غریب گاؤں والے، مدرسے والے پڑھ رہے ہیں اور حیدرآبادی…

محمد مصطفیٰ علی سروری
منوج کمار راوت کا تعلق شیام پورہ سے ہے ۔ شیام پورہ جئے پور کے نزدیک ایک گاؤں ہے ۔ منوج کمار کے والد ایک ٹیچر ہیں اور ان کے تین بیٹے ہیں۔ صرف 19 سال کی عمر میں منوج کمار نے راجستھان پولیس میں کانسٹبل کی نوکری حاصل کرلی تھی، ایک گاؤں کے لڑ کے کیلئے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہوسکتی ہے کہ وہ پولیس میں نوکری حاصل کرلیا ہو لیکن منوج کمار نے کچھ عرصہ کانسٹبل کی نوکری کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا کیونکہ اس کے بھائی نے بھی کانسٹبل کی نوکری حاصل کرلی تھی تب لوگوں نے سمجھا کہ یہ کام نہیں کرنا چاہتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا ۔ گاؤں کے اس لڑ کے نے جب کانسٹبل کی نوکری شروع کی تو اس نے دیکھا کہ جس پولیس ڈپارٹمنٹ میں وہ کام کر رہا ہے وہاں کا سب سے بڑا افسر ایک آئی پی ایس ہوتا ہے تو اس نے اپنے دل میں ارادہ کرلیا کہ وہ بھی پولیس میں کام کرے گا مگر کانسٹبل کے طور پر نہیں بلکہ ایک آئی پی ایس افسر کے طور پر ۔ بس یہیں سے منوج کمار کی زندگی میں ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے ۔ لوگ تو اس کو بے وقوف سمجھتے تھے کہ ہاتھ آئی سرکاری نوکری کو اس نے چھوڑ دیا لیکن منوج کمار نے اخبار انڈین اکسپریس کو بتلایا کہ ’’میں ایک نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ مجھے شروع سے ہی معلوم ہے کہ مجھے سخت محنت کرنی ہے اور ہر موقع کا بھر پور استعمال کرناہے۔ جب میرے بھیا کو پولیس میں نوکری لگ گئی تو میں نے طئے کرلیا تھا کہ مجھے سیول سرویسز کا امتحان لکھناہے ۔ اس لئے منوج کانسٹبل کی نوکری چھوڑ کر سیول سرویس کے امتحان کی تیاری میں لگ گیا ۔ دس برس بیت گئے لیکن منوج نے اپنا ٹارگٹ نہیںبدلا ۔ اپنے اخراجات خود پورا کرنے کیلئے دو اور نوکریاں کی اور بالآخر جب یو پی ایس سی (UPSC) نے 2017 ء کے نتائج کا اعلان کیا تو منوج کمار نے (824) رینک حاصل کرتے ہوئے سیول سرویس کا امتحان پاس کرلیا۔
فلمیں دیکھ کر نوجوانوں کو بگڑتے ہوئے بہت سارے لوگوں نے دیکھا ہے لیکن راجستھان کا منوج شائد ایسا پہلا نوجوان ہے جس نے انڈین اکسپریس کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بتلایا کہ ’’سنی دیول کی فلم انڈین دیکھنے کے بعد ہی میں نے ایک آئی پی ایس آفیسر بننے کی ٹھان لی تھی ‘‘ ۔ منوج کمار نے سیول سرویس امتحان کی تیاری کیلئے اپنی سرکاری نوکری کو تو چھوڑدیا مگر پڑھائی کے سلسلے کو جاری رکھا اور مرکزی حکومت کی (JRF) جونیئر ریسرچ فیلوشپ اسکالرشپ سے اپنے تعلیمی اخراجات کو خود پورا کرتے ہوئے منوج نے امبیڈکر کے موضوع پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی پورا کرلیا ہے اور جلد ہی وہ اپنے مقالے کوامتحان کیلئے داخل کردے گا۔
قارئین اکرام یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جس نے بالکلیہ صفر سے اپنے کیریئر کی شروعات کی تھی پھر کانسٹبل بنا اور اب ایک آئی پی ایس افسر بننے جارہا ہے ۔ مثالیں ترغیب کیلئے دی جاتی ہیں اور منوج کمار کے والد تو ایک ٹیچر تھے جس کے سبب انہیں اپنے بچے کو تعلیم کی طرف رغبت پیدا کرنے اور ان کی تربیت میں آسانی میسر آئی لیکن والدین اگر خود بھی تعلیم یافتہ نہ ہوں تب بھی وہ اپنے بچوں کیلئے بہت بڑی تحریک کا سبب بن سکتے ہیں۔
