غلام احمد

 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کرکٹ کے کھیل کو ہم نے جتنا بھی جانا وہ غلام احمداور آنجہانی بھارت چند کھنہ کے حوالہ سے ہی جانا اور وہ بھی اس لئے جانا کہ ان دونوں کا تعلق حیدرآباد سے رہا ہے ۔ ہم تو ہر کام حیدرآبادکے حوالہ سے ہی کرتے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ ان دونوں کا تعلق حیدرآباد سے نہ ہوتا تو آج ہماری جھولی میں کرکٹ کے کھیل کے بارے میں وہ معلومات بھی نہ ہوتیں جو آج دکھائی دیتی ہیں ۔ اگرچہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اس کھیل کے بارے میں ہماری یہ معلومات بھی خاصی ، ناقص ، کتابی اور ازکار رفتہ ہیں۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ہم نے خود کبھی اپنی آنکھوں سے ان دونوں کھلاڑیوں کو میدان میں کرکٹ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن اس کے باوجود یہ ہمارے پسندیدہ کرکٹ کھلاڑی صرف اس وجہ سے قرار پاتے ہیں کہ ان دونوں شریف کھلاڑیوں نے کبھی ہمارا قیمتی وقت اس طرح ضائع نہیں کیا جس طرح آج کے کرکٹ کھلاڑی ضائع کرتے ہیں۔ پانچ پانچ دنوں تک تماشائیوں کو چلچلاتی دھوپ میں گیلری میں بٹھائے رکھتے ہیں ، حوائج ضروریہ کو غیر ضروری طور پر ایک لمبے عرصہ تک روکے رکھنے پر مجبور کرتے ہیں ، مونگ پھلی اور مکئی کے بھنے ہوئے دانوں پر گزارا کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور بحیثیت تماشائی بالآخر ہمیں ’آؤٹ‘ کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ کرکٹ کے کھیل میں ’’کھلاڑی‘‘ آؤٹ ہوتا ہے۔ ہم نے تو کرکٹ کے ہر میچ کے بعد ’’تماشائیوں ‘‘ کو ہی آؤٹ ہوتے دیکھا ۔ ان دونوں بزرگ کھلاڑیوں کا ہم پر یہ شخصی احسان نہیں تو اور کیا ہے کہ انہوں نے کبھی ہمیں ’’آوٹ‘‘ نہیںکیا ۔ ان دونوں کرکٹ کھلاڑیوں کو ہم نے میدان میں کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا تو اس میں قصور ان کا نہیں ہمارا تھا ۔ بھارت چند کھنہ تو کرکٹ کے کھیل سے اس وقت ریٹائر ہوچکے تھے جب ہم ابھی بچے تھے ، البتہ غلام احمد جب 1958 ء میں کرکٹ سے ریٹائر ہوئے تو یہ ہماری نوجوانی کے دن تھے ۔ یوں بھی شروع ہی سے ہماری دلچسپی ’’انڈور گیمس‘‘ یعنی درون خانہ کھیلوں میں رہی ہے ۔ اکثر انڈور گیمس تو ہم نے ایسے بھی کھیلے جن میں کھیل سے پہلے اندر سے دروازہ کو بند کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ آدمی جب ایسے کھیلوں میں دلچسپی لینے لگے تو اس کے پاس اتنی فرصت کہاں رہتی ہے کہ وہ پانچ پانچ دنوں تک تماشائیوں کی گیلری میں بیٹھ کر کرکٹ کا میچ دیکھ سکے۔ یوں بھی کھیلوں کے معاملہ میں ایک لمبے عرصہ تک ہم خالص ہندوستانی رہے ۔ گلی ڈنڈے کے تو ہم بچپن سے ہی مایہ ناز کھلاڑی رہے۔ اگرچہ ہم نے مختصر مدت تک ہی یہ کھیل کھیلا لیکن اس مختصر عرصہ میں بھی اس کھیل کے ذریعہ پڑوسیوں کے گھروں کی کھڑکیوں کے شیشے توڑنے کی ’’سنچری‘‘ تو ضرور بنائی ہوگی۔ بعد میں ہماری دلچسپی آنکھ مچولی کے کھیل میں بڑھی تو آنکھ مارنے کے کئی ریکارڈ توڑ ڈالے۔ غرض وہ کھیل جو انگریزوں کی معرفت اس ملک میں رائج ہوئے ہمیں کبھی پسند نہ آئے۔

اب آپ سے کیا چھپائیں کہ بچپن میں ہمارے محلہ میں ایک انگریز جوڑا رہتا تھا جو ہر شام کو نہایت پابندی سے ٹینس کھیلا کرتا تھا۔ دونوں میاں بیوی درمیان میں جب Net یا جال باندھ کر ٹینس کھیلا کرتے تھے تو ہم اپنی لاعلمی کی بناء پریہ سمجھا کرتے تھے کہ دونوں کے درمیان یہ Net محض اس لئے باندھا جاتا ہے کہ کہیں یہ دونوں گیند کی بجائے ایک دوسرے کو ریاکٹوں سے مارنے نہ لگ جائیں۔ کرکٹ کا کھیل بھی ہمیں آج تک سمجھ میں نہیں آیا، یقین مانیئے بعض بلّے باز جب پاؤں میں بھاری پیڈ، ہاتھوں میں دستانے ، سر پر ہیلمٹ اور حفاظتی تدابیر کے طور پر نہ جانے کیا کیا باندھ کر میدان میں آتے ہیں تو ہمیں کے آصف مرحوم کی فلم ’’مغل اعظم ‘‘ کا وہ سین یاد آجاتا ہے جس میں مہابلی اکبر سرتاپا زرّہ بکتر پہن کر شہزادہ سلیم سے جنگ لڑنے کے ارادہ سے نکلتے ہیں اور مہارانی جودھا بائی اس زرّہ بکتر کی آرتی اتارتی ہیں تو لگتا ہے کہ زرّہ بکتر کے اندر مہا بلی اکبر جگہ جگہ سے لڑ کھڑاتے چلے جارہے ہیں۔ مہارانی جودھا بائی کا لڑ کھڑانا تو خیر سمجھ میں آتاہے ۔ مگر مہابلی اکبر کا لڑ کھڑانا ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔ مہا بلی اکبر تو خیر جنگ لڑنے کیلئے جارہے تھے لیکن کرکٹ کے کھلاڑیوں کو جب ہم زرہ بکتر میں دیکھتے ہیں تو اس کھیل کے سارے عذاب ہم پر روشن ہوجاتے ہیں۔ کھیل کا مقصد تفریح ہوتا ہے لیکن تفریح کو عذاب بنانے کا گُر انگریزوں نے ہی دنیا کو سکھایا۔ پھر یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کھیل میں تو بیک وقت صرف تین کھلاڑی ہی صحیح معنوں میں مصروف نظر آتے ہیں یعنی ایک گیند پھینکنے والا کھلاڑی اور دو رن بنانے والے کھلاڑی ، باقی جو نو دس کھلاڑی میدان میں بلا وجہ ا پنا وقت برباد کرتے رہتے ہیں اور ہر دم اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیںکہ وہ بھی کھیل میں حصہ لے رہے ہیں، یہ آخر کس لئے میدان میں رکھے جاتے ہیں۔ پھر وکٹوں کے درمیان کھلاڑیوں کا دیوانہ وار بھاگنا بھی بیوقوفی نہیں تو اور کیا ہے ۔ بھائی بھاگنا ہی ہے تو سیدھے بھاگو ۔ وکٹوں کے بیچ کیوں بھاگتے ہو۔ بہرحال کرکٹ کے بارے میں ہمارے تاثرات کچھ ایسے ہی ہیں لیکن اس کے باوجود اس کھیل کو محض اس لئے شوق سے دیکھتے ہیں کہ ہمارا شمار بھی مہذب لوگوں میں ہونے لگے۔

