غزہ سٹی۔ پچھلے ہفتے غزہ کی سرحد پر احتجاج کے دوران اسرائیلی فوج کی گولی کا شکار 19سالہ فلسطینی نوجوان جمعرات کے روز زخموں سے جانبر نہ ہوسکا‘ مذکورہ نوجوان کی موت کی اطلاع فلسطین کے وزرات صحت نے دی۔
مارچ میں غزہ سرحد پر شروع ہوئے احتجاج میں ابو انس عصیر کی موت کا واقعہ اسرائیلی افواج کے لئے ہتھیار کا ذریعہ ہے کیونکہ احتجاج کے آغاز کے بعد سے اب تک 30سے49فلسطینی جاں بحق ہوگئے ہیں اور فائیرنگ میں سینکڑوں زخمی ہیں۔
وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدری نے کہاکہ’’ عصیر کو اپریل 27کے روز ایسٹ غزہ شہر میں گولی ماری گئی تھی‘‘۔
کوئی بھی اسرائیلی زخمی نہیں ہوا ہے اور فوج نے احتجاجیوں پر تصاد م کے دوران زندہ کارتوس استعمال کئے ہیں جس کی وجہہ سے تنازع پیدا ہورہا ہے اور آزادنہ تحقیقات کا مطالبہ کیاجارہا ہے۔ اسرائیل نے کہاکہ حملے کو روکنے ‘ اور سرحد کی باڑ کو نقصان پہنچانے کی صورت میں ہی فائیرنگ کی گئی ہے۔
مبینہ طور پر یہ بھی کہاجاتا ہے کہ حماس جو کہ اسلامی تحریک ہے اور غزہ پٹی پر اس کا اقتدار ہے اور 2008سے اب تک تین جنگیں کی ہیں احتجاجیوں کو تشدد کے لئے اکساتا ہے۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ فوجیوں کا خطرہ نہ ہونے کے باوجود بھی ان پر فائیرنگ کی گئی ہے۔پچھلے چھ ہفتوں سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور مئی کی وسط میں اس کا اختتام عمل میں ائے گا‘ اسی دوران امریکہ نے تل ابیب سے یروشلم اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کی تیاری کررہی ہے۔اس اقدام سے فلسطیینیوں میں بڑی برہمی ہے ۔