صابر علی سیوانی دوسری اور آخری قسط
اردو شاعری میں ایسے سیکڑوں اشعار ہیں جو بہت زیادہ مشہور ہیں لیکن ان اشعار کے اصل شاعر سے ہم لاعلم ہیں ۔ بہت سے مصرعے ایسے ہیں جو شہرت کے حامل ہیں ، لیکن صرف ایک مصرع ہی عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے اور دوسرا مصرع بیشتر افراد کے حافظے میں نہیں ہے ۔ مشہور اشعار کے گمنام یا کم معروف شعراء کی چھان بین محققین نے کی اور بہت سے اشعار کے خالق کا پتا لگایا ، تاہم ابھی بھی بہت سے اشعار محققین کی توجہ کے محتاج ہیں کہ انھیں کن شعراء سے منسوب کیا جائے ۔ اس سلسلے میں کافی تحقیق اور جستجو کے بعد قاضی عبدالودود نے سیکڑوں اشعار کے اصل شاعر کا پتا لگا کر ایک کتاب ’’آوارہ گرد اشعار‘‘ 1995 میں تحریر کی تھی ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طورپر شمس بدایونی کی کتاب ’’شعری ضرب الامثال‘‘ 1994 میں منظر عام پر آئی ۔ خلیق الزماں نصرت نے اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر ’’برمحل اشعار اور ان کے مآخذ‘‘ عنوان سے 2012 میں کتابی شکل میں (دوسری اشاعت) شائع کیا ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد کی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ 1982 میں منظر عام پر آئی ۔ مذکورہ کتابوں کے علاوہ افتخار امام صدیقی نے ایک مضمون ’’آوارہ گرد اشعار ، ضرب الامثال اشعار اور برمحل اشعار‘‘ عنوان کے تحت ایک مضمون ماہنامہ شاعر بمبئی اگست 2009 میں لکھا ۔ اسی شمارہ میں ’’مقدمہ شعری ضرب الامثال سے‘‘ کے موضوع پر شمس بدایونی نے اور خلیق الزماں نصرت نے ’’مشہور مصرعے ، اشعار اور ان کے شعراء اشعار کے تناظر میں‘‘ عنوان کے تحت مضامین تحریر کئے ، جن میں متعدد اشعار کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ان کے تخلیق کار وہ نہیں ہیں ، جن سے انھیں منسوب کیا گیا ہے ۔ ان حضرات نے اصل شاعر کی کھوج کرکے مکمل اشعار تحریر کئے ہیں ۔ ایسے ہی محققین نے جن بہت ہی مشہور اشعار کے اصل شاعر کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے ، ان میں سے چند اشعار کے حوالے سے یہاں بحث مقصود ہے ۔ ایک بہت ہی مشہور شعر ہے ،جسے عام طور پر میر تقی میرؔ کا شعر تصور کیا جاتا ہے ، لیکن وہ شعر میر تقی میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی رامپوری کا ہے ، وہ شعر یوں ہے ؎
وہ آئے بزم میں اتنا تو فکرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
میر تقی میرؔ کے غزلوں کے چھ دیوان ہیں ، لیکن کسی دیوان میں بھی یہ شعر موجود نہیں ہے ۔ محققین نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ شعر میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی کا ہے ، جو رامپور کے رہنے والے تھے ۔ اس شعر کو بعض اصحاب مہاراجہ برقؔ سے بھی منسوب کرتے ہیں ، لیکن یہ درست نہیں ہے ۔ ہفت روزہ ہماری زبان نئی دہلی 28 مارچ 2005 کے ایک مضمون کے حوالے سے خلیق الزماں نصرت نے مذکورہ شعر اور شاعر کے متعلق جو تحقیق کی ہے ، وہ اس طرح ہے :۔
’’الطاف الرحمن فکر یزدانی ، راز یزدانی رامپوری کے شاگرد تھے ۔ والد کا نام مولوی حبیب الرحمن تھا ۔ راز کہتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں مذکورہ شعر کی غزل صاحبزادہ محمود علی خان رزمؔ کے دولت کدہ واقع راج دوارہ ، رامپور 1940 میں ایک مشاعرے میں سنایا تھا ،جس میں رامپور کے بزرگ شبیر علی خاں شکیب بھی موجود تھے ، جنہوں نے اس شعر کا ذکر اپنی کتاب ’’رامپور کا دبستان شاعری‘‘ مطبوعہ 1999 میں کیا ہے‘‘ ۔
(برمحل اشعار اور ان کے مآخذ ، خلیق الزماں نصرت ، رضوی کتاب گھر ، دہلی 2012 صفحہ 214) ۔
