محمد مبشرالدین خرم
ہندوستان کو ایک رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف گاندھیائی نظریہ کی ابتداء سے رہی ہے اور آخری دم تک یہ جنگ جاری رہے گی ۔ ہندوستان میں تہذیب و لسانی ملک ہے اور اس ملک میں ہر نسل ، ذات ، مذہب کے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ جب تک سماج میں موجود تمام طبقات کو ان کے حقوق نہیں ملتے، اس وقت تک ترقی کا تصور محال ہے۔ معروف ہدایتکار و سماجی جہد کار مہیش بھٹ نے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران ان خیالات کااظہار کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ مساوات کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ متمول طبقہ آزادی ، اظہار خیال کی بات کرے بلکہ سماج کے غریب طبقہ کو غربت کی گہری کھائیوں سے نکال کر جب تک سماجی دھارے میں نہیں لایاجاتا ، اس وقت تک متمول طبقہ بھی چین کی نیند نہیں سوپائے گا ۔ مہیش بھٹ نے کہا کہ محلوں میں رہنے والے جب تک محل کے ساتھ سلم بستیوں میں رہنے والوں کی ترقی کا منصوبہ تیار نہیںکریں گے ، اس وقت تک امیر و غریب کے درمیان موجود اس دیوار کو منہدم نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ سلم بستی میں رہنے والے سے محلوں میں رہنے والے نظریں بچاکر نکل سکتے ہیں لیکن جب سلم بستی میں بیماریوں سے متاثر ہونے والا ایک بچہ کسی وبائی بیماری کے ساتھ محل تک رسائی حاصل کرجائے تو کوئی بھی اس سے بچ نہیں پائے گا اس لئے جن لوگوں کے پاس استطاعت ہے انہیں چاہئے کہ سماج کو نہ صرف بیماریوں سے پاک بنانے کیلئے کوشش کریں بلکہ غربت کے خاتمہ کیلئے بھی اپنے طور پر سہی اقدامات کرتے رہیں مہیش بھٹ نے ایک عظیم ترقی پسند معاشرہ کیلئے اس کے خاتمہ کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب ہر شخص بالخصوص حکومت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ان امور پر خدمات انجام دینے کا آغاز کردے تو ایسی صورت میں اس ملک سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ تعلیم معاشرتی نظام کو بدلنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اسی لئے امیر طبقہ کو اپنے بچوں کے ساتھ غریب بچوں کی تعلیم کے متعلق بھی فکر مند ہونا چاہئے ۔ اسی طرح صحت مند زندگی جینے کا ہر کسی کو حق حاصل ہے ،
خواہ وہ امیر ہو یا غریب تمام انسانوں کو صحتمند زندگی کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہئے ۔ مہیش بھٹ جو کووا کی جانب سے منعقدہ ایک مذاکرے میں شرکت کیلئے حیدرآباد آئے تھے ۔ انہوں نے ریاست کی تقسیم اور تشکیل تلنگانہ کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی تقسیم ہوئی ہے تو دلوں کو منقسم نہیں کیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے بتایا کہ دل وہی ہیں کمرے تبدیل ہوچکے ہیں تو ایسے میں دلوں میں رنجش پیدا نہیں ہونی چاہئے ۔ مہیش بھٹ نے تلنگانہ کی ترقی کے متعلق کہا کہ ابھی ریاست وجود میں آئی ہے ، ترقی کیلئے انتظار تو کرنا پڑیگا چونکہ جو چیز طویل جدوجہد سے حاصل کی جاتی ہے اسے سنبھال کر رکھنے کیلئے اس سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ اسی لئے ریاست تلنگانہ کیلئے جو جدوجہد کی گئی ہے اس کے بعد ریاست سے کئی توقعات بھی وابستہ ہوئے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے لیکن ان توقعات کو پورا ہونے میں وقت لگتاہے اسی لئے زمانے میں آئے اس انقلاب کی ترقی کیلئے متحدہ کوشش کی جانی چاہئے ۔ مہیش بھٹ نے بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ نئی ریاست تلنگانہ ترقی کرے گی چونکہ اس کے حصول کیلئے جو قربانیاں دی گئی ہیں وہ قابل رشک ہیں اور جب کوئی شئے قربانیوں کے بعد حاصل ہوتی ہے تو اس کی ترقی کیلئے بھی قربانی کا جذبہ برقرار دیتا ہے ۔ ملک میں فروغ حاصل کر رہی فرقہ واریت کے متعلق کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے مہیش بھٹ نے کہا کہ ملک میں جونظریہ نفرت پھیلاتے ہوئے سیاست کر رہا ہے اس کی عمر بہت قلیل ثابت ہوگی چونکہ ہندوستان میں اقتدار پر برقراری کیلئے یہ ضروری ہے کہ حقیقی معنوں میں سب کو ساتھ لیکر چلا جائے ۔ انہوں نے نوین پٹنائک کی جانب سے پروین توگاڑیہ کو اڑیسہ میں داخل ہونے سے روکنے پر ستائش کرتے ہوئے کہا کہ نوین پٹنائک نے عوام کے دلوں کو خوفزدہ ہونے نہیں دیا اور جو ڈر ان میں تھا اسے نکالتے ہوئے عوام کے حوصلوں کو بلند کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ڈر اور خوف کے ذریعہ طویل عرصہ تک حکومت نہیں کی جاسکتی اور جب عوام میں حکومت کے تعلق سے خوف پیدا ہوجاتا ہے تو حکومت باقی نہیں رہتی بلکہ تباہ ہوجاتی ہے ۔ مہیش بھٹ نے بتایا کہ خوف و دہشت کے ماحول میں بھی سچ اور حق گوئی کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنا ہی گاندھیائی نظریہ کا اصول ہے اور اس ملک کو ہر طرح کی پریشانی سے صرف یہ نظریہ ہی نکال سکتا ہے ۔اگر اس کے برخلاف ملک کو ایک رنگ میں رنگنے کی خواہش کرنے والوں کے حو الے کردیا جائے تو نہ صرف ملک تباہ ہوجائے گا بلکہ اس ملک میں جو یکجہتی و انسانیت موجود ہے جس کی مثال ہر جگہ دی جاتی ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی ۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی ملک کے آئین کو سب سے مقدس کتاب کہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس آئین کے مطابق اپنا عمل بھی پیش کرے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک کی مقدس ترین تصنیف دستور کو قرار دینے والوں کو چاہئے کہ وہ دستور کو پامال ہونے سے بچائیں چونکہ دستوری حقوق کی پامالی پر خاموش تماشائی کے کردار کے ذریعہ وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔
مہیش بھٹ نے وزیراعظم نریندر مودی کے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں کے خلاف لب کشائی نہ کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں نفرتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے آج بھی حقیقی سیکولر قوتیں موجود ہیں جو اس عظیم سرزمین کے شیرازے کو بکھیرنے نہیں دیں گے بلکہ اس کی تہذیب و تمدن ، اس کی زبانوں اور اس ملک میں رہنے والوں کے ساتھ اس کی سرحدوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے اس جدوجہد میں سرگرم عمل ہیں اور آخری سانس تک اس ملک کی حفاظت کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ انہوں نے اس ملاقات کے دوران اپنی آئندہ فلموں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری ادھوری کہانی‘‘ کے نام سے ان کی فلم کی تیاری کے مراحل میں ہے۔ مہیش بھٹ نے کہا جب کبھی انقلاب آتے ہیں اور حالات بدلتے ہیں تو دو قدم چلنے کے بعداس بات کا احساس ہوتا ہیکہ کہیں ہم نے کوئی غلط قدم تو نہیں اٹھائے ہیں ! اسی لئے انقلاب کے بعد کی زندگی میں استحکام ضروری ہے اور اس کیلئے استطاعت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے قدم سے قدم ملاکر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مہیش بھٹ نے کہا کہ ملک میں جو فاصلے بڑھتے جارہے ہیں ، انہیں کم کرتے ہوئے یکسانیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ چونکہ دوسرے درجہ کے شہری کو ساتھ رکھتے ہوئے فرسٹ کلاس زندگی نہیںگزاری جاسکتی اسی لئے ہر کسی کی مساوی ترقی و خوشحالی پرسکون زندگی کیلئے بے انتہا ضروری ہے۔