غزل گلوکاری کا جادوگر جگجیت سنگھ

دیپک سنگھ
جب صوفیائے کرام نے گیت اور سنگیت کی اس سرزمین پر قدم رکھا تو انہوں نے بھی اپنا روحانی اور انسانی دوست پیغام ہندوستانی شہریوں تک پہنچانے کے لئے موسیقی کا ہی سہارا لیا ۔ چنانچہ چشتی سلسلہ نے توحید کا پیغام پہنچانے قوالیاں استعمال کیں ۔ صوفیانہ کلام کی روایت ان ہی بزرگان دین کے ورثہ کے طور پر صدیوں سے اس خلوص و محبت کی سرزمین اپنی پوری تابانی سے آج بھی برقرار ہے ۔ غزل عشق و محبت کی زبان ہے ۔ دل سے نکلی ہوئی آواز ہے جو دلوں میں اتر جاتی ہے ۔ غزل اگر ساز پر پیش کی جائے اور پیش کرنے والا جگجیت سنگھ جیسا غزل گلوکار ہو جس کی آواز میں وہ درد و سوز شامل ہو جو پتھر دلوں کو بھی پگھلا کر موم کردے تو پھر اس غزل ، ساز اور پرسوز آواز کا جادو سامعین کے سر چڑھ کے بولتا ہے ۔ جگجیت سنگھ کو اس دار فانی سے کوچ کئے کئی سال بیت گئے لیکن ان کی غزل گلوکاری ان کے شیدائیوں کے دل پر آج بھی راج کررہی ہے اور جب تک اچھے کلام ، موسیقی اور پرسوز آواز کا حسین امتزاج باقی رہے گا ۔
جگجیت سنگھ جیسے انمول غزل گلوکار کا تحفہ 8 فروری 1941 کو گیت اور سنگیت کے شیدائیوں کی سرزمین راجستھان کے علاقہ سری گنگا نگر نے ہندوستان کو دیا تھا ۔ راجستھان جس کے ذرے ذرے میں سنگیت کا بسیرا ہے جہاں کے کلاسیکی گلوکاروں نے عالمگیر شہرت حاصل کی ہے ۔ اسی راجستھان کا یہ سپوت جس کا پیدائشی نام جگموہن سنگھ تھا جسے ان کے سکھ والد نے اپنے گرو کی ہدایت پر نام تبدیل کرکے جگجیت سنگھ کردیا ۔ ان میں ایسی پیدائشی صلاحیت تھی جس نے اس ’’جگ کو جیت‘‘ لیا ۔ اس صلاحیت کا احساس سب سے پہلے ان کے والد کو ہوا اور انہوں نے جگجیت کی اس موسیقی کی صلاحیت کو جلا بخشنے انہیں ماہر موسیقی پنڈت چھگن لال شرما کے سپرد کردیا ۔ جگجیت موسیقی کے بارے میں اپنا ایک نظریہ رکھتے تھے ۔ موسیقی ان کے لئے وجدان کا سرچشمہ تھی ، مسابقت کا ذریعہ نہیں ۔ وہ جب غزل گلوکاری میں کھوجاتے تھے تو ان کے دل و دماغ میں دور دور تک مسابقت کا خیال نہیں ہوتا تھا ۔ وہ مسابقت کی دوڑ کے قائل ہی نہیں تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مسابقت موسیقی کی روح کو ختم کردیتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا  موسیقی ایک وسیع موضوع تھا جس کے قواعد و ضوابط تھے اور اس کی مکمل معلومات کے بغیر اچھی گلوکاری ناممکن ہے۔ فنون لطیفہ کی جامع تعریف علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں کی ہے ۔
رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