ڈاکٹر حسن الدین احمد نے اپنی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس ،دہلی ، اشاعت دوم 2012 کے صفحہ نمبر 85 پر یہ شعر درج کیا ہے اور شاعر کا نام میر الطاف الرحمن فکر یزدانی رامپوری ہی لکھا ہے ۔ الغرض یہ متحقق ہوچکا ہے کہ مذکورہ شعر میر کا نہیں بلکہ فکر یزدانی رامپوری کا ہے ۔
نواب اعظم الدولہ میر محمد خاں بہادر سرور نے ’’تذکرۂ سرور‘‘ مطبوعہ 1941 میں اور نواب مصطفی خان شیفتہؔ نے ’’تذکرۂ گلشن بے خار‘‘ صفحہ 939 پر منّو لال صفاؔ لکھنوی کا ایک شعر نقل کیا ہے ،لیکن اس شعر کا مصرعۂ ثانی ہی زبان زد خاص و عام ہے ۔ صفا لکھنوی کا وہ مشہور زمانہ شعر یہ ہے:۔
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے دل آزاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
منّو لال صفاؔ لکھنوی ، مصحفی کے شاگرد تھے ۔ ان کے والد کا نام پورن چند تھا ۔ اخبار نویسی کے شغل سے وابستہ تھے ۔1870 میں ان کا وفات ہوا۔
آصف جاہ ششم میر محبوب علی خاں مختلف علوم و فنون پر مہارت رکھتے تھے ۔ آپ کو فارسی ، عربی ، اردو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا ۔ علوم مروجہ کے علاوہ فنون سپہ گری و شہ سواری کے ماہر کامل تھے ۔ آپ کے علم و فن اور شعر و سخن کی قدردانی کی وجہ سے تمام علماء و فضلائے عصر اور مشہور شعرائے عہد کا مجمع دارالسطنت حیدرآباد میں ہوگیا تھا ۔ سیکڑوں باکمال لکھنؤ ،دہلی اور دیگر مقامات سے شہر یار دکن کی فیاضیوں کا شہرہ سن کر حیدرآباد چلے آئے تھے ۔ میر محبوب علی خاں کے بارے میں رام بابو سکسینہ نے اپنی کتاب ’’تاریخ ادب اردو‘‘ میں لکھا ہے :۔
’’میر محبوب علی خاں آصف تخلص فرماتے تھے اور اپنے استادوں کے متبع تھے ۔ دو دیوان یادگار ہیں ۔ کلام میں داغ کا رنگ ہے اور حسنِ الفاظ کے ساتھ حسنِ معنی بھی بہت کچھ جلوہ گر ہے ۔ نہایت سلیس ،فصیح اور بامحاورہ چٹ پٹا کلام ہوتا تھا اور حسن ظاہری کے ساتھ حسن باطنی بھی بدرجۂ اتم موجود ہے‘‘ (صفحہ 237) ۔
میر محبوب علی خاں آصف کا ایک بہت ہی مشہور شعر ہے ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فیض کا شعر ہے ، لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ اس شعر کو محبوب علی خاں آصفؔ نے لکھا اور یہ شعر ضرب المثل بن گیا ۔ آصف کہتے ہیں:۔
لاؤ تو قتل نامہ مِرا ، میَں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مُہر ہے ، سرِ محضر لگی ہوئی
اس شعر کا دوسرا مصرع مولانا ابوالکلام آزاد نے غبار خاطر (ساہتیہ اکادمی ، نئی دہلی 1990 صفحہ 22) میں نقل کیا ہے ۔ مالک رام نے غبار خاطر مرتب کرتے ہوئے جو نہایت تحقیقی اور عالمانہ حواشی لکھے ہیں ۔ انھوں نے اس مصرع کے حوالے سے تخریجِ اشعار کا فریضہ ادا کرتے ہوئے جو تحقیق کی ہے ، اسے ملاحظہ کیجئے:۔
’’کہا جاتا ہے کہ یہ مصرع نظام ششم نواب محبوب علی خاں والیٔ حیدرآباد کا ہے ۔ 1900 کے لگ بھگ ریاست کے بعض اعلی افسروں نے ان کے خلاف کوئی سازش کی تھی ، اس موقع پر انھوں نے اطلاع ملنے پر متعلقہ کاغذات طلب کئے کہ دیکھیں، کن لوگوں نے اس سازش میں حصہ لیا ہے ، اور یہ مصرع کہا ۔ بعد کو اس پر پیش مصرع لگا کر شعر یوں پورا کیا۔
لاؤ تو قتل نامہ مِرا ، میَں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مُہر ہے ، سرِ محضر لگی ہوئی
(غبارِ خاطر صفحہ 296)
خلیق الزماں نصرت نے اپنے ایک مضمون ’’مشہور مصرعے ، اشعار اور ان کے شعراء‘‘ میں جو تفصیل پیش کی ہے ، اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ شعر محبوب علی خاں آصف کا ہے اور حیرت اس بات پر ہے کہ فیض احمد فیض کے مجموعۂ کلام میں یہ شعر کیسے شامل ہوگیا ۔ نصرت کی تحقیق ملاحظہ کیجئے جو انھوں نے مذکورہ شعر کے تعلق سے کی ہے:۔
