غیرصحتمندی کا خبط

ڈاکٹر مجید خان
شروع میں مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس موضوع پر متاثر کن مضمون لکھنا میرے تجربے کے لحاظ سے تو بہت آسان ہوگا مگر یہ مغالطہ ثابت ہوا۔ کئی مضامین اس پر لکھ چکا ہوں مگر وہ میرے تجربات کی صحیح ترجمانی کرنے سے قاصر رہے۔ اس دوران بے شمار ایسے مریضوں کو دیکھ چکا ہوں مگر ان کی کیفیات کو صحیح اندازفکر میں ڈالنا بہت مشکل معلوم پڑا۔ ان کوششوں کا یہ ایک آخری مضمون ہے اور مجھے امید ہیکہ یہ میری محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔ جسمانی امراض کے تعلق سے مضامین لکھنا بڑا آسان ہے۔ مرض کے علامات اور پھر ان کا علاج۔

مگر خالص نفسیاتی امراض جو جسمانی لبادہ پہن کر ڈاکٹروں کو مالامال کرتے رہتے ہیں، ان کا پہچاننا آسان نہیں ہے۔ مریض کو اور ان کے رشتہ داروں کو مطمئن کرنا ایک ماہر امراض کیلئے روزمرہ کا چیلنج ہے۔ جس نے کئی مرتبہ اس پر لکھنا شروع کیا اور مکمل نہیں کرسکا۔ قارئین کا کہنا ہیکہ میرے مضامین کا لب لباب عنوان میں ہوا کرتا ہے۔ اتوار کی صبح کئی خواتین کہتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب میں بچوں سے پوچھتی ہوں کہ عنوان کیا ہے مضمون پڑھنے کی فرصت بعد میں ملتی ہے؟ مگر عنوانات سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں ہیکہ کیا دوسرے مضمون نگار بھی اسی طرح کی کشمکش میں مبتلاء رہتے ہیں یا نہیں۔ چند مہینوں پہلے ایک مضمون کا عنوان تھا ’’مجھ کو بھی پڑھ کتاب ہوں مضمون خاص ہوں‘‘ بعض لوگوں کو یہ کچھ مناسب نہیں لگا مگر جب اس کا ثانی مصرع پڑھے تو اندازہ ہوا کہ یہ ایک شعر کا مصرع اولیٰ ہے جو یوں ہے
مانا ترے نصاب میں شامل نہیں ہوں میں
اس کی معنویت کو سمجھانے کے چکر میں اگر پڑ جانا ہوتا تو مضمون طویل ہوجاتا تھا۔ اصل میں یہ
THINK OUT OF The BOX

کا شعری ترجمہ ہے یعنی روایتی سوچ سے ہٹکر غور کرنا چاہئے۔خیر اب اس اہم مضمون کیلئے انتہائی موزوں عنوان کے انتخاب میں سالوں گذر گئے اور اس دوران طبی تحقیقات ترقی پر تھیں اور عصری معلومات ذہن میں جمع ہوتے رہے اور کچھ نفس مضمون صحیح انداز میں ڈھلنے لگا تھا۔ اس کے ساتھ بے شمار اس قسم کے مریضوں کے علاج کریں گے اور موجودہ خیالات کو قلمبند کرنے کے قابل ہوا ہوں۔ یہاں میں ان نقلی مریضوں کی طرف اشارہ کررہا ہوں جن کو کوئی بیماری نہیں ہوتی مگر یقین محکم ہوتا ہے کہ وہ ہمہ اقسام کی بیماریوں میں مبتلاء ہیں۔ بہت ہی غوروفکر کے بعد میں نے ایک عنوان کا انتخاب کیا جو تھا غیرمطمئن شخصیت۔ ایسی شخصیت جو ایک بار اپنا ذہن بنا لیتی ہے تو پھر وہی اس کی حقیقت ہے اور اپنے بے بنیاد وسوسوں پر مکرر غور کرنا کسرشان بیماری سمجھ بیٹھتے ہیں۔ جو ڈاکٹر ان کو کہتا ہیکہ آپ کو کسی قسم کا مرض نہیں ہے آپ اپنے کاموں پر لگ جائے تو ڈاکٹر بدل دیتے ہیں۔ ان سب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اس مضمون کے عنوان کا انتخاب کیا ہے۔ امید کہ قارئین اس کی اہمیت اور عمیق معنویت کو سمجھ جائیں گے۔ یعنی اپنے صحتمند نہ ہونے کا جنون۔ یہ بھی ایک مصدقہ نفسیاتی امراض کے زمرے میں ہی آتا ہے۔

اسکو ILLIRES ATNXIETY کہا جاتا ہے یعنی یہ مجبور صحتمند لوگ مطمئن نہیں ہوتے کہ وہ بالکلیہ صحتمند ہیں۔ بادل ناخواستہ اگر تھوڑی دیر کے لئے مطمئن بھی ہوجائیں تو ان کو یہ ڈر لگا رہتا ہیکہ کہیں ان کو بیماری ہونے کا احتمال و خطرہ تو نہیں ہے یہ لوگ اکثر و بیشتر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر مامور ہونے کے باوجود ان شکوک و شبہات سے نجات نہیں پاسکتے۔ اگر قریبی دوست یا رشتہ دار بیمار ہوجائیں تو ان کی نفسیات کا شیرازہ بکھر جاتا۔ اب ظاہر ہے یہ لوگ کسی بھی علاج اور قیمتی طاقت وغیرہ کوبڑھانے والی دوائیں خریدنے لگتے ہیں۔ پروپگنڈہ اور اشتہاری علاج کو ان کا ذہن بہ آسانی قبول کرلیتا ہے۔ ہمہ اوقات جسمانی تکلیف ہونا ضروری نہیں ہے آج کل بڑی آسانی سے لوگ ’’گوگل‘‘ کے ذریعہ معلومات حاصل کررہے ہیں اور ہر مرض کی علامت اپنے میں دیکھنے لگتے ہیں۔ آج کل صحتمند طرز زندگی پر بیماریوں سے تحفظ کیلئے زیادہ زور دیا جارہا ہے اور یہ بیچارے صحت اور علاج کے کسی نہ کسی موضوع سے پریشان ہوا کرتے رہتے ہیں۔

