کے این واصف
حج انتظامیہ نے امسال مقامات مقدسہ کے داخلے پر مزید پابندیاں عائد کیں ہیں ۔ سعودی عرب کے مختلف شہروں میں مقیم لوگ خصوصاً تارکین وطن حج کی چھٹیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عیدالضحیٰ مدینہ منورہ میں منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ حجاج کرام 8 سے 13 ذی الحجہ تک مناسک حج کی ادائیگی کیلئے منیٰ میں مقیم رہتے ہیں۔ لہذا مدینہ منورمیں زائرین کی تعداد نسبتاً کم ہوتی ہے ۔ تیسرے یہ کہ زیارت مدینہ منورہ اور عمرہ کیلئے یہاں ہر شہر سے خانگی کمپنیاں بس سروس چلاتے ہیں اور کافی مناسب داموں پر عوام کو یہ سروس دستیاب ہے۔ اس سروس میں جانا آنا اور مقامات مقدسہ میں ہو ٹل میں ٹھہرنے کا انتظام شامل ہوتا ہے ۔ خصوصاً یہاں رہنے والے خارجی باشندے اس سروس سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہوئے وقفہ وقفہ سے عمرہ اور زیارت مدینہ منورہ کی سعادت حاصل کرتے ہیںلیکن شاید حجاج کرام کی سہولت کی خاطر حج انتظامیہ نے اس سال ماہ ذوالقعدہ ہی سے تمام کمپنیوں کو ہدایت جاری کردی کہ وہ مقامات مقدسہ کیلئے چلائی جانے والی اپنی سروس عارضی طور پر بند کردیں۔ لہذا لوگ جو ان بس سرویسز کے ذریعہ عید کی نماز مدینہ منورہ میں ادا کرنے کے خواہشمند ہیں، انہیں اس سال یہ موقع نہیں ملا۔
دوسری طرف مقامی اخبارات میں یہ پڑھ کر ہمیں افسوس بھی ہوا اور حیرانی بھی کہ لوگ حج کی سعادت حاصل کرنے حج اجازت نامہ حاصل کئے مکہ مکرمہ کی طرف غیر مجاز ٹور آپریٹرز کے ساتھ چور راستوں سے مکہ پہچنے کی کوشش کرتے ہوئے سیکو ریٹی اہلکاروں کے ہاتھوں پکڑے جارہے ہیں۔ ان گرفتاریوں کی خبریں مقامی اخبارات میں مسلسل آتی رہتی ہیں۔ دو روز قبل شائع خبر میں جو تفصیلات دی گئیں ہیں وہ کچھ اس طرح تھی۔
حج مقامات پر بغیر اجازت نامہ کے جانے والوں کی گرفتاریوں کیلئے سیکوریٹی فورسس کے اداروں نے سخت تفتیش کا سلسلہ کافی پہلے شروع کردیا ہے ۔ اب تک 188 ہزار افراد اور 84 ہزار گاڑیوں کو تفتیشی چوکیوں سے واپس کردیا گیا جبکہ بغیر اجازت حج مقامات پرلیجانے والوں کی 48 گا ڑیوں کو ضبط کیا گیا ۔ 22 فرضی معلمین بھی پکڑے گئے ۔ مکہ مکرمہ پولیس کے سربراہ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ حج قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی شخص کو بخشا نہیں جائے گا ۔ انہوں نے بتایا کہ مکہ مکرمہ پولیس دو بنیادوں پر کارروائی کررہی ہے ۔ ایک طرف تو احتیاطی تدابیر سخت کی گئی ہیں، دوسری جانب خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والے گرفتاریوں پر زبردست چوکسی اختیار کی جارہی ہے جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔ ایسے تمام ریاستوں کی ناکہ بندی کردی گئی ہے جہاں سے غیر قانونی عازمین حج مقامات پر جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ نیز گشتی سیکوریٹی ٹیمیں بھی مسلسل کام کر رہی ہیں ۔ حکومت لاکھوں ڈالر خرچ کر کے مختلف ذرائع ابلاغ سے عوام کو آگاہی فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ کوئی بھی حج کا اجازت نامہ حاصل کئے بغیر حج کرنے کا قصد نہ کرے ۔ ہر چوراہے پر حکومت کے یہ بورڈس لگے رہتے ہیں ۔ اس کے بعد اب کسی کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ وہ حج قوانین سے لاعلم یا ناواقف تھے کہ حج پر جانے کیلئے اجازت نامہ حاصل کرنا لازمی ہے۔ سیکوریٹی چوکیوں پر نہ صرف عام لوگ بلکہ معلمین بھی گرفتار ہورہے ہیں ۔ حج انتظامیہ کی جانب سے سختیاں کرنے اور مختلف پابندیاں عائد کرنے کا مقصد قانونی طور پر حج پر آنے والوں کے لئے بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم ہوں، ان کو خشوع و خضوع سے عبادتیں کرنے اور مناسک حج ادا کرنے کا موقع ملے۔
دوسرے یہ کہ جو لوگ لاکھوں روپیہ خرچ کر کے قانونی طور پر حج کی ادائیگی کیلئے آتے ہیں ۔ انہیں چاہئے کہ وہ یہاں آنے سے قبل ضروری معلومات اور ہدایات حاصل کرلیں جن کا تعلق مناسک حج سے نہیں بلکہ مقامات مقدسہ میں قیام کے آداب سے ہے۔
حج انتظامات کو بہتر بنانے کیلئے سعودی حکومت کوئی دقیقہ فردگزاشت نہیں چھوڑتی۔ مگر حج انتظامات کی کامیابی سے عمل آوری صرف اور صرف حجاج کرام کے تعاون پر منحصر کرتی ہے ۔ لہذا کسی بھی ملک سے آنے والے حجاج کی تربیت پر زور دیا جانا چاہئے ۔ حج کیلئے منعقد تربیتی پروگرامس میں عام طور سے مناسک حج پر ہی توجہ دی جاتی ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تربیت میں سفر کے دوران کن باتوں کا خیال رکھا جائے ، خیموں میں قیام کے دوران اپنے اطراف کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے ، کھانے پینے کی اشیاء کو جابجا نہ پھینکنے ، باتھ رومس کو استعمال کرنے ، پانی ضائع نہ کرنے ، ایک مقام سے دوسرے مقام مناسک کی ادائیگی کیلئے جاتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور سب سے اہم رمی جمرات کو جانے ہوئے انتظامیہ کی ہدایات پر سختی سے عمل کرنے کی تاکید کی جانی چاہئے ۔
حرم مکی کی گنجائش میں اضافہ کرنے ، حجاج کیلئے مختلف سطح کی سہولتوں میں اضافہ کرنا تو مسلسل جاری رہتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ مملکت کے علماء اور خطیب حرمین شریفین اپنی تقاریر اور خطبات میں عازمین سے کہتے رہتے ہیں کہ حج توحید اور اتحاد کی پہچان دیتا ہے ۔ عازمین کو چاہئے کہ حج اجازت نامہ نہ ملنے پر حج ملتوی کردیا جائے ۔ حیلے بازی ، دھوکہ دہی ، دروغ بیانی اور جعلسازی سے پرہیز اور حج قوانین کا احترام کیا جائے ۔ اسلامی شریعت نے اپنے پیروکاروں کیلئے فرائض ، سنتیں ، نفیلیں اور جائز اشیاء مقرر کی ہیں۔ اسلام نے ایسے تمام مسلمانوں پر جو استطاعت رکھتے ہوں حج فرض کیا ہے ۔ حج اسلام کا پانچواں عظیم رکن ہے جو شخص استطاعت رکھتا ہو اسے پوری زندگی میں ایک بار حج کرنا لازم ہے، جس شخص پر حج فرض ہوجائے اور وسائل مہیا ہوجائیں اسے پہلی فرصت میںحج کرنا ضروری ہے ۔ یہ ہدایت پیغمبر اعظم و آخر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ۔ خطیب حرم نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ جو شخص اپنے طور پر حج کرنے کی سکت رکھتا ہو اسے اپنی جانب سے کسی اور کو حج پر نہیں بھیجنا چاہئے ۔ اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو حج ادا نہیں ہوگا ۔ غریب مسلمان پر حج فرض نہیں۔ البتہ کوئی بھی شخص اپنے طور پر اسے حج کراسکتا ہے ۔ جو شخص بھی کسی غریب کو حج کرا کے احسان نہیں جتلائے گا تو اللہ تعالیٰ حج کرانے والوں کو بھی اجر و ثواب سے نوازے گا ۔ نیابتی حج کرنے والا حج کرانے والے سے محنتانہ لے سکتا ہے ، جس شخص نے فرض حج نہ کیا ہو وہ کسی اور کی طرف سے حج نہیں کرسکتا۔ اگر اس نے ایسا کیا تو ایسی صورت میں حج کرانے والے کے بجائے حج خود اس کا ہوجائے گا جو حج کررہا ہو۔ اگر والدین کا انتقال ہوگیا ہو یا وہ معذور ہوں تو ایسی حالت میں بہتر ہوگا کہ اولاد اپنے والدین کی طرف سے حج کرے ۔پہلے ماں کی جانب سے حج کر ے کیونکہ بیٹے پر ماں کا حق زیادہ ہے ۔ اگر کسی خاتون کو حج کیلئے محرم مل جائے تو ایسی حالت میں شوہر کیلئے اپنی بیوی کو حج سے محروم کرنا جائز نہیں۔ اگر کسی شخص پر قرض ہو تو ایسی حالت میں اسے پہلے قرض ادا کرنا چاہئے، پھر حج کا ارادہ کرنا چاہئے ۔ الایہ کہ قرضہ دینے والا اسے حج کی اجازت دیدے یا قرضے کی ادائیگی کی قسطوں پر ہورہی ہو تو قسط دینے والے قرضہ دینے والے سے اجازت لینا ضروری نہیں۔ اگر کوئی شخص کمزوروں ، عورتوں، مریضوں اور حج پر آنے والے بوڑھوں کو سہولت کی غرض سے نفلی حج یا عمرہ ترک کردے تو یہ عمل کارخیر کا عمل ہوگا اور اللہ اسے ایسا کرنے پر اجر دے گا۔ وجہ یہ ہے کہ نفلی حج یا عمرہ سنت ہے اور مسلمانوں کو اذیت سے بچانا فرض ہے ۔ نفلی حج یا عمرہ سے بہتر صدقہ ہے ۔ اگر کسی شخص کو حکام سے حج کا اجازت نامہ نہ ملا ہو تو ایسے شخص کو اجازت نامہ ملنے پر حج کی ادائیگی ملتوی کرنا واجب ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اسلامی شرعی حکمت کے تحت ہی حجاج اور معتمرین کی تعداد مقرر کی جاتی ہے ۔ شریعت کا حکم ہے کہ دھکے بازی ، بدنظمی اور بے ضابطگی سے حج اجتماع کو بچانا ضروری ہے ۔ امام حرم نے خبردار کیا تھا کہ جو لوگ حج قوانین سے جان چھڑانے کیلئے دروغ بیانی ، دھوکہ دہی ، حیلے بازی اور رشوت ستانی کے طر یقے اختیار کرتے ہیں یا وہ لوگ جو چیک پوسٹوں سے فرار ہونے کیلئے پرخطر راستے اور ٹیڑھے میڑھے طریقے اپناتے ہیں، وہ بڑا گناہ کرتے ہیں۔ مقامی حکام نے اس حوالے سے جو پابندیاں مقرر کی ہیں، وہ حاجیوں کی سلامتی اور حج موسم کو پرامن اور پرسکون بنانے کیلئے لگائی ہیں۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ جو لوگ اسلامی شریعت کے احکام میں خلل پیدا کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں پامال کرتے ہیں، جو لوگ حرام کا ا رتکاب کرتے ہیںمیقاتوں سے پابندی کے باوجود بلا اجازت نامہ کے گزرتے ہیں وہ قابل مذمت ہیں۔ تفتیشی چوکیوں سے احرام کے بغیر گزرنا درست نہیں۔ جھوٹ بول کر ، دھوکہ دیکر ، قوانین پامال کر کے کسی طرح کا حج ہوسکتا ہے ، لمحہ فکر یہ ہے۔ امام حرم نے کہا تھا کہ جو لوگ غیر قانونی طریقے سے عازمین کو حج مقامات پر لے جاتے ہیں اور اس سے آمدنی حاصل کرتے ہیں، یہ حرام کی کمائی ہے ۔ یہ کمائی صحیح نہیں۔
امام حرم کی ان ہدایات کی روشنی میں ہر عازم حج کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے ۔ ورنہ حج یا عمرہ کیلئے پیسہ خرچ کر کے مشقت اٹھاکر بھی خسارے میں رہیں گے۔
knwasif@yahoo.com