’’میر محبوب علی خاں اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے ۔ شاعری میں داغ کے شاگرد تھے ۔ داغ کو انہی کے دربار میں شہرت ملی تھی‘‘ ۔ ’’چراغ ہارمونیم‘‘ یا ’’گنجِ موسیقی‘‘ مصنفہ چراغ دین سیالکوٹی ، مطبوعہ ، 1924ء اس کتاب کے صفحہ 156 پر میر محبوب علی خاں آصف کی غزل میں مذکورہ شعر شامل ہے۔ ’’نو نہالِ ہند عرف جلوۂ خواجہ‘‘ یہ کتاب بھی بمبئی سے شائع ہوئی تھی ، میر محبوب علی خاں کی اس غزل میں بھی یہ شعر شامل ہے ۔ یہ دونوں کتابیں فیض سے قبل کی ہیں ، اس زمانے میں فیض طفل مکتب تھے ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ فیض نے اپنے مجموعۂ کلام میں اس شعر کو کیونکر شامل کیا ۔ ایک مشہور ادیب اور صاحبِ قلم مرزا ظفر الحسن صاحب کی بات اس شعر کے تعلق سے بڑی اہم ہے ، وہ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ امرائے حیدرآباد میں بھی کافی مشہور ہے ، جو ان کی گدّی نشینی کے واقعات میں اکثر لوگ اس شعر کا ذکر کرتے ہیں ، یہ بات اس شعر کے مآخذ کے لئے کافی ہے‘‘ (ماہنامہ شاعر بمبئی ، اگست 2009 صفحہ 30) ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد نے بھی اپنی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ میں صفحہ نمبر 91 پر مذکورہ شعر نقل کیا ہے اور اسے نواب میر محبوب علی خاں آصف کا ہی شعر قرار دیا ہے ۔ اتنی تفصیل اس بات کے لئے کافی ہے کہ یہ شعر فیض کا نہیں بلکہ میر محبوب علی خاں آصف کا ہے ۔
محمد مستؔ کلکتوی کا ایک اور شعر بہت مشہور ہے ، لیکن عام طور پر لوگوں کو علم نہیں کہ یہ شعر مستؔ کلکتوی کا ہے ۔ انجم عظیم آبادی ، کلکتہ نے انور دہلوی کے تعلق سے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ماہنامہ انشاء کلکتہ کے شمارہ نومبر ، دسمبر 2014 کے صفحہ نمبر 5 پر ’’آپ کی ڈاک‘‘ کے تحت اپنے ایک خط میں بھی اس کا ذکر کیاہے ۔انھوں نے یہ لکھا ہے کہ ’’اس واقعے کے حوالے سے غلام محمد مستؔ کلکتوی کا یہ شعر یاد آگیا جو انور بارہ بنکوی پر صادق آتا ہے ؎
وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
(مست کلکتوی)
ایسے نہ جانے کتنے اشعار جو لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہیں اور وہ برمحل ان اشعار کا استعمال کرتے ہیں ، لیکن وہ نہیں جانتے کہ اسے کس شاعر نے لکھا ہے ۔ چونکہ میرے مضمون کا عنوان ’’غیر معروف شعراء اور ان کے مشہور اشعار‘‘ ہے ، اس لئے یہاں صرف انہی اشعار کو نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ، جن کے شاعر سے ہم لاعلم ہیں ، یا جنھیں شہرت نہیں ملی ، لیکن ان کے اشعار زیادہ مشہور ہوگئے ۔ ایسے سیکڑوں اشعار ہیں ، مگر یہاں ان تمام کا ذکر ممکن نہیں ، تاہم بعض اشعار اور ان کے شعراء سے قارئین کو متعارف کرانا مقصود ہے ۔ ایک شعر جسے عام طور پر بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ، لیکن شاعر غیر معروف ہے اس لئے اہل علم اور صاحبِ ذوق کو اس سے واقفیت نہیں ہے ۔ تسکین کا ایک شعر ہے ؎
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخیِ نقشِ پا کی
تسکین کا نام میر حسین تھا ،وہ تسکین تخلص کرتے تھے ۔ شاہ نصیر سے اصلاح لی ۔ بعد میں مومن خاں مومن کے شاگرد ہوئے ۔ رامپور کے نواب محمد سعید خان ان کے مداحوں میں تھے ۔ تسکین انہی کے دربار میں ملازم تھے ۔ کتاب ’’دلی کا دبستان‘‘ صفحہ نمبر 42 پر یہ شعر نقل کیا گیا اور اسے تسکین سے منسوب کیا گیا ہے ۔
منشی میاں داد سیاح اورنگ آبادی 1817 میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام منشی عبداللہ خان تھا ۔ غالب کی شاگردی کا انھیں شرف حاصل ہوا ۔مرزا غالب نے سیاح کو سیف الحق کا خطاب دیا تھا ۔ خطوط غالب میں سیاح کے نام متعدد خطوط شامل ہیں ۔ سیاحؔ نے ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیاحت کی ، اسی وجہ سے غالب انھیں میاں سیّاح کے نام سے پکارتے تھے ۔ بعد میں سیّاح ان کا تخلص ہوگیا ۔ پروفیسر ظہیر احمد مدنی نے ان کا دیوان مرتب کرکے شائع کیا ۔ 90 سال کی عمر میں سورت (گجرات) میں ان کا انتقال ہوا ۔ دیوانِ سیاح ، مطبوعہ گجرات اردو ساہتیہ اکادمی گاندھی نگر ، گجرات 2004 میں ان کا یہ مشہور شعر درج ہے :۔