جگجیت سنگھ کی غزل گلوکاری میں ان کا  خون جگر بھی شامل تھا ۔ چنانچہ ان کی غزل گلوکاری صرف گلوکاری نہیں بلکہ فن گلوکاری کا معجزہ بن گئی تھی ۔ گلوکاری کی اس خداداد صلاحیت کے باوجود جگجیت سنگھ کو اس میدان میں اپنا سکہ جمانے کے لئے سخت جدو جہد کرنی پڑی ۔ غزل گلوکاری کی یہ جد وجہد جالندھر سے عروس البلاد ممبئی تک پھیلی ہوئی ہے ۔ وہ 1961 سے 1965 تک مسلسل 5 سال آل انڈیا ریڈیو جالندھر پر اپنی غزل گلوکاری کا جادو جگاتے رہے ۔ 1965 ء میں دوبارہ قسمت آزمانے ممبئی پہنچے ۔ دو سال بعد ان کی ملاقات اپنے خوابوں کی شہزادی چترا سے ہوئی جو انہی کی طرح غزل اور موسیقی کی شیدائی تھیں ۔ 1970 میں غزل اور موسیقی کے یہ دونوں شیدائی شادی کرکے ایک جان دو  قالب بن گئے ۔ 1975 میں جگجیت اور چترا کی غزل گلوکاری کا پہلا مشترکہ البم ریکارڈ کیا گیا ۔ یہ ان کے کیریئر کا اہم اور حسین موڑ تھا ۔ اس کے بعد تو اس جوڑی نے اپنی عام ڈگر سے ہٹی ہوئی مختلف اور منفرد غزل گلوکاری کے ذریعہ دھوم مچادی ۔
جگجیت سنگھ کی غزل گلوکاری کی بنیاد کلاسیکی سنگیت پر تھی چنانچہ وہ اپنی غزل گلوکاری میں اس راگ کا بھرپور خیال رکھتے تھے ۔ ایسا کبھی  نہیں ہوا کہ ان کی غزل کا آغاز کسی ایک راگ سے ہوا ہے ، لیکن بعد کے اشعار مختلف راگوں میں گائے جائیں ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی غزل گلوکاری بھی اپنا منفرد انداز رکھتی تھی ۔ ہونٹوں سے نکلی اور دل و دماغ میں اتر جاتی ۔ غالب بہت مشکل پسند شاعر تھے ۔ ان کے اکثر اشعار آسانی سے سمجھ میں نہیں آتے لیکن یہ بھی جگجیت سنگھ کی غزل گلوکاری کا کمال تھاکہ وہ غالب کی غزلیں اس طرح گاتے کہ غالب کے مشکل سے مشکل اشعار آسانی سے سامعین کے دل و دماغ میں سماجاتے ۔ یہی وجہ تھی کہ جگجیت سنگھ مقبول ترین فنکار تھے اور ان کی غزل گائیکی کے پروگراموں میں غزل کے مداحوں کا ہجوم ہوا کرتا تھا ۔
جگجیت سنگھ کے یادگار گیتوں میں سے چند گیت یہ ہیں ’’ہونٹوں سے چھولو تم‘‘ (پریم گیت) ’’تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا‘‘ (ساتھ ہی ساتھ) اور ’’ہوش والوں کو خبر کیا‘‘ (سرفروش) ہیں ۔ اردو غزل کو زندگی کی حقیقتوں سے قریب کرنے والے یکتائے روزگار شاعر مرزا غالب کے کلام کی ساز پر پیشکش میں جگجیت سنگھ کا ثانی نہیں ہے ۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ عصر حاضر کے بے مثال شاعر گلزار غالب کی چند غزلوں کی دھنیں تیار کررہے تھے ۔ اگر وقت نے انہیں مہلت دی ہوتی تو یہ بھی ایک یادگار زمانہ کارنامہ ہوتا ۔ افسوس کہ غزل اور موسیقی کے شیدائی سے محروم رہ گئے ۔ جگجیت سنگھ نے دنیا بھر میں اپنے موسیقی ریز پروگرام پیش کئے ۔ ان کا انداز ناقابل فراموش تھا ۔ ان کی غزل گائیکی کا انداز اتنا متاثرکن تھا کہ سامعین کی آنکھیں نم ہوجاتیں ۔ پوری دنیا میں اردوداں اور ہندی داں عوام کو اپنی گلوکاری اور موسیقی سے مسحور کردینے والا یہ مثال فنکار جگجیت سنگھ آج سے چند سال قبل دنیائے فانی سے کوچ کرگیا ۔