کشل دان رتنو کی عمر 60 برس ہے ۔ ان کا تعلق راجستھان کے جئے سلمیر ضلع سے ہے ، اپنے گا ؤں کے چوراہے پر کشل دان ایک چائے کی دکان چلاتا ہے ۔ اس چائے والے کے 28 سالہ لڑکے وشال نے یو پی ایس سی (UPSC) کے امتحان میں پہلی مرتبہ شرکت کی اور پہلی مرتبہ میں ہی 82 واں رینک حاصل کرلیا ۔ یو پی ایس سی امتحان کو ہندوستان کا سب سے مشکل امتحان سمجھا جاتا ہے ۔ کشل دان نے خود اپنی ساری زندگی میں کوئی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن خود چائے بناکر بیچتا رہا اور اپنے بچوں کو پڑھنے کی ترغیب و ہمت دلاتا رہا ۔ خبر رساں ادارے پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے راجستھان کے اس چائے والے نے بڑے فخر سے بتلایا کہ میں نے اپنے خاندان کیلئے بہت محنت کی ، میرے بچوں کو ملنے والی کامیابی اس کا نتیجہ ہے ۔ مجھے بہت خوشی ہوئی جب میرے ہاں چائے پینے والے لوگ میرے لڑکے کی محنت اور کامیابی کا ذکر کرتے ہیں ۔ کشل دان نے چائے بیچ کر اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کئے ۔ اخبار ہندوستان ٹائمز کی 28 اپریل کی رپورٹ کے مطابق اس چائے والے نے قرض بھی لیا تاکہ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورا کرسکے ۔ یوں دنیا نے دیکھا کہ ایک باپ نے جو کہ خود چائے خانہ چلاتا ہے ۔ اپنے بچوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کے خواب دیکھے تھے جو کہ اس کے بچوں نے پورا بھی کر دکھائے۔
قارئین اکرام اگر آپ حضرات یہ سوچ رہے ہیں کہ ادھر ادھر سے دو ایک غریب لوگوں کے بچوں کی کامیابی کی کہانیاں سناکر میں آخر کیا کہنا چاہتا ہوں تو عرض ہے کہ میں آج کے اس کالم میں اس بات کی کوشش کر رہا ہوںکہ نوجوان نسل اور ان کے سرپرستوں کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ کامیابی کبھی بھی اتفاقی نہیں رہتی ہے اور محنت کرنے والے ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ مانکیلے کی عمر 25 سال ہے ۔ بیڑ مہاراشٹرا کے اس نوجوان کی 75 فیصدی بینائی ضائع ہوچکی ہے ۔ اس کو صرف دھندلا دھندلا سا دکھائی دیتا ہے ۔ اپنی بینائی سے جزوی طور پر محروم ہونے کے باوجود اس واٹر پمپ آپریٹر کے لڑکے نے ملک گیر سطح کے یو پی ایس سی امتحان میں کامیابی حاصل کی اور (923) واں رینک حاصل کرلیا ۔ اپنی آنکھوں کی 75 فیصدی بینائی کھودینے کے باوجود مانکیلے نے کامیابی کے حصول کیلئے اپنا جذبہ اور ارادہ نہیں چھوڑا ۔ مانکیلے کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ دوسرے نابینا لوگوں کی طرح (Audio Book) صوتی کتابیں یا اسکریین ریڈر کا سافٹ ویر خرید سکے ۔ مانکیلے نے آل انڈیا ریڈیو کے پروگرام سن سن کر لوک سبھا ٹی وی اور راجیہ سبھا ٹی وی کے پروگراموں کے ذریعہ حالات حاضرہ (Current affairs) کی معلومات حاصل کی ۔ کتابیں ملتی بھی تو پڑھنا بڑا دشوار ہوتا تھا ۔ مانکیلے ان کتابوں کی موبائیل فون پر فوٹوز لیتا اور پھر ان فوٹوز کو (Zoom) کر کے پڑھنے کی کوشش کرتا تھا اور سب سے تعجب کی بات تو یہ ہے ہندوستان کے سب سے مشکل سمجھے جانے والے اس امتحان کے لئے مانکیلے نے کہیں سے کوچنگ نہیں لی اور ساری تیاری خود اپنے طور پر کی ۔ مانکیلے کی پریشانیاں اسی وقت مزید بڑھ گئی جب امتحانات سے پہلے اس کے والد گزر گئے ۔ مانکیلے کی ماں اور بہن نے پریشانی کے اس ماحول میں اچار بنایا ، پاپڑ بیلے اور مصالحے بناکر بازار میں بیچے اور گھر کے اخراجات کا سارا بیڑہ خود اٹھایا اور مانکیلے کو پڑھنے کے لئے مددکی ۔ مانکیلے نے کالج کی تعلیم کیلئے قرض لیا جس کو ابھی چکانا باقی ہے ۔ اب (923) واں رینک حاصل کر کے مانکیلے ایک (IFS) آفیسر بننا چاہتا ہے اور سب سے پہلے اپنا تعلیمی قرضہ واپس کرنا اس کی (Priority) ہے۔ قارئین مانکیلے کی اس کامیابی نے ثابت کیا کہ معذوری بھی کسی نوجوان کو آگے بڑھنے ، محنت کرنے اور مشکل ترین امتحان میں کامیابی سے نہیں روک سکتی ۔