اگر کوئی عام عارضہ ان کو ہو مثلاً بلڈ پریشر یا ذیابیطس تو اس کے ممکنہ خطرات سے مسلسل سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ اگر کچھ جسمانی تکلیف ہوجائے تو پوری توجہ اس طرف مبذول ہوجاتی ہے بلکہ یہ لوگ ایک لحاظ سے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ان کو کوئی صحیح تکلیف ہے اور وہ کوئی بہانہ نہیں بنارہے ہیں اور پھر علاج اور مہنگے امتحانات کا لامتناہی سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوجاتا ہے۔ گھر والوں کی ہمدردیوں اور تیمار داری کا خزانہ ختم ہوجاتا ہے اور یہ مریض تن تنہا مسلسل ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ ڈاکٹروں کے مشورے کے باوجود ماہر نفسیات سے ملنے سے گریز کرتے رہتے ہیں کیونکہ اس کو کسرشان سمجھتے ہیں ان کو معلوم ہیکہ ایک بار وہ ماہر نفسیات کے ہاں پہنچ جائیں تو علاج ان کے جسمانی امراض کا نہیں بلکہ ان کے مریضانہ خیالات کا شروع ہوجاتا ہے۔ ان مریضوں کا عام نفسیاتی مریضوں کی طرح علاج نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے اگر آپ زیادہ ہمدردی کریں تو وہ آپ کو اتنا پسند کرنے لگیں گے کہ آپ ان کا پیچھا چھڑا نہ سکیں گے۔ بچوں کی طرح یہ لوگ مسلسل توجہ چاہتے ہیں۔ جو صحتمندی کی علامت نہیں ہے۔ علاج کا نسخہ ہے ڈاکٹری توجہ معقول اور غیرضروری انسانی ہمدردی سے گریز۔ کم سے کم الفاظ میں مریض کو مطمئن کرنا چاہئے۔ اس میں ڈاکٹر مریض سے بیزار نہیں ہوگا اور مریض اس کے مسلسل سہارے پر انحصار نہیں کرے گا۔

بیماریوں اور اپنی صحتمندی کے تعلق سے مزاج بنانا ہر مریض کی شخصیت پر مبنی ہے۔ اگر وہ بال کی کھال نکالنے والے تستعلیقی مزاج کے ہوں تو پھر علاج کی راہیں اور بھی مشکل ہوجاتی ہیں۔ غیرصحتمندی کا خبط ہمیشہ ان کے سر پر سوار رہتا ہے۔ یہ بیچارے اسی منفی سوچ سے مجبور ہیں نہ صرف صحت و بیماری کے معاملے میں یہ لوگ باہمت نہیں ہوتے بلکہ ان کی قوت فیصلہ بہت کمزور ہوجاتی ہے۔ ان کی شخصیت میں کچھ بچپن سے کمزوری ہوا کرتی ہے اور معمولی جسمانی تکلیف کو بھی یہ لوگ کوئی خطرناک بیماری کی ابتدائی علامت سمجھ سکتے ہیں۔ سر کا درد اور خاص طور سے خواتین میں اکثر و بیشتر تفکرات کی وجہ سے ہوسکتا ہے تفکرات کم کرنے والی دوائیوں سے ان کو سکون ملتا ہے اور سر کے درد کی کوئی دوا استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ان لوگوں کو چاہئے کہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا کیڑا نہ بنیں۔ ساری دنیا سے معلومات حاصل کرنے کے بعد شک و شبہات اور بھی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ آج کل ایلوپیتھی میں تشخیص اتنی جامع ہورہی ہے کہ ایک بار ڈاکٹر آپ سے کہہ دے کہ آپ کو کوئی قابل علاج مرض نہیں ہے تو اس کو قبول کرنے کی ذہنی صلاحیت کو بڑھاوا دیں۔ بعض اوقات ڈاکٹر کچھ شبہ ظاہر کئے تو ان کا ایک جملہ ان کی نیند حرام کردیتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہای افسوس ہوتا ہیکہ بعض قابل و تعلیمیافتہ نوجوان اچھی ملازمتوں پر مشرق وسطیٰ وغیرہ جاتے ہیں مگر نئے ماحول یا گھر کی یاد وغیرہ سے وہاں پر سکون سے رہ نہیں سکتے اور کسی نہ کسی بیماری کا بہانہ کرتے ہوئے واپس حیدرآباد آجاتے ہیں اور غیرصحتمندی کے خبط کے چکر میں آجاتے ہیں۔ ان کے علاج کیلئے ان کی مائیں چھوٹے بچوں کی طرح لیکر آتی ہیں۔ یہ سب سے اہم کمزوری ہے۔ ہماری مائیں بیٹوں کے پیار میں اتنی اندھی ہوجاتی ہیں کہ ان کو نفسیاتی طور پر ذمہ دار اور آزاد و خودمختار ہونے کا موقع ہی نہیں دیتی ہیں۔