محمد احتشام الدین
طارق فتح کے Zee چیانل پر آنے والے پروگرام ’’فتح کا فتویٰ‘‘ کسی روز ہندوستان کے مختلف اخبارات میں اور مختلف ٹی وی چیانلس پر یہ خبر نہ آجائے کہ فتح کو لقوہ ہوگیا ہے جو اسلام کی صحیح تعلیمات کی غلط ترجمانی کر رہا ہے۔ درحقیقت یہ ’’فتح کا فتویٰ‘‘ نہیں بلکہ ’’فتح کا فتنہ‘‘ ہے جو ایسے غیر مسلموں کو جو ہمیشہ مسلمانوں کو یا اسلامی تعلیمات کو بدنام کرنے کی شرپسندانہ سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں، ان ہی کی ترجمانی زی چیانل طارق فتح سے کروا رہا ہے جو دیندار مسلمانوں کو ملاؤں یا ملاٹوں کا مذہب کہہ کر دینی معلومات کی غلط ترجمانی کرتا ہے جو ہندو آبا و اجداد کے مسلک سے ہوتے ہوئے مسلمان ہوا ، وہ خودکتنی دینی معلومات سے واقف ہوسکتا ہے جو خود ہندو مذہب کے ماننے والوں کی اولاد سے مسلمان ہوا ہو تو پھر کس چیز سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا اور مسلمان ہوا ۔ کیا پاکستان جانے کیلئے مسلمان ہوا تھا تو پھر پاکستان سے بھاگ کر کینیڈا منتقل ہوا۔ وہاں جاکر کرسچن کیوں نہیں ہوا ۔ شاید ہندوستان میں پھر سے پناہ لینا یا شہریت لینا چاہتا تھا اور یہاں آکر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے لگا کہ ہندو دھرم کے ماننے والوں کو خوش کرنے کیلئے اسلام کی غلط تبلیغ کرے۔ مسلمانوں کے عقائد کو غلط ثابت کرے ۔ آئندہ چل کر ہوسکتا ہے کہ پھر سے ہندو دھرم کو ہی اپنائے ۔پچھلے پروگرام میں مذہبی علماء کو چھوڑ کر 4 خواتین کو زی پر بلایا تھا جو آزادانہ خیالات کی حامل تھیں۔ جس میں برقعہ کے تعلق سے ایک محترمہ نے کہا کہ برقعہ جسم کو فل ڈھانکنے کیلئے نہیں ہے بلکہ صرف چہرہ کو ڈھانک لے تو کافی ہے ، ان کے خیالات سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ جسم پر پہنے جانے والے چست لباس ، جیسے ٹی شرٹس ہو جینس ہو ، مونڈھوں سے کمر کے اوپر تک شرٹ ہو وہ پہننا جائز ہے ۔ اس کو خواتین کی آزادی سے تعبیر کر رہی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے جسم پر پہنے جانے والے لباس سے سڑکوں بازاروں ، دکانات پر یا شاپنگ مالس میں اپنے جسم کے ہر حصہ کی نمائش کرنے کو کوئی عیب نہیں سمجھتی ہیں بلکہ یہ بھی عورتوں یا لڑکیوں کی اپنی مرضی ہے ۔ اس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ اس طرح اسلامی تعلیمات سے ان برقعہ پوش خواتین کے ذہن میں تبدیلی لانا چاہتی تھیں کہ صرف منہ ڈھنک لینا ہی کافی ہے جبکہ اسلام میں عورتوں کو مکمل برقعہ پہننے کے احکام ہیں۔ صرف آنکھوں کے حصے کو کھلارکھے ۔ طارق فتح کا اصل مقصد ہندو شرپسندوں کا دل جیتنے کیلئے مسلمانوں کے خلاف ایک بہروپیہ کا انداز اپنالینا ہے ۔ ہندوستان میں غیر مسلموں کو خاص طور پر شرپسند ہندوؤں کو دلی خوشی محسوس ہوتی ہوگی جب کوئی نام کا مسلمان ، مسلمانوں کی ، ان کے مذہب کی ، ان کی تہذیب کی ، ان کی تاریخ کی اور گزرے صدیوں میں مسلم شاہوں ، شہنشاہوں کو ہندوؤں کے خلاف بتائے ۔ اُن بادشاہوں کے رویہ کو ہندوؤں کے خلاف ظالمانہ انداز میں پیش کرے اور پوچھے کہ فلاں مسلم بادشاہ کے زمانے میں جو ہندوؤں کے ساتھ ایسا ظالمانہ رویہ کیا گیا ، کیا وہ اسلامی طریقہ کار ہے ؟ کیا مذہب ا سلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ تم بادشاہ رہو اور عوام کو خاص کر غیر مسلمانوں کو غلام بناکر رکھو یا ان پر ظلم و زیادتی کرو ؟ بہرحال طارق فتح حقیقتاً میں ’’تاریک فتح‘‘ ہی ہے جس کے دل و دماغ میں تاریکی ہی تاریکی ہے۔ فتح دراصل جھوٹی باتیں زی چیانل کے ذریعہ پھیلاکر مسلمانوںاور غیر مسلموں خاص طور پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے ذہن میں ایک قسم کا تشدد برپا کرنا چاہتا ہے ۔ ایک قسم کا فساد پھیلانا چاہتا ہے ۔ ہندو مسلم اتحاد کے درمیان آگ لگانا چاہتا ہے ۔ ویسے بھی زی چیانل ایک ایسا چیانل ہے جو مسلمانوں کو ملک دشمن اور ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کی تائید کرنے والی قوم اور کشمیری مسلمانوں کو بھی بارہا پاکستانی بتانا یا کہنا اس کا مشغلہ رہا ہے ، اب تاریک فتح کا فتویٰ بھی اسی کی اختراع ہے ، پہلے طارق فتح انڈیا ٹی وی پر ’’آپ کی عدالت میں ‘‘ آیا تھا ، اس کی مسلم دشمنی ، اسلام دشمنی کا انداز دیکھ کر فوری زی والوں نے فتح کا اغوا کرکے اپنے چیانل پر لے آئے اور اب ہفتہ میں دو دن آدھے گھنٹے کا پروگرام پیش کیا جاتا ہے ۔ زی چیانل پر ہر ہفتہ دو دن کے پروگرام کی شروعات فتح کو مسلمانوں کے خلاف ، اسلامی تعلیمات کے خلاف ، یہاں تک کہ نعوذ باللہ وہ اپنے ایک پروگرام میں جب ایک مولانا نے جن کا تعلق دیوبند سے تھا کہا کہ بخاری شریف میں یہ بات آئی کیا تم اس حدیث کو بھی غلط سمجھتے ہو تو اس دینی معلومات سے لاتعلق خود ساختہ مسلمان نے یہاں تک کہہ دیا کہ کیا نعوذ باللہ بخاری شریف کی ہر حدیث کا صحیح ہونا صحیح ہے ۔ تین طلاق کے مسئلہ پر بھی اس کو اعتراض ہے جبکہ اسلام میں اس کی اجازت ہے ، ان حالات میں جب شوہر بیوی کی نازیبا حرکتوں ، نافرمانیوں ، منع کرنے پر بھی فل میک اپ ، اکیلی شاپنگ کو نکل جائے، شوہر کے ماں باپ کی نافرمانی کرے ، ان کے ساتھ بدتمیزی کا لہجہ اپناتے ہوئے سخت الفاظ میں ان کو جو اب دے۔ شوہر کو اپنی ہر فرمائش پوری کرنے کا اصرار کرے یا ضد کرے جبکہ شوہر ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہے یا اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ بیوی کی فرمائشوں کو پوری کرسکے۔ ایسے ماحول میں شوہر کے لاکھ سمجھانے کے باوجود بیوی اگر شوہر کی بات نہ مانے تو ایسی صورت میں طلاق دینا لازم ہوجاتا ہے ۔ ’’فتح کے فتنوں‘‘ میں ایسی آزاد خیال لڑکیوں سے ایسے سوال پوچھے جارہے ہیں اور بتایا جارہا ہے کہ مرد ظالم ہے اور عورت مظلوم ۔ ہر طلاق شدہ کے ساتھ ایسی کہانی نہیں ہے کہ مرد ظالم ہے اور عورت مظلوم ۔ چند قصے ، چند کہانیاں ، ایسے ہوں گے جہاں شوہر کسی دوسری عورت کی محبت میں اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیدے یا ایک عورت کا شوہر رکھتے ہوئے کسی اور مرد سے ناجائز تعلقات کی بناء پر طلاق دے دیتا ہو لیکن ہر فیصلے کو شوہر کی زیادتی اور عورت پر ظلم کا الزام یہ طارق فتح جیسے لوگ ہی لگاسکتے ہیں یا وہ عورتیں ہی غلط پروپگنڈہ کر سکتی ہیں جن کو فتح جیسے لوگ زی چیانلس پر لا کر مردوں کو ظالم ٹھہرانا چاہتے ہیں ۔ پروگرام میں جہاں 4 عورتیں تھیں جن میں سے ایک نے کہا کہ میں خود طلاق شدہ ہوں ، مجھے ساڑھے تین سال کا بچہ بھی ہے ، میرا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے لیکن نہ فتح نے پوچھا کہ طلاق کی وجہ کیا تھی، نہ اس عورت نے بتایا کہ وجہ کیا تھی ۔ طلاق کے مسئلہ پر آزاد خیال عورتوں کو لاکر صرف مردوں کو مورد الزام ٹھہرانا ، مردوں پر ہی الزامات کا بوچھاڑ کردینا یہ صرف پڑھی لکھی لیکن اسلامی تعلیمات سے ناواقف شادی شدہ عورتوں میں اپنے مردوں کے خلاف تین طلاق کے نام پر ایک انقلاب برپا کرنا ہے ۔ عورتیں بھی تو شوہر کے خلاف خلع لے لیتی ہیں لیکن فتح جیسے لوگ عورتوں کو مظلوم بتاکر مردوں کے خلاف جنگ کرنے کی سازش رچ رہے ہیں۔ پڑھی لکھی آزاد خیال لڑکیاں یا عورتیں کیا تین طلاق کے بارے میں کوئی صحیح رائے دے پائیں گی ، وہ تو آزادانہ ماحول میں پلی بڑھی اور آزادانہ خیالات اور فتح جیسے فتنہ پرور لوگوں کے ساتھ سے خوش ہوجاتی ہیں کہ ہمیں ہمارے خیالات کا ترجمانی کرنے والا مل گیا ۔ دراصل فتح اپنے پروگرام کے ذریعہ آزاد خیال لڑکیوں کو طلاق کی طرف مائل کر رہا ہے ۔ دینی ماحول سے دور رہنے والی لڑکیوں کو بہکا رہا ہے جن کے تصور میں بھی ایسے خیالات نہیں ہوتے۔ فتح تم پیدا کر رہے ہو، ایک طرف 3 طلاق کی مخالفت کرتے ہو اور دوسری طرف عورتوں کو یہ ورغلانے کی کوشش کرتے ہو کہ طلاق دینا مردوںکی ایک عادت سی بن گئی ہے ۔ کاش طارق فتح تمہیں 10 بیٹیاں ہوتیں۔ تمہاری طرح آزاد خیال، دین سے اسلام سے ادب سے آداب سے نہ واقف ہوتیں، اپنے شوہروں کی وفادار نہ ہوتیں تو آج وہ دس کی دس طلاق شدہ ہوتی اور تم جس طرح آج لکڑی ٹیکتے ٹیکتے سوٹ بوٹ میں آکر زی چیانل پروگرام میں کرسی پر ہنستے مسکراتے اور دیندار لوگوں کو ملا اور ملاٹوں سے مخاطب ہوتے ہو ان کے پیچھے ، اپنی بیٹیوں کے طلاق کے بعد کسی دواخانے کے بستر پر پڑے ہوتے اور اللہ ، اللہ کرتے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے۔کوئی شخص بے وجہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے تووہ خدا کو جواب دہ ہے۔ ہر انسان کو ایک دن خدا کے پاس واپس جانا ہے ،اگر کوئی مجبوراً طلاق دیتا ہے تو وہ اس کی زیادتی نہیں مجبوری ہے ۔ ’’کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی یوں ہی کوئی بے وفا نہیں ہوتا‘‘ کے مصداق وفادار شوہر بیوی کی نافرمانیوں کی وجہ سے طلاق دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
جہاں تک علمائے دین سے سوال جواب کا تعلق ہے ، حیدرآباد میں بھی کافی پڑھے لکھے ، دیندار ، عالم ، فاضل ، کامل، دینی تعلیمی درس دینے والے یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں، آپ زی چیانل پر پھر ان کو کیوں نہیں بلاتے۔ کیا آپ کو ان علمائے اکرام سے ڈر لگتا ہے یا ان کے صحیح جوابات سے خود کی ناکامی کی فکر ہوتی ہے جن کو تم نہ ملا کہہ سکتے ہو نہ ملاٹے۔ یہ ’’فتح کا فتویٰ‘‘ پروگرام شروع کرنا تعلیم یافتہ مسلمانوں اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان ایک انتشار پیدا کرنا ہے ۔ کسی کا آپ کے فتویٰ کو صحیح بتانا کسی کا غلط ثابت کرنا اس کی حقیقت کیا ہے کونسی بات صحیح ہے ، کونسی غلط۔ دراصل یہ آپ کی پاکستانی مسلمانوں سے نفرت یا ذاتی دشمنی کو ہندوستانی مسلمانوں کے بیچ دین کی غلط تبلیغ کر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں ایک تمہاری طرح ناسمجھی کا طوفان برپا کرنا چاہتے ہو جو کہنا ہے پاکستان کے بارے میں کہئے لیکن ہندوستانی مسلمانوں کے دینی عقائد کو غلط ثابت کرنے کی کوشش مت کرو۔ طارق فتح آپ بے پردہ خواتین سے مذہبی اعتبار سے پردہ کی اہمیت جاننا چاہتے ہیں جو خود بے پر دہ ہو۔ وہ پردہ کی تائید کیسے کرسکتی ہیں، پردہ کی حقیقت سے واقف ہوتی تو خود بے پردہ جینس ، ٹی شرٹس ، کٹ سلیفس پہن کر نہ پھرتی۔ بہرحال تمہارے ذہن میں مسلمانوں کا غلط کردار ، اسلام کی غلط تبلیغ اور تین طلاق کو غلط ثابت کرنا ہے۔