیم کو عام کرنا ان کی زندگی کا مقصد تھا ۔ ان میں ہزاروں خوبیاں تھیں اسی لئے میرے دوست پروفسیر غنی نعیم انہیں ’’ فردِ فرید ‘‘ کہا کرتے تھے ۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے ان کے مجموعہ کلام کے بارے میں رائے زنی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حُب نبیؐ کے لطیف جذبے سے معمور ہے ایک سرشاری کی کیفیت اس کے ہر ہر لفظ سے ظاہر ہے ‘‘ ۔ جب ان کا انتقال ہوا تو شاہدین کا کہنا ہے کہ فضاء میں ہر طرف خوشبو ہی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مرحوم احقر کی چند خصوصیات ان کے فرزند اکبر جناب معین الدین احمر میں بھی آئی ہیں ۔