قیس صحراء میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
قربان علی سالک بیگ کا ایک نہایت مشہور شعر جسے غالب سے منسوب کردیا گیا ہے وہ شعر یہ ہے ؎
تنگدستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
مرزا قربان علی سالک کا یہ شعر ’’تلامذۂ غالب‘‘ کے صفحہ نمبر 141 پر درج ہے ۔ سالک 1825 میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے ۔ لیکن بعد میں دلی چلے گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ مومن کی شاگردی اختیار کی ، جب مومن کا انتقال ہوگیا تو سالک غالب کے شاگرد ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں غالب کا اثر پایا جاتا ہے ۔ مذکورہ شعر جسے غالب سے منسوب کیا گیا ہے ، غالب کے دیوان میں نہیں ہے ، محققین نے اسے سالک حیدرآبادی کا شعر قرار دیا ہے ۔ سالک 1879 میں حیدرآباد میں انتقال کرگئے ۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد نے بھی اپنی کتاب ’’زبان زد اشعار‘‘ صفحہ نمبر 111 پر مذکورہ شعر نقل کیا ہے اور اس کے نیچے شاعر کا نام مرزا قربان علی بیگ سالک تحریر کیا ہے ۔ طوالت سے احتراز کرتے ہوئے یہاں چند اشعار اور ان کے تخلیق کاروں کے نام درج کئے جارہے ہیں ، جس سے ان زبان زد اشعار کے اصل شاعر کا نام قارئین کو معلوم ہوسکے ۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
حیرت الہ آبادی ( بحوالہ جواہر سخن صفحہ 546)
چاہت کا جب مزہ ہے کہ وہ بھی ہوں بیقرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی
ظہیر دہلوی (بحوالہ دیوان ظہیر صفحہ 235)
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
ظہیر دہلوی (بحوالہ خمخانۂ جاوید صفحہ 486)
کہہ رہا ہے موجِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
سعید احمد ناطق لکھنوی(بحوالہ جدید غزل گو صفحہ 247)
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
لالہ مادھورام جوہر فرخ آبادی (بحوالہ انتخاب کلام جوہر صفحہ 31)
نالۂ بلبلِ شیدا تو سنا ہنس ہنس کر
اب جگر تھام کے بیٹھو مِری باری آئی
لالہ مادھورام جوہر فرخ آبادی (بحوالہ انتخاب کلام جوہر صفحہ 53)
کیا خوب برق تو نے دکھایا ہے زورِ طبع
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
لالہ رام رکھا برق (بحوالہ شاعر اگست 2009 صفحہ 33)
چند تصویرِ بُتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے یہ گھر سے مرے ساماں نکلا
بزم اکبر آبادی (بحوالہ شاعر اگست 2009 صفحہ 33)
اب مجھ سے کاروبار کی حالت نہ پوچھئے
آئینہ بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں
محمود سروش (بحوالہ متاع ہُنر صفحہ 216)
زبان زد اشعار ، ضرب المثل اشعار ، ضرب المثل مصرعے ، گمنام یا غیر معروف شعراء کے ہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ، لیکن ان کے متعلق تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے انھیں شہرت نہیں ملی ورنہ ان کے اشعار مشہور اور بڑے شعراء کی صف میں انھیں کھڑا کرنے کے قابل ہیں ۔ اخبار کے ادبی صفحے میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ طویل مقالے شائع ہوسکیں ورنہ اس موضوع پر اور بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ، تاہم قارئین سیاست کی معلومات میں اضافے کے لئے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
mdsabirali70@gmail.com