یہی نہیں اس برس کے یونین پبلک سرویس کے نتائج نے ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا جو مدرسہ کے بچوں پرطنز کرتے تھے کہ یہ لوگ مدرسہ سے فراغت کے بعد کیا کریں گے ۔ ٹی شاہد کا تعلق کیرالا کے کوذی کوڈ ضلع سے ہے ۔ شاہد نے کبھی بھی مین اسٹریم اسکول کا منہ نہیں دیکھا تھا ، دیکھتا بھی کیسے ، خود شاہد کے والد عبدالرحمن ایک مدرسہ میں معلم تھے ۔ انہوں نے اپنے بچے کو بھی مدرسہ سے پڑھایا۔ 12 برسوں تک مدرسے میں پڑھنے کے بعد شاہد نے ’’حسنی‘‘ سند حاصل کی اور خود مدرسہ میں پڑھانے لگا۔ مدرسہ کے ساتھ ساتھ شاہد نے فاصلاتی طرز میں ایک ڈگری کا کورس بھی مکمل کرلیا ۔ سال 2010 ء تا 2012 ء تک اس نے خود ایک مدرسہ میں 6 ہزار کی تنخواہ پر کام کیا ۔ سال 2012 ء میں ڈگری پاس کرنے کے بعد شاہد نے ملیالی روزنامہ چندریکا میں کام کرنا شروع کیا اور اسی ملازمت کے دوران اس نے فیصلہ کیا کہ اسے مدرسہ کے باہر کی دنیا میں اپنا نام ثابت کرنا ہے ۔ شاہد نے مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی کی سیول سرویس کوچنگ اکیڈیمی میں Prelims) )کیلئے داخلہ لیا اور پھر UPSC یو پی ایس سی کے نتائج میں شاہد کا نام 693 نمبر پر تھا ۔ شاہد نے اخبار انڈین اکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے بتلایا کہ ’’مدرسہ بھی سیول سرونٹس تیار کرسکتے ہیں۔ تلنگانہ اور شہر حیدرآباد کے وہ لوگ جو یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں کیا ہے ؟ ان کو بتلاتا ہوں کہ آپ حضرات سوال کرتے ہی رہ گئے لیکن ملک بھر سے طلباء اعلیٰ تعلیم اور مسابقتی امتحانات کی تیاری کیلئے اردو یونیورسٹی کا رخ کر رہے ہیں۔ ٹی شاہد نے کیرالا سے حیدرآباد آکر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں دی جانے والی سیول سرویسز کی کوچنگ سے استفادہ کیا اور آج ایک سیول سرونٹ بننے کیلئے تیار ہے ۔
زکوٰۃ فاؤنڈیشن نے دس برس پہلے سیول سرویس کیلئے کوچنگ دینے کا سلسلہ شروع کیا ۔ اس برس زکوٰۃ فاؤنڈیشن کی کوچنگ سے استفادہ کرنے والے 26 مسلم طلباء نے سیول سرویس کا امتحان پاس کیا جس میں 9 طلباء اترپردیش سے ہیں۔ 8 طلباء کیرالا سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2 طلباء بہار کے ہیں۔ جموں و کشمیر کے بھی 3 طلباء نے زکوٰۃ فاؤنڈیشن کی کوچنگ سے استفادہ کیا اور کامیابی حاصل کی۔
بھارت کے غریب شہری پڑھ رہے ہیں۔ بھارت کے معذور شہری محنت کر کے آئی اے ایس بننے کا امتحان پاس کر رہے ہیں ۔ کیرالا کے مدرسہ کے فارغین یو پی ایس سی کا امتحان لکھنے کے بعد کامیابی حاصل کر رہے ہیں اور شہر حیدرآباد کی لڑکیاں بھی پڑھ رہی ہیں۔ جمیل فاطمہ زیبا کا تعلق ٹولی چوکی حیدرآباد سے ہے، اس لڑکی نے 62 واں رینک حاصل کرتے ہوئے تاریخ رقم کی ہے ۔ اس لڑ کی نے اخبار تلنگانہ ٹوڈے کو بتلایا کہ میں واٹس اپ کے ذریعہ رچہ کنڈہ پولیس کمشنر سے یو پی ایس سی کے انٹرویو کی تربیت حاصل کی ۔ ہماری لڑکیاں واٹس اپ کے ذریعہ بھی سیکھ کر اپنا کیریئر بنارہی ہیں اور لڑ کے کیا کر رہے مجھ سے مت پوچھئے ۔ اپنے اڑوس پڑوس میں نظر ڈالیئے اور سوچئے ؟ ایسا کیوں؟ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو علم نافع عطا فرمائے اور ہمارے لڑکوں کو بھی پڑھنے والا بنادے۔ آمین
sarwari829@yahoo.com