غزہ میں ظالم کی شکست، مظلوم کی فتح

محمد مبشرالدین خرم
فتح و شکست کا فیصلہ جنگوں میں ضائع ہونے والی زندگیوں کی تعداد کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ جنگی شکست وہ ہوتی ہے جس میں ایک فریق کے مطالبات کو فریق ثانی قبول کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور جو فریق زیادہ نقصان اٹھانے کے باوجود حزب مخالف سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اسے دنیا فاتح قرار دیتی ہے ۔ حق و باطل کی معرکہ آرائی میں یقیناً حق پر رہنے والے میدانوں میں ڈٹے رہتے ہیں جبکہ ظالم فطری اعتبار سے تباہی و بربادی کیلئے اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی نیت کے ساتھ چھپ کر وار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ فاتح اقوام اپنے مجاہدین و شہداء پر فخر کرتی ہیں جبکہ شکست خوردہ اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں پر صفِ ماتم بچھاتے ہوئے اپنی ناکامی پر آنسو بہاتے ہیں جن لوگوں کے مقدر میں فتح لکھ دی جاتی ہے وہ لوگ ہزاروں ٹن بارود برسائے جانے کے باوجود اپنے مجاہدین پر پھولوں کی بارش کرتے ہوئے ان کا استقبال کرتے ہیں اسی طرح جن کا مقدر شکست ہوتا ہے وہ اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کو قبول کیا ہے ۔ انسانیت کی دہائی دیتے ہوئے جنگ بندی کے دعویٰ کرنے والوں کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ انہوں نے گزشتہ 51 ایام کے دوران انسانیت کو شرمندہ کرنے والی ہر وہ حرکت کی ہے جس سے انسانیت شرمسار ہوئی ۔

اسرائیل کی درندگی پر طویل مدتی روک لگنے کے فوری بعد یہ کہا جانے لگا کہ اسرائیل و حماس نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کردی ہے اور طویل مدتی جنگ بندی کا آغاز ہوچکا ہے ۔ لیکن اس کے پس پردہ حقائق کو عالمی میڈیا کی جانب سے افشاء کرنے کی کوشش نہیں کی گئی چونکہ اس جنگ بندی میں صرف اور صرف اسرائیل کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ دنیا کی اہم ترین اور طاقتور دفاعی قوت کو معمولی عسکری قوت کے آگے کیوں گھٹنے ٹیکنے پڑے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ڈھائی ہزار سے زائد فلسطینیوں کی نعشیں ان کے اہل خانہ تک پہنچی تو صرف بعض مقامات پر آہ و بکا کی صورتحال دیکھی گئی جبکہ بیشتر خاندان ان شہادتوں پر فخر کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ وہ نہیں چاہتے کہ مزید قید و بند کی زندگی گزاری جائے لیکن اس کے برعکس جب ایک اسرائیلی شہر کے گھر پر چھوٹا سا راکٹ حملہ ہوتا ہے اور اس سے صرف مکان کی دیوار کو نقصان پہنچتا ہے تو اسرائیلی شہروں میں خطرے کے سائرن بج اٹھتے ہیں ۔ فلسطینی عوام جو خطروں سے کھیلنے کے عادی بن چکے ہیں انہیں جنگی خوف نہیں ہے اور نہ ہی وہ موت سے خوف زدہ ہیں جبکہ اسرائیلی افواج و یہودی شہریوں کو نہ صرف زندگی سے محبت ہے بلکہ وہ خوف کے عالم میں ہی زندگی گزاررہے ہیں ۔ اسلحہ کی بڑی عصری ٹیکنک رکھنے کے باوجود اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی پر رضامندی بلکہ اسرائیلی حکومت کا جنگ بندی کیلئے پہل کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اخلاقی بنیادوں پر اسرائیل جنگ کے دوران ہی شکست فاش کھاچکا تھا اور اسے اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ دنیا میں جو خاموش طوفان اسرائیل کے خلاف بپا ہورہا تھا وہ کسی بھی وقت اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے ۔

