غائبانہ نماز جنازہ

سوال : عام طور پر ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں نماز جنازہ کسی ایک نماز کے ساتھ کی جاتی ہے اور موقع کی نزاکت کے حساب سے کبھی کبھار دن اور رات سے کسی حصہ میں ادا کردی جاتی ہے اور سپرد لحد کردیا جاتا ہے ۔ عصر کی نماز کے بعد سجدہ حرام ہے مگر نماز جنازہ میں سجدہ نہیں اس لئے اس کی اجازت ہوگی۔ مشہور و معروف شخصیات کیلئے غائبانہ نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ رمضان میں ایک جنازہ میں شرکت کا اتفاق ہوا ، تراویح کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی ، پھر قبرستان میں دوبارہ نماز ادا کی گئی اور تدفین ہوئی اور وہاں ایک تازہ قبر تھی اور سعودی حکومت کی جانب سے جو لوگ آئے تھے ان لوگوں نے کہا اکہ تدفین عصر کے بعد ہوئی جس کی وجہ سے نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی اس لئے اب نماز ادا کریں گے اور قبر کے پاس نماز ادا کی گئی ۔
براہ کرم جواب مرحمت فرمائیں تو مہربانی۔
سید قمر زین العابدین، جدہ
جواب : احناف اور دیگر ائمہ کے نزدیک نماز جنازہ کے بعض احکام میں اختلاف ہے ۔ ازروئے فقہ حنفی غائب میت پر نماز جنازہ نہیں ہے ، مغفرت اور رحمت کی دعاء کی جانی چاہئے ۔ نیز ایک مرتبہ نماز جنازہ ادا کردی جاتی ہے تو فرض کفایہ ادا ہوگیا ، اس لئے اس کا اعادہ نہیں کیا جائے گا ۔ البتہ میت کا ولی مثلاً بیٹا یا والد نماز جنازہ نہ پڑھا ہو تو وہ پڑھ سکتا ہے ۔ دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا نفل ہے اور نماز جنازہ صرف فرض کفایہ ہے اس میں کوئی نفل نہیں ہے ۔ مزید یہ کہ نماز جنازہ بعد نماز فجر طلوع آفتاب سے قبل اور بعد نماز عصر سورج میں پلساہٹ انے سے قبل ادا کی جاسکتی ہے اور اگر نماز جنازہ کے بغیر تدفین کی گئی ہو تو میت کے پھول کرپھٹنے سے قبل اس کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔
بدائع الصنائع جلد اول ص : 311 میں ہے : ولا یصلی علی میت الا مرۃ واحدۃ لا جماعۃ ولا و حدانا عندنا الا ان یکون الذین صلوا علیھا اجانب بغیر امرالاولیاء ثم حضر الولی فحینذلہ ان یعید ھا … ولا تکرۃ الصلاۃ علی الجنازۃ بعد صلاۃ الفجر و بعد صلاۃ العصر قبل تغیر الشمس… و علی ھذا قال اصحابنا لا یصلی علی میت ،غائب ۔ اور در محتار برحاشیہ ردالمحتار باب صلاۃ الجنازہ میں ہے ۔ (وان دفن) وأھیل علیہ التراب) بغیر صلاۃ) أویھابلا غسل او ممن لہ ولایۃ لہ (صلی علی فبرہ) اشتحسانا (مالم یغلب علی الظن تفسخہ)

مسجد میںنعرۂ تکبیر
سوال : مسجد میں محفل وعظ و بیان کے دوران نعرہ بازی ، جیسے ’’ نعرہ تکبیر، نعرہ رسال، ، نعرہ غوث اور ’’ غوث کا دامن نہیں چھوڑیں گے ‘‘ بآواز بلند کہنا درست ہے یا نہیں ۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
محمد وسیم احمد، پرانی حویلی
