غالب کی تنقید کے بعد سرسید کا رجحان جدید تعلیم کی طرف ہوا

حیدرآباد ، 27؍فروری(پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اپنے قیام سے ہی اردو کی ترقی و ترویج پر کام کر رہی ہے اور اس کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ اسی سلسلہ کے طور پر میوات کے پسماندہ علاقہ میں ماڈل اسکول قائم کیا جارہا ہے اور جلد ہی پالی ٹیکنیک اور خواتین کی تعلیم کیلئے اسکولس اور کالجس قائم کیے جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہارڈاکٹر خواجہ محمد شاہد، پرو وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے آج ’غالب اور سر سید :ہندوستان کے دو روشن دماغ‘ کے زیر عنوان توسیعی لکچر کے موقع پر صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر پروفیسر محمد میاں کو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا رکن نامزد کیا گیا ہے اور وہ یوجی سی کی ایک اہم اجلاس میں شرکت کیلئے دہلی میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غالب اور سرسید دونوں یقینا روشن دماغ تھے اور ان پر ڈاکٹر تقی عابدی نے سیر حاصل لکچر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں روشن خیال ہونا چاہئے۔ اپنے ذہنوں کو ترقی دینی چاہئے۔ ورنہ اردو قدیم زبان بن کر رہ جائے گی اور خول میں بند ہوجائے گی۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے توسیعی لکچر میں سرسید اور غالب کو خراج پیش کیا۔ دیوانِ غالب سرسید کے بڑے بھائی سید محمد کے پریس میں چھپا تھا۔ اس لیے ان کے تعلقات زیادہ تر سید محمد سے رہے۔ اس کے بعد سرسید بھی غالب کے حلقۂ احباب میں شامل ہوئے۔ یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سرسید بھی شاعری کرتے تھے اور یہ ممکن ہے کہ انہوں نے غالب سے اصلاح لی ہو لیکن اس کا ذکر نہیں ملتا۔ سرسید نے جب آئین اکبری تدوین کی تو اس پر مرزا غالب کو تقریظ لکھنے کیلئے کہا تھا جس پر غالب نے مثنوی کی شکل میں تقریظ لکھی جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں کو آئین اکبری نہیں لکھنی چاہئے تھی، کیونکہ یہ پرانے زمانے کی بات تھی۔ انہوں نے اپنی تقریظ میں انگریزوں کی ترقی اور ان کے قوانین کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ اصل میں سرسید کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ جس کے بعد سرسید نے اس تقریظ کے بغیر آئین اکبری شائع کردی اور کچھ دنوں تک دونوں میں خط و کتابت کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد سرسید نے مراد نگر میں پہلا ایسا مدرسہ قائم کیا جس میں اردو و فارسی کے ساتھ مسلمانوں کو انگریزی کی تعلیم بھی دی گئی۔ اسی کے بعد سرسید نے غازی آباد میں بھی مدرسہ کھولا اور سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے خطاب کا رخ غالب کی طرف موڑتے ہوئے کہا کہ عرفی شیرازی نے حافظ کو فارسی شاعری کا کعبۂ سخن قرار دیا تھا اور غالب بلا مبالغہ اردو کے کعبہ سخن ہیں۔ غالب کے ساتھ نا انصافی ہوتی رہی ہے۔ عوام ہی نہیں بلکہ خواص بھی غالب کی فارسی شاعری سے ناواقف رہے ہیں۔ غالب نے حمد و نعت و معراج نامہ لکھا جس پر ماہرین غالب نے توجہ نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ غالب مظلوم شاعر تھے۔ ان کی زندگی کسم پرسی میں گزری جبکہ سرسید کے حالات اچھے رہے۔ انہیں حکومت سے سر کا خطاب ملا، وکیل بنے اور ان کے بیٹے بھی جج کے اعلیٰ عہدہ پر فائز رہے۔ پدم شری مجتبیٰ حسین مہمانِ خصوصی تھے ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مرزا غالب جدید طنز و مزاح کے بادشاہ ہیں۔ مزاح نگاری کے لیے انسان کو ظریف ہی نہیں باظرف بھی ہونا چاہئے اور یقینا مرزا غالب باظرف انسان تھے۔ انہوں نے اپنا مضمون مرزا غالب کے خط کی پیروڈی سنایا۔ پروفیسرمحمد ظفرالدین مہمانِ اعزازی نے پرو وائس چانسلر اور مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر شجاعت علی راشد، کنوینر پروگرام نے خیر مقدم کیا۔ ناظمِ لکچر ڈاکٹر نکہت جہاںنے کاروائی چلائی۔ حافظ محمد منیرکی قرأت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