آج ہمیں کرکٹ کی یاد اس لئے آئی کہ پچھلے دنوں ایک طویل عرصہ بعد ہماری ملاقات کرکٹ کے مایہ ناز کھلاڑی غلام احمد صاحب سے ہوئی ۔ غلام احمد صاحب ہمارے پرانے کرم فرماؤں اور سرپرستوں میں سے ہیں۔ پچھلے ہفتہ ہم مختصر سے قیام کیلئے حیدرآباد گئے تو ہمارے دوست ضمیر الدین نے سلطان العلوم کالج میں اپنے بیٹے کے داخلہ کا ذکر یوں ہی ہمارے سا منے کردیا ۔ اس پر ہمیں یاد آیا کہ غلام احمد تو مفخم جاہ ٹرسٹ کے سکریٹری ہیں۔ اگرچہ اس ہونہار طالب علم کا نتیجہ اس قدر شاندار تھا کہ کسی سے سفارش کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن ہمیں تو غلام احمد سے ملنے کا ایک بہانہ چاہئے تھا ۔ اس خیال کے آتے ہی ہم نے غلام احمد کے گھر فون کیا تو پتہ چلا کہ آرام کر رہے ہیں۔ ہم نے ان کے فرزند نثار احمد کو پوچھا تو معلوم ہوا کہ غسل خانہ میں ہیں۔ کچھ دیر بعد فون کیا تو معلوم ہوا کہ اب کپڑے تبدیل کر رہے ہیں۔ پھر فون کیا تو بتایا گیا کہ بالوں میں کنگھی کر رہے ہیں ۔ چوتھے فون پر معلوم ہوا کہ موزے پہن رہے ہیں۔ ہمیں یوں لگا جس طرح کسی زمانے میں غلام احمد صاحب کی گیند بازی کی ’’رننگ کامنٹری‘‘ نشر کی جاتی تھی ، اب اسی طرح نثار میاں کے تیار ہونے کی’’رننگ کامنٹری‘‘ کی روایت کو تو جاری رہنا ہی چاہئے ۔ پھر جب ہم نے اپنا نام بتایا تو نثار میاں خود لائین پر آئے ۔ ہم نے رننگ کامنٹری والی بات سنائی تو بہت ہنسے۔ غرض کچھ دیر بعد نثار احمد سے ملنے کو گئے تو معلوم ہوا کہ غلام احمد صاحب ان دنوں خاصے بیمار چل رہے ہیں اور اس وقت انہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں ہے ۔ اس بات سے ہمیں تشویش ہوئی اور ہم نے کہا کہ دوسرے دن ہم ان کی مزاج پرسی کرنے کیلئے پھر آئیں گے ۔ دوسرے دن گئے تو غلام احمد صاحب کو اپنا منتظر پایا۔ انہیں دیکھا توا یک پا کستانی شاعر کا شعر بے ساختہ یاد آگیا (یہ شعر ان دنوں ہمیں اکثر یاد آنے لگا ہے)

زمانہ کس قدر پامال کردیتا ہے انساں کو
ہمارے دور کے محبوب پہچانے نہیں جاتے
وہ غلام احمد جو اپنی وجاہت اور بے مثال شخصیت کے باعث سب سے الگ تھلگ اور مختلف نظر آیا کرتے تھے ، اب اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ اگر ہماری ملاقات ان کے گھر پرنہ ہوتی تو کبھی یقین نہ آتا کہ یہ وہی غلام احمد ہیں جنہیں دیکھتے ہی بہت سوں کی وکٹیں ویسے ہی گرجایا کرتی تھیں۔ (بعض کے پاس تو وکٹیں ہوتی بھی نہیں تھیں مگر پھر بھی گرجاتی تھیں) کیا رعب و دبدبہ تھا ان کی شخصیت میں ۔ اس کمزوری کے باوجود بہت محبت سے ملے ، کہنے لگے ۔ ’’اب 76 برس کا ہوگیا ہوں ۔ اب بھی کمزور نہ ہوں گا تو کب ہوں گا ‘‘۔