جواب : کتب احادیث سے خود حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے نعرہ تکبیر بلند کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ خیبر کے موقع پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ نعرہ تکبیر ۔ اللہ اکبر‘‘ بلند فرمایا تھا ، جیسا کہ بخاری جلد ثانی صفحہ 604 صفحہ میں ہے ’’ عن انس قال صلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم الصبح قریبا من خیبر بغلس ثم قال اللہ ا کبر خربت خیبر ‘‘ … الخ ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے خود اس موقع پر نعرہ تکبیر بلند فرمایا تھا ۔ جیسا کہ مذکورہ کتاب کے صفحہ 605 پر ہے ۔ ’’ عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ قال لما غزا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر … فرفعوا اصواتھم بتکبیر اللہ ا کبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ ‘‘ … الخ ۔ حضرت سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کی مسرت میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے دار ارقم میں نعرہ تکبیر بلند کیا تھا جس کی آواز مسجد والوں نے بھی سنی تھی جیسا کہ اکمال مشکوۃ صفحہ 602 پر ہے‘‘… فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما انت منتہ یا عمر ؟ فقلت اشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لا شریک و اشھد ان محمد اعبدہ و رسولہ فکبر اھل الدار تکبیرۃ سمعھا اھل المسجد ‘‘… الخ۔
حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں میں سے بطور پیشنگوئی حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں ایک جنگ کی فتح کا ذکر فرمایا کہ وہ لوگ ہتھیاروں سے جنگ نہیں کریں گے بلکہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر کا تین مرتبہ نعرہ بلند کریں گے اور کامیاب ہوجائیں گے جیسا کہ مشکوہ المصابیح باب الملاحم صفحہ 467 میں ہے ’’ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ھل سمعتم بمدینہ جانب منھا فی البر و جانب منھا فی البحر قالوا نعم یا رسول اللہ قال لا تقوم الساعہ حتی یغزوھا سبعون الفامن بنی اسحاق فاذا جاء و ھا نزلوا ولم یقاتلوا بسلاح ولم یرموابسھم قالوا لا الہ الا اللہ واللہ اکبر فیسقط احد جانبیھا ۔ ثم یقولون الثانیہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر فیسقط جانبھا الاخر ثم یقولون الثالثہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر فیفرج لھم فیدخلونھا ‘‘… الخ ۔ (وہ مسلم )
نعرہ تکبیر یعنی اللہ اکبر ، ذکر اللہ ہے۔ اجتماعی ذکر جہر خواہ مسجد میں ہو کہ غیر مسجد میں علمائے متقدمین و متاخرین کے پاس بالاجماع جائز ہے۔ بشرطیکہ جہر (بلند آوازی) کسی کی نماز و قرات یا آرام میں خلل انداز نہ ہو جیسا کہ شامی جلد ایک صفحہ 488 میں ہے ۔ ’’ و فی حاشیہ الحمومی عن الامام الشعرانی رحمہ اللہ اجمع العلماء سلفاء و خلفاء علی استحباب ذکر الجماعہ فی المسجد و غیرھا الا ان یشوش جھرھم علی نائم او مصل او قاری ‘‘۔ بعض اھل علم نے بعض فوائد جیسے ذاکر کے قلب کی بیداری ، نیند کی دوری اور نشاط میں ازدیاد و اضافہ کی بناء پر ذکر جہر کو ذکر خفی کے مقابلے میں ترجیح دی ہے ۔ جیسا کہ مذکورہ کتاب کے اسی صفحہ پر ہے ’’ … فقال بعض اھل العلم ان الجھر افضل لانہ اکثر عملا و لتعدی فائدتہ الی السامعین فیؤخذ قلب الذاکر فیجمع ھمہ الی الفکر و یصرف سمعہ الیہ و یطرد النوم و یزید النشاط‘‘۔