شہید عزالدین القسام بریگیڈ کی جانب سے حماس کی قیادت میں لڑی گئی اس 51 روزہ جنگ کے دوران القسام بریگیڈ کے کئی مجاہدین شہید ہوئے اور فلسطینی عوام جو ان مجاہدین کے شانہ بہ شانہ ان کی حوصلہ افزائی کررہے تھے وہ بھی جاں بحق ہوئے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسکولوں اور دواخانوں پر حملے کرتے ہوئے اسرائیل نے درندگی کا جو مظاہرہ کیا اس میں کئی معصوم بچے اور خواتین کی بھی اموات واقع ہوئیں ۔ لیکن فلسطینیوں کا حوصلہ اور القسام بریگیڈ کی عسکری تیاری نے اسرائیل کو بات چیت کیلئے نہ صرف مجبور کیا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی دفاعی قوت سمجھی جانے والی حکومت نے حماس کے شرائط کو قبول کرتے ہوئے طویل مدتی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی جو کہ حماس کی نہ صرف اخلاقی فتح ہے بلکہ فلسطینی عوام کے حوصلے اور ان کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ہے ۔

اسماعیل ھنیہ اور خالد مشعل کی زیرقیادت لڑی گئی اس جنگ کے دوران اسماعیل ھنیہ نے غزہ میں ایک سے زائد مرتبہ اپنے عوام کے درمیان نمودار ہوتے ہوئے عوام کی نبض کا جائزہ لیا اور شہید عزالدین القسام بریگیڈ کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔ جس وقت مصر نے بات چیت کے عمل کا آغاز کیا اس دوران بھی القسام بریگیڈ نے اطمینان کی سانس نہیں لی بلکہ وہ محاذ پر ڈٹے رہے اسی طرح فلسطینی عوام نے اپنی قیادت پر کامل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے محاذ آرائی کے دوران ہونے والی تکالیف کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنے کا اعلان کیا ۔ اس 51 روزہ جنگ میں فلسطین نے کئی اپنوں کو بیگانہ پایا اور کئی بیگانوں کو اپنا محسوس کیا ۔ فلسطینیوں کے ان احساس کی ترجمانی اس وقت ہوئی جب خود فلسطینی اتھاریٹی کے سربراہ کی جانب سے جنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا اور جنگی حالات کے دوران امریکی اسٹیٹ سکریٹری جان کیری سے ملاقات کے موقع پر حماس کی کارروائیوں کو افسوسناک قرار دیا گیا ۔ اسی طرح کئی عرب ممالک کے ذمہ داران کی جانب جہاں فلسطینیوں کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں کہ شاید اسرائیلی درندگی کے خلاف ان عرب ممالک کی زبانوں میں جنبش پیدا ہوگی، لیکن عرب ممالک میں نہ حکمراں طبقہ کی جانب سے اسرائیل کی شدت سے مذمت کی گئی اور نہ ہی عوام نے فلسطینیوں کی حمایت میں کوئی مظاہرہ کیا جبکہ کئی مغربی ممالک بالخصوص لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک نے نہ صرف فلسطینی عوام سے اظہار یگانگت کیا بلکہ اسرائیل کی مذمت کی ۔ لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انسانیت کو شرمسار ہونے سے بچایا ۔ اس صورتحال کے دوران پاکستان ‘ ہندوستان کے علاوہ چین و جاپان جیسے ممالک کا موقف انتہائی اہمیت کا حامل تھا ۔ ان 51 ایام میں ان ممالک کی جانب سے کوئی ایسا موقف اختیار نہیں کیا گیا جس سے یہ احساس ہوسکے کہ یہ ممالک مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت کررہے ہیں ۔ اسرائیل نے جن شرائط پر بھی ہو طویل جنگ بندی پر جو رضامندی ظاہر کی ہے اس کی برقراری غزہ کی تعمیر نو کیلئے ضروری ہے چونکہ تعمیر نو کے آغاز کی صورت میں اگر دوبارہ جنگی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ایک مرتبہ پھر غزہ تباہ جائے گا ۔

