غزہ کی داستانِ ظلم و ستم

قاری ایم ایس خان
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار لے چکا ہے تو امتحاں ہمارا
اسرائیل و فلسطین کے درمیان جاری خونریزی کے بارے میں اس سے قبل کہ آپ اپنی کوئی رائے قائم کریں ذرا ایک نظر مندرجہ ذیل حقائق و اعداد و شمار پر بھی ڈال لیں ۔
(۱) غزہ 1967 میں اسرائیل نے فوج کشی کی تھی اور اس کے بعد سے اب تک اسرائیل نے مکمل غزہ پٹی پر اپنا ناجائز اور غیر قانون قبضہ جمارکھا ہے ۔ (۲) غزہ تینوں جانب سے اسرائیل سے گھرا ہوا ہے ۔ اسرائیل فوج اور بحریہ نے تینوں مقامات کی ناکہ بندی کررکھی ہے ۔ ایک جانب مصر کی سرحد ہے جہاں مصری افواج اسرائیل اور اقوام متحدہ کے ساتھ وہاں کی نگرانی کرتی رہتی ہے اور غزہ آنے یا جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ بہ الفاظ دیگر غزہ کو ہم ایک بڑے قید خانہ سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ جہاں اسرائیل کی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا۔(۳) غزہ میں نہ کوئی بندرگاہ ہے نہ طیرانگاہ اور نہ ریلوے اسٹیشن(۴) غزہ کے باشندے وہاں سے نقل مکانی نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس پاسپورٹس نہیں ہیں ۔ علاوہ ازیں ہر مقام پر اسرائیلی چیک پوائنٹس موجود ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ کسی دوسرے ملک کے شہری بھی غزہ میں اسرائیل کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوسکتے ۔

عام آدمی کی بات تو چھوڑیئے بلکہ طاقتور ممالک کے اعلی سیاستدانوں کو بھی اسرائیل نے غزہ میں داخلہ کی اجازت نہیں دی ہے ۔ غزہ ایک ایسا مقام ہے جو عالمی سطح پر دیگر ممالک سے منقطع ہے ۔ (۵) روزمرہ کے استعمال کی اشیاء اسرائیلی چیک پوائنٹس سے ہو کر گزرتی ہیں ۔ یہاں تک کہ دودھ ، گیہوں اور ادویات بھی اسرائیلی چیک پوائنٹس سے گزر کر غزہ پہنچتی ہیں اور اسرائیل ان کا ٹیکس وصول کرتا ہے ۔ (۶) غزہ ایک بڑی جیل کی مانند ہے اور پورا ملک اسرائیل کی غاصبانہ تحویل میں ہے ۔ یہاں تک کہ اندرون غزہ ، اسرائیل نے کئی مقامات پر اپنے چیک پوائنٹس قائم کررکھے ہیں ۔ اسرائیلی افواج چیک پوائنٹس سے گزرنے والے فلسطینیوں کی ہر روز توہین کرتی اور انہیں ہراساں کرتی ہے ۔ (۷) اقوام متحدہ نے متعدد بار اسرائیل سے غزہ پر غاصبانہ قبضہ ختم کرنے کی اپیل کی ہے ، لیکن اسرائیل نے اقوام متحدہ کی اپیلوں کو ہمیشہ مسترد کردیا ۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کے خلاف زائد از 50 قراردادیں منظور کیں ، لیکن چونکہ اسرائیل کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے، لہذا اس نے کبھی بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پروا نہیں کی (۸) غزہ میں غذا اور دیگر اشیاء ضروریہ کی ہمیشہ قلت رہتی ہے کیونکہ ان اشیاء کی غزہ میں درآمد کرنے والوں کو اسرائیل ہراساں کرتا ہے اور قصداً ان اشیاء کی درآمد میں تاخیر کی جاتی ہے ۔ دکانات میں وافر مقدار میں راشن اور ہاسپٹلس میں وافر مقدار میں ادویات نہیں ۔