غلام احمد ان لوگوں میں سے ہیں جن کی وجہ سے کرکٹ کی دنیا میں حیدرآباد کو شہرت ملی ۔ انہوں نے سترہ سال کی عمر سے کر کٹ کھیلنا شروع کیا ۔ لگ بھگ بیس برسوں تک کئی قومی اور بین الاقوامی کرکٹ میچوں میں ہندوستان کی نمائندگی کی ۔ تین برسوں تک ہندوستانی ٹیم کے کپتان بھی رہے ۔ اگرچہ غلام احمد نے 1958 ء میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی لیکن 1988 ء تک وہ کسی نہ کسی حیثیت میں کرکٹ کنٹرول بورڈ سے وابستہ رہے ۔ ہندوستانی ٹیم کے مینجر رہے ، کرکٹ کنٹرول بورڈ کے اعزازی سکریٹری بنے۔ 1982 ء میں کرکٹ کنٹرول بورڈ کی قومی انتخابی کمیٹی کے صدرنشین بھی بنے ۔ گویا بیس برسوں تک تو خود کرکٹ کھیلتے رہے لیکن بعد میں چالیس برسوں تک قوم کو کرکٹ کھلاتے رہے، ان کا حال غالب کے مکان کی چھت جیسا ہے ۔ برسات ایک گھنٹہ بر سے تو غالب کے مکان کی چھت چوبیس گھنٹہ تک ٹپکتی رہتی تھی ۔ کرکٹ کے فروغ کیلئے غلام احمد میں ہمیں جو لگن نظر آئی وہ کسی دوسرے کرکٹ کھلاڑی میں نظر نہ آئی۔ کرکٹ کی دنیا میں حیدرآباد کو جو مقام ان دنوں حاصل ہے ، اس کا سہرا بلا شبہ غلام احمد کے سر جاتا ہے۔ ہر آدمی کا اپنا ایک دائرہ عمل ہوتاہے اور وہ اس سے پہچانا بھی جاتا ہے۔ غلام احمد کا دائرہ عمل کرکٹ رہا ہے۔ انہوں نے ساٹھ برسوں تک اس دشت کی سیاحی کی ہے ۔ بلا شبہ وہ اس کھیل کے اماموں میں سے ہیں۔ غلام احمد سے ہماری اس وقت کی ملاقات ہے جب وہ حکومت آندھراپردیش کے محکمہ زراعت میں ڈپٹی سکریٹری ہوا کرتے تھے ۔ آنجہانی بھارت چند کھنہ اور رشید قریشی مرحوم کے ہمراہ ان سے بیسیوں ملاقاتیں ہوئیں۔ غلام احمد جیسی وجیہ و شکیل ، خوش گفتار اور خوش پوشاک شخصیت سے ملنا ہمارے لئے ہمیشہ ایک خوشگوار تجربہ رہا ہے لیکن اس بار انہیں کمزور دیکھ کر ہمارے دل کو ایک دھکا سا لگا۔ (2 اگست 1998 ء)

 

پس نوشت:
آخرکار دو ہی مہینے کے بعد 28 اکتوبر 1998 ء کو وہ اس دنیا سے چل بسے اور یوں حیدرآباد اپنے ایک اہم سپوت سے محروم ہوگیا۔ ان کے انتقال کے دن ہم دہلی میں تھے۔ غلام احمد کے فرزند نثار احمد نے صبح صبح ہمیں حیدرآباد سے فون پر ان کے انتقال کی خبر سنائی اور کہا کہ ہم دہلی کے ذرائع ابلاغ کو بھی یہ اطلاع فراہم کردیں۔ ہندوستانی ٹیلی ویژن کی معروف شخصیت راج دیپ سردیسائی ، جو کرکٹ کے پرانے کھلاڑی دلیپ سر دیسائی کے فرزند بھی ہیں، دہلی کے میرے پرانے دوستوں میں سے ہیں۔ میں نے جب راج دیپ کو غلام احمد کے انتقال کی خبر سنائی تو گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ راج دیپ سردیسائی نے فوراً حیدرآباد میں اپنے ٹیلی ویژن چیانل کے کارکنوں کو کچھ اس طرح ہدایت دی کہ نصف گھنٹہ کے اندر ہی میں نے دہلی میں بیٹھے بیٹھے ٹیلی ویژن پر غلام احمد کا آخری دیدار کیا۔ رہے نام اللہ کا (م ۔ح )