کتب فقہ میں یہ بھی صراحت ہے کہ آیت پاک ’’ و من اظلم ممن منع مساجد اللہ یذکر فیھا اسمہ ‘‘ … کی وجہ سے مساجد میں ذکر جہر سے منع نہیں کیا جائے گا جیسا کہ بزازیہ میں ہے ’’ ان الذکر بالجھر فی المسجد لا یمنع احترازا عن الدخول تحت قولہ تعالیٰ ’’ و من اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ ‘‘…
اب رہا نعرہ رسالت وغیرہ کا بلند کرنا تو اس سے متعلق مختصر وضاحت یہ ہے کہ غیر اللہ کے ساتھ ’’ یا ‘‘ حرف ندا کا استعمال کبھی اظہار شوق لقاء یا اظہار حیرت اور بکثرت منادیٰ (جس کو پکارا جارہا ہے) کو نداء کرنے (پکارنے) کے لئے کلام عرب میں معروف و مستعمل ہے۔ مخلوق غائب کو ندا کرنا محض تذکرہ یا شوق وصال یا حسرت فراق کے ہو تو شرعاً کوئی حرج نہیں۔ اس اعتبار سے اگر ’’ یا رسول اللہ ‘‘ ’’ یا غوث ‘‘ وغیرہ کا نعرہ بلند ہوجائے تو شرعاً منع نہیں۔ اگر نداء سے غائب کو سنانا مقصود ہو اور تصفیہ باطن سے منادی کے حق میں منادی مشہود ہو تو ایسی صورت میں بھی حرف نداء کا استعمال شرعاً منع نہیں۔ مخلوق غائب کو بلا کسی مشاہدہ کے سنانے کے اعتقاد کے ساتھ نداء کرنا اگرچیکہ قدرت خدا وندی سے بعید نہیں تاہم ایسا اعتقاد بھی آداب توحید کے خلاف ہے۔ ’’ غوث کا دامن نہیں چھوڑیں گے‘‘ اردو زبان میں ایک محاورہ کا جملہ ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت غوث اعظم قدس سرہ العزیز جو اللہ کے نیک بندے اور ولی گزرے ہیں جس طرح ان کی زندگی کا مقصود رضائے الہی رہا ہے اور جس کی وجہ سے ان کی زندگی کامل طور پر اتباع شریعت و احیاء سنت کا جیتا جاگتا نمونہ رہی ہے اسی طرح ہم بھی ان کے طریق پر عمل پیرا رہ کر مرضیات الٰہی کے مطابق زندگی گزاریں گے۔تصریحات بالا سے واضح ہے کہ مذکورہ در سوال نعرہ ہائے توحید و رسالت وغیرہ کا عام محافل میں دوران وعظ و تقریر بلند کرنا بر محفل و بر موقع ہو تو کوئی حرج نہیں ہے تاہم بے محفل و بے موقع ہو تو احتراز کرنا چاہئے ۔ مساجد کی حد تک مذکورہ صورتوں کے تحت بلا تصنع و تکلف از خود کوئی نعرہ بلند ہوجائے تو کوئی حرج نہیں تاہم آداب مسجد ہر حال میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔

صف میں تنہا نماز پڑھنا
سوال : اگر ہم مسجد میں ایسے وقت داخل ہوں جبکہ جماعت شروع ہوچکی ہو اور پہلی صف مکمل ہوچکی ہو اور دوسری صف میں کوئی بھی کھڑے ہوئے نہ ہو، ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ کیا دوسرے شخص کے آنے کا انتظار کرنا چاہئے ؟ بعض کہتے ہیں کہ پہلی صف میں کسی دوسرے شخص کو لیکر شریک کر لینا چاہئے ۔ تنہا صف میں کھڑے ہوں تو نماز نہیں ہوگی ؟ کیا یہ صحیح ہے ؟ اس سلسلہ میں شرعی احکام کیا ہیں ؟
ای میل
جواب : سوال میں ذکر کردہ صراحت کے مطابق اگر کوئی ایسے وقت مسجد میں داخل ہو اگلی صف مکمل ہوچکی ہو اور ساتھ میں کوئی اور نہیں ہے تو ایسے وقت میں بہتر ہے کہ سامنے والی صف سے کسی کو لیکر دوسری صف بنائی جائے۔ بشرطیکہ جس کو آپ پیچھے لے رہے ہیں۔ وہ مسائل سے واقف ہو ورنہ فتنہ ہوگا۔ ایسے وقت میں اگر وہ تنہا صف میں پڑھ لے تو نماز تو ہوجائے گی اور عذر ہو تو کراہت نہیں رہے گی اور بلا عذر تنہا صف میں کھڑے ہوں تو مکروہ ہوگا۔

خون کا عطیہ ، فروختگی اور بلڈ بینک کا قیام