حماس کی قیادت میں جنگ بندی کیلئے جو شرائط رکھے تھے ان شرائط پر اسرائیل نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے مطالبات قبول کئے ہیں اس اعتبار سے آئندہ 30 یوم میں اسرائیل کو 7000 فلسطینی قیدی رہا کرنے ہوں گے جو اسرائیل کی جیلوں میں صعوبتیں برداشت کررہے ہیں ۔ حماس کے مطالبات میں غزہ کے محاصرہ کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ شامل تھا جسے اسرائیل نے قبول کرتے ہوئے یہ اعتراف کرلیا کہ غزہ کے حدود میں موجود زیرزمین راستوں اور سرنگوں کو ختم کرنے کا متحمل نہیں ہے ۔ حماس نے ان مطالبات کے ساتھ ساتھ غذائی اجناس و ادویات کی آزادانہ حمل و نقل کو یقینی بنانے کے علاوہ رفح سرحد کی کشادگی کا مطالبہ کیا تھا ۔ ان مطالبات کو بھی اسرائیل نے من و عن قبول کرلیا ۔ علاوہ ازیں حماس کی قیادت نے غزہ سے جڑے سمندر میں ماہی گیروں کو شکار کی اجازت فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا جس پر اسرائیلی حکومت نے 6 میل تک ماہی گیروں کو اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی ۔ آئندہ چند یوم میں مزید 6 میل سمندری حدود میں شکار کی اجازت دیئے جانے کا وعدہ بھی اس معاہدے میں شامل ہے ۔ ان شرائط کی تکمیل کے بعد جنگ بندی سے غزہ کی عوام میں خوشی اور جشن کا ماحول پیدا ہونا فطری بات ہے چونکہ جو لوگ برسوں سے ایک کھلی جیل میں زندگی گزاررہے تھے انہیں نہ صرف آزادی میسر آئی ہے، بلکہ وہ نئے معاہدے کی روشنی میں سرزمین مقدس القدس کا سفر بھی کرسکتے ہیں ۔ ان شرائط کو قبول کرتے ہوئے معاہدہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسرائیل جنگی شکست تسلیم کرچکا ہے لیکن وہ اس خفت کو مٹانے کیلئے اب شام کے علاقے گولان کی پہاڑیاں جو کہ اسرائیلی قبضے میں ہے ان علاقوں پر توجہ مرکوز کیا ہوا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دعوے کرتا جارہا ہے کہ جنوبی لبنان سے اسرائیلی دفاعی نظام پر راکٹ حملے کئے جارہے ہیں ۔ موجودہ صورتحال کے دوران ایران کی جانب سے اسرائیل کے جاسوسی طیارے کو مار گرانے کے بعد اسرائیل کی جانب سے اختیار کردہ یکلخت خاموشی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل فی الحال کسی اور جنگی صورتحال کا سامنا کرنا نہیں چاہتا ۔

ہندوستان و پاکستان کی جانب سے اگر اس جنگی شورش کے دوران ذمہ دارانہ کردار ادا کیا جاتا تو شاید مظلوم فلسطینیوں پر ظلم کی داستان اس مرتبہ 51 یوم طویل نہیں ہوتی بلکہ اندرون ایک ماہ اسرائیل فلسطینیوں کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے جنگ بندی پر راضی ہوجاتا ، لیکن برصغیر میں طاقتور موقف کے حامل اور عرصہ دراز سے فلسطینی کاز کے حامی ملک ہندوستان کی جانب سے اختیار کردہ موقف کے باعث راست تو نہیں بالواسطہ طور پر اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔ پاکستان کی داخلی سیاسی شورش نے حکمرانوں کو مظلوم فلسطینیوں کی جانب توجہ مرکوز کرنے کا وقت نہیں دیا لیکن ان تمام حالات کے باوجود ترکی کے نومنتخبہ پہلے عوامی صدر رجب طیب اردغان نے اپنی کامیابی کے فوری بعد اس بات کا اعلان کیا کہ غزہ کے زخمیوں کا علاج ترکی میں کیا جائے اور تمام مصارف ترکی برداشت کرے گا ۔ پاکستان کے داخلی صورتحال کیلئے کون ذمہ دار ہیں یہ ایک طویل بحث کا موضوع ہے لیکن پاکستان کے حکمراں طبقہ کے ساتھ ساتھ دیگر ماہرین کا یہ احساس ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران پاکستان میں شورش ایک سازش کا حصہ تھی تاکہ پاکستان کو غزہ یا فلسطین کی حمایت سے باز رکھا جائے ۔ یہ بات کہاں تک درست ہے یہ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اس بات کو تقویت اس لئے حاصل ہورہی ہے چونکہ جیسے ہی حماس اور اسرائیل نے جنگ بندی تسلیم کی اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے حالات بھی معمول پر آنے لگے ہیں ۔ غزہ کے عوام بالخصوص ماؤں اور بہنوں کی جانب سے القسام بریگیڈ کے مجاہدین کی واپسی پر پھول برساتے ہوئے ان کا استقبال اور حماس قائد و وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کے شہید مجاہدین کے ورثاء و لواحقین سے ملاقات کی جذباتی کیفیات عالمی میڈیا نے عوام کی نظروں سے اوجھل کررکھی ہے لیکن جہاں کہیں یہ تصاویر دستیاب ہورہی ہیں ان میں قائد کا خلوص اور قوم کا جذبہ واضح نظر آرہا ہے جو کہ آئندہ بھی دشمن کے حوصلوں کو کمزور کرنے کیلئے کافی ہے ۔