غالب کی شاعری میں عشق ، فلسفہ ، تشکیک اور خمار کے رنگ

ڈاکٹر مسعود جعفری
مرزا غالب نابغۂ روزگار تخلیق کار ہے ۔ اس کی بیش قیمت فکر رسا میں حیات و کائنات کے رازہائے سربستہ موجزن ہیں ۔ غزلوں میں گہرے تفکر کے ساتھ ادراک و آگہی کے رموز ملتے ہیں ۔ پھول ، سبزہ ، ابر ، گھٹا ، دریا ، حسن و جمال کے پیکر ہی نہیں سوچ و بچار کے محور بن جاتے ہیں ۔ حیرت ، جستجو اور کھوج کا سلسلہ دراز ہونے لگتا ہے ۔ غالب کی شاعری مظاہر فطرت کا سوال نامہ بن جاتی ہے ۔ وہ ذرہ ذرہ کا مشاہدہ کرتا ہے ۔ اس کا مفکرانہ مزاج اسے اشیاء کی تہہ داریوں تک رسائی کرنے لگتا ہے ۔ اس کے ہوش و حواس اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ زندگی کی ماہیت اور حقیقت کو جانے ، سمجھنے اور دل کے شکوک و شبہات کو رفع کرے ۔ اسی لئے وہ خیالوں کے لامتناہی دشت وصحرا میں نکل پڑتا ہے ۔ اس کی تڑپ ، تمنا اسے دنیائے آب و گل کا طواف کرواتی ہے ۔ گردو پیش کے حقائق واشگاف ہونے لگتے ہیں اور وہ پکار اٹھتا ہے ؎
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا
ہستی کے مت فریب میں آجا یو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
عظیم کائناتی صداقتیں جو اس کی ذات پر منکشف ہوئی تھیں انہیں وہ شعری لباس دیتا رہا اور وہ فکریات اور مشرقی شعریات کی زینت بنتے رہے ۔ غالب کا فلسفیانہ ذہن سوالات کی بوچھار کرنے لگتا ہے ۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
اس کی بے چین روح پوچھنے لگتی ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے
غالب اپنے فکری سفر میں وحدت الوجود کے نظریہ کا قائل ہوجاتا ہے ۔ بے اختیار خدا کی ازلی و ابدی وجودیت کی گواہی دینے لگتا ہے ۔ معرفت الہی کی اس سے بہتر مثال ادبیات میں اور کوئی نہیں ہوسکتی ؎
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ایک اور مقام پر وہ اسی تصور کی کچھ یوں جامہ زیبی کرتا ہے ؎
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
غالب کی متلاشی نگاہیں آفرینش میں چھپے گہرے بھید کو ٹٹولنے کے لئے کوشاں رہتی ہیں ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے اپنی ساری زندگی فلسفیانہ موشگافیوں میں صرف کردی ۔ اس کی دھڑکنوں میں زلف رخسار کی چاہتیں بھی تھیں ۔ غالب کو امام عشق و جنوں بھی کہا جاسکتا ہے ۔ وہ محبتوں کے جذبہ سے سرشار رہا ۔ اسے حسن جاناں نے تسخیر کرلیا تھا ۔ اس کے شام و سحر میں معشوق کی حشر سامانیاں وجہ نشاط و انبساط تھیں ۔ اس کے دل کی آواز اس بیت میں سنی جاسکتی ہے ۔

مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کئے ہوئے
غالب اس پری زاد کی یادوں میں کھوجانے کا ارمان کررہا ہے ۔ ندرت خیال کی انتہا دیکھئے ؎
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
غالب کے یہ تین شعر محبت کی کسک اور چبھن سے متصف ہیں ۔ ایک نیا انداز اور ایک دلفریب رخ ہے ۔ اشارے کنائے میں واردات قلب کی تصویرکشی اس سے خوب تر اور کیا ہوسکتی تھی ؎
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
آمد فصل لالہ کاری ہے
ہورہا ہے جہاں میں اندھیر
زلف کی پھر سرشتہ داری ہے
دل ہوائے خرام ناز سے پھر
محشر ستان بے قراری ہے
غالب کی شاعری کا افق نت نئے تخیلات کی کہکشاؤں ، عطاردوں ، زحل و مشتریوں سے روشن ہے ۔ اس کی خوبصورت و انوکھی غزلیں بنت زر سے پرکیف و سرمست ہیں ۔ مغل دربار کی روایتوں ، حافظ و خیال کی فارسی قدروں کی پاسبانی نقطہ عروج پر دکھائی دیتی ہے ۔ جام و سبو ، ساغر و مینا کے تذکرے کے بغیر مغلیہ معاشرہ میں شاعری کا تصور ناقابل قیاس امر تھا ۔ غالب بھی اس کے چلن سے دامن زندگی وشاعری بچا نہیں سکا ۔ دیوان کے ورق ورق پر انگور کی بیٹی کی پرچھائیں تھرکتی نظر آتی ہے ۔ یہ اس عہد کی تہذیب و ثقافت کا لازمی حصہ تھی ۔ میر ،درد ، سودا ، ذوق ، ظفر کے ہاں بادہ گساری کی باتیں ملتی ہیں ۔ غالب نے بھی دل کھول کر ناونوش کی بزم آرائیوں کا جوش و خروش سے احاطہ کیا ہے ۔ اس نے یہ اعتراف کیا ہے ۔

ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
اس خیال کی اتباع میں غالب نے کہیں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ اس کے چند ایک منتخبہ شعروں کی ہریالی میں ٹہلتے ہیں ۔ لطف سیر چمن اٹھاتے ہیں اور دیر تک تخیل کی دنیا میں گم ہوجاتے ہیں ۔
پلادے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالیہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلاسکو
کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
ایک اور جگہ وہ واعظ پر پھبتی کستا ہے لفظوں کی کٹار دیکھئے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
غالب ایک جگہ اپنی بیخودی کا جواز بتلاتے ہیں
مئے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گو نہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے
ایک شعر میں تو غالب نے ایرانی شہنشاہ جمشید کے ہیرے جواہرات سے مزین ساحری جام کو نظر انداز کرتے ہوئے مٹی کے جام کو ترجیح دی ۔ اس سے غالب کے جمہوری مزاج کا پتہ چلتا ہے ؎

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
غالب ایک رند مشرب تھا ۔ اس نے صراحی میں غم دنیا کو جھونک دیا تھا ۔اگر وہ ایسا نہ کرتا تو شاید زندہ نہ رہتا ۔ غدر کے پرآشوب حالات نے اس کے شب و روز کو جہنم میں تبدیل کردیا تھا ۔ افلاس و نکبت مقدر بن چکے تھے ۔ قلعہ معلی اجڑ گیا تھا ۔ لوگ تکیوں میں پناہ لے رہے تھے ۔ بھائی یوسف گھر ہی کے آنگن میں پیوند خاک ہوچکے تھے ۔ گھر کی ہر چیز نیلام ہورہی تھی ۔ رشتہ جسم و جاں نبھانا مشکل ہوگیا تھا ۔ غالب ایک دوراہے پر آگیا تھا ۔اس کی مونس و غمخوار مئے گساری ہی رہ گئی تھی ۔ وہ پل پل جی رہا تھا اور لمحہ لمحہ مررہا تھا ۔ وہ توبہ شکن حالات میں سانس لے رہا تھا ۔ اس کے اشعار اس کے تاریخی عہد کے آبدار موتی ہیں ۔ اس خیال و فکر کے آئینہ میں سماجی ، سیاسی و تہذیبی احوال کا عکس دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس کا ذہنی سفر تشکیک کی سرحد سے یقین کی منزل تک مسافت طے کرتا ہے ۔ زندگی کے ہر موڑ پر غالب اہل علم و ادب کا ہمسفر رہے گا ۔