سوال : میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے شہر میں جہاں بے جا نامناسب افعال کی بہتات ہے وہی بعض دانشمندوں کی جانب سے علماء کی نگرانی میں چند سالوں سے ایک انقلابی اقدام بلڈ ڈونیشن سے متعلق کیا گیا جو آج صرف شہر ہی نہیں اضلاع اور پورے ہندوستان میں عام ہوگیا ہے۔عام مسلمانوں میں خون دینے سے متعلق شکوک و شبہات پائے جاتے تھے۔ حالیہ عرصہ میں علماء کرام کی وضاحتوں کے بعد یہ شکوک و شبہات کچھ حد تک دور ہوئے اور کچھ شکوک شبہات ابھی ذہنوں میں باقی ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ خون کا عطیہ کن کن صورتوں میں دیا جاسکتا ہے؟ کیا غیر مسلم کو خون دے سکتے ہیں؟ کیا کوئی آدمی اپنا خون فروخت کرسکتا ہے۔اس طرح بلڈ بینک میں خون کو اسٹور کیا جاتاہے ۔ کیا ہم بلڈ بینک قائم کرسکتے ہیں۔ کیا بلڈ بینکس خون فروخت کرسکتے ہے ۔ اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالیں تو مہربانی ہوگی ؟
محمد انس قادری، کنگس کالونی
جوا ب: مطلق خون حرام ، ناپاک و نجس ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما حرم علیکم المیتۃ والدم (سورہ بقرہ 173 ) اود مامسفوحا (سورہ انعام 145 )
حرام شئی سے علاج و معالجہ کرنا شرعاً منع ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ ولا تتداووا بحرام (فتح الباری جلد 10 ص : 135 )
خون انسان کے بدن کا بہتا جز ہے جو کہ ناپاک ہے، اس لئے خون کے بدنِ انسانی کا جز اور ناپاک ہونے کی وجہ اس کو فروخت کرنا شرعاً منع ہے ۔ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن ثمن الدم (صحیح البخاری بشرح فتح الباری جلد 10 ص : 314 )
البتہ بفحوائے آیت قرآنی ’’ الاما اضطر رتم الیہ‘‘ بوقت ضرورت بقدر ضرورت حرام چیز سے علاج کی اس وقت اجازت ہے جبکہ مریض کو بطور خود اس بات کا یقین ہو کہ اس کے استعمال سے شفاء ہوگی یا کوئی مسلمان طبیب اس کو یہ بات کہے اور حرام شئی کے علاوہ اس بیماری کے لئے کوئی اور جائز دوابھی نہ ہو، ورنہ شئی حرام سے علاج کرنا شرعاً حرام ہے ۔ رد المحتار جلد 4 ص : 224 میں ہے : صاحب الخانیۃ والنھایۃ اختار الجوازہ ان علم فیہ شفاء ولم یجد دواء غیرہ قال فی النھایۃ و فی التھذیب یجوز للعلیل شرب البول والدم والمیتۃ للتداوی اذا اخبرہ طبیب مسلم ان فیہ شفاء ولم یجد من المباح ما یقوم مقامہ ۔
پس صورت مسئول عنہا میں حسب صراحت بالا بوقت ضرورت کسی کی جان بچانے انسان کا خون چڑھانا خواہ وہ مسلمان کا ہو یا غیر مسلم کا، مرد کا ہو یا عورت کا ’’الاامور بمقاصد ھا کے تحت شرعاً درست ہے ، اسی طرح بلا معاوضہ خون کا عطیہ دینا بھی شرعاً جائز ہے ۔ چونکہ بلڈ بینک میں خون کو صفائی ، تحقیق اور معائنہ کے بعد ضرورت مند کو دیا جاتا ہے ۔ اس لئے کسی مسلمان کا ضرورت مند کو بوقت ضرورت کام آنے کیلئے وقت سے پہلے بلڈ بینک کو خون کا عطیہ دینا تاکہ وہ اس کی صفائی اور معائنہ کرسکے ، شرعاً درست ہے اور ’’وتعاو نوا علی البروالتقوی‘‘ ( تم آپس میں ایک دوسرے کی نیک اور تقوی پر مدد کرو) کے تحت مستحسن ہے ۔ بلڈ بینک اگر صرف معائنہ اور محنت کے اخراجات وصول کرتا ہے تو اس کا یہ عمل درست ہے اور اگر وہ فروخت کرتا ہے تو شرعاً درست نہیں۔