برقی سربراہی بھی محدود ہے جبکہ پٹرول اور گیس کی بھی قلت ہے جس کی وجہ سے غزہ میں افراط زر کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ غربت کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ غزہ کے بچے دنیا کے ایسے بچوں میں شمار کئے جاتے ہیں جنہیں ناقص غذا سربراہ کی جاتی ہے اور جو دنیا کے بدترین استحصال سے دوچار ہیں ۔ (۹) غزہ کے کسی بھی ہاسپٹل میں شدید زخمیوں یا بیماروں کے لئے علاج کیلئے نہ تو کوئی خصوصی ڈاکٹر ہے اور نہ ہی آلات ۔ اسرائیلی افواج وقفہ وقفہ سے غزہ پر بمباری کرتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے بے قصور شہری زخمی ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ زخمی فلسطینی چیک پوائنٹس پر اسرائیلی افواج سے منت سماجت کرتے ہیں کہ انہیں علاج کے لئے وہاں سے باہر جانے کی اجازت دی جائے لیکن اسرائیلی فوج ٹس سے مس نہیں ہوتی ۔ (۱۰) کسی زمانے میں فلسطینی مالدار اور وضعدار ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ اپنے ہی وطن میں گداگروں اور قیدیوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں ۔ کیا آپ ان کے صدمات ، ان کی توہین ، ہراسانی اور ان کے دلوں میں پائے جانے والے اس درد کو سمجھ سکتے ہیں جن پر فوج کشی کرتے ہوئے انہیں خود اپنے ہی وطن میں قیدی اور غلام بنالیاگیا ہو؟

فلسطینی اپنی آزادی کے لئے زائد از 50 سال جد وجہد کررہے ہیں ۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اسرائیل اپنے شہریوں کے لئے نوآبادیات تعمیر کررہا ہے ۔ اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ فلسطینیوں کی یہ امید موہوم ہوتی جارہی ہے کہ وہ بھی دیگر انسانوںکی طرح معمول کے مطابق اپنی زندگی گزارسکیں گے ۔ ہر رات وہ اسی درد کے ساتھ سوجاتے ہیں اور ہر صبح اسی غم کے ساتھ بیدار ہوتے ہیں ۔ امن مذاکرات کے بہانے سے اسرائیل فلسطینیوں کی زیادہ اراضیات پر قبضہ کرتے ہوئے وہاں اسرائیلی شہریوں کے لئے مکانات کی تعمیر کرنے کے مقصد سے فلسطینیو کی آزادی کو تاخیر کا شکار کررہا ہے ۔ فلسطینی بھی یہ بات جانتے ہیں لیکن وہ محض بے یار و مددگار تماشائی ہیں اور خون کے آنسو بہاتے ہیں ، اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں روز ذلیل ہونا ، گالیاں کھانا اور وہ بھی خود اپنی ہی سرزمین پر ، کبھی بھی اسرائیلی فوجی ، کسی فلسطینی شہری کو ہلاک بھی کردیتے ہیں لہذا فلسطینیوں کے پاس خاموش تماشائی بننے اور بھوکے رہنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ۔

اب آپ کے پاس کیا تجاویز ہیں ؟ مغربی ممالک کی جئے جئے کرنے والا اور ان سے موٹی موٹی رقومات اینٹھنے والا میڈیا ان خبروں کو کچھ اس انداز سے تیار اور نشر کررہا ہے جیسے غزہ کے شہریوں نے اسرائیل پر قبضہ کررکھا ہو اور اسرائیل اپنے شہریوں کی آزادی کیلئے نبرد آزما ہے اور اس طرح گمراہ کن خبروں کے ذریعہ یہ تاثر پیش کیا جارہا ہے کہ فلسطینی غاصب ہیں تاکہ لوگ انہیں مورد الزام ٹھہرائیں ۔ کیا آپ ان کے درد اور بے سر و سامانی کا احساس کرسکتے ہیں ؟ ہم غزہ نامی قید خانے میں ایک دن گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے جبکہ فلسطینی گذشتہ 50 سال سے اس قیدخانے میں ہیں ۔ لہذا اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کے ایسے تمام لوگ جو امن وانصاف اور مساوات پسند ہیں انسانیت کی خاطر فلسطینیوں کے حق میں کھڑے ہوجائیں اور اپنی آواز بلند کریں ۔