عیسائی طبقہ میں بے چینی

غضنفر علی خان

عیسائی ملک میں ایک اقلیت ہیں لیکن آزاد ہندوستان کی آبادی میں پہلی مرتبہ اس طبقہ کے مذہبی پیشوا آرچ بشپ نے ایک خط لکھا جس میں انہوں نے شکایت کی ہیکہ ملک میں عیسائی خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے اس احساس کا اظہار مکتوب میں کیا ہے ۔ ایک عیسائی طبقہ کی بات نہیں ہے آج ہندوستان کی تمام اقلیتوں میں غیر محفوظ ہونے کا احساس پایا جاتا ہے ۔ آرچ بشپ نے اس مکتوب میں ایک طرح سے اپیل کی ہیکہ کسی ایسی پارٹی کو ووٹ نہ دیں جو ہندو راشٹرا نافذ کر کے ہندوستان کو ایک ہندو ممالک میں بدل دیا جائے ۔ یہ ان کا صحیح احساس ہے عیسائی مشنری کا کام کرسچن عقیدہ کی مدد سے اس ملک میں ہندوؤں کو ایک اپنا ملک بنانے کے خلاف آواز ہے ۔ کرسچن مشنری اپنے اداروں میں اس قسم کی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ کرسچن عقیدہ کا پرچار کریں ‘ نہ صرف عیسائیوں کا بلکہ تمام لسانی ‘ مذہبی ‘ تہذیبی رکاوٹوں کو ہندو دھرم ایک لحاظ سے شامل کرنا چاہتے ہیں ۔ عیسائی مشنری کا وجود سارے ملک میں رہا ہے ۔ کئی فلاحی کام بھی عیسائی طبقہ کی کوشش کا لازمی نتیجہ ہے ۔ اگر ملک کی اکثریت اس کو ناپسند کرتی ہے تو ہندوستان میں ہندو دھرم کی بنیاد بہت پہلے ہی رکھی جاچکی ہوتی ۔ آرچ بشپ نے جس قسم کا خدشہ ظاہر کیا ہے وہ ان کے ذہن کی پیداوار نہیں ہے بلکہ ملک میں رہنے والے ہر طبقہ کی خواہش ہیکہ ملک میں وہ آزادانہ طور پر انتخاب میں حصہ لیں ‘ ہر فرد کو ووٹ دینے اور کسی بھی پارٹی کی حکومت قائم کرنے کی آزادی حاصل ہے ۔دستور ہند میںبنیادی حقوق کا عہد کیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہیکہ کیا ہندوستان سے بی جے پی ‘ آر ایس ایس کے علاوہ کسی بھی پارٹی کو اقتدار ملک کے عوام دے سکتے ہیں ۔
کسی عیسائی یا مسلمان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہیکہ وہ کسی مخصوص پارٹی ہی کو حکومت سازی کا حق دے ‘ اپنے ان بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کیلئے ملک کے عوام آزاد ہیں لیکن پچھلے چار سال سے یہ محسوس کیا جارہا ہیکہ ایک ہی عقیدہ پر عمل کرنے کا حق صرف بی جے پی ‘ آر ایس ایس یا کسی اور پارٹی کو ہے ۔ ایک عیسائی مذہبی پیشوا نے اپنے اس حق کا استعمال کیا ۔ مکتوب میں ان انتشار پسند عناصر طاقتوں کے بدلتے تیور دیکھ کر عیسائی طبقہ اگر موجودہ حکومت سے پریشان ہے تو اس کی معقول وجہ بھی موجود ہے ۔ گرجا گھروں پر حملہ ‘ عیسائی طرز کی زندگی مٹھی بھر انتہا پسند اگر چاہیں بھی تو کچھ نہیں ہوگا ۔ صرف انتشار اور نراج کے حالات پیدا ہوجائیں گے ۔ اقلیتوں میں عدم تحفظ کے احساس کا پیدا ہونا ملک کی حکمراں جماعت کی تنگ نظری کا کھلا ثبوت ہے ۔ ویسے بھی بی جے پی یا اس کے صدر امیت شاہ یا خود وزیراعظم نریندر مودی بھی یہ بات سمجھتے ہیںکہ ایک ہی دھرم کی حکومت ہندوستان جیسے ملک میں ممکن نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص یا کسی بھی مذہبی پیشوا اپنے عقیدت مندوں کو یہ صلاح دی کہ فلاں پارٹی چھوٹے ذہن سے سوچتی اور کسی مخصوص عقیدے کو سب پر لاگو کرنا چاہتی ہے جیسا کہ موجودہ دور میں بی جے پی کا طرز عمل ہے تو یہ ملک کے دستور و قانون ہر لحاظ سے غلط ہے ۔ آرچ بشپ نے مبینہ طور پر اپنے مکتوب میں بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی طاقتوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی بات کہی ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے ۔ ویسے بھی کیا ہندوستان کے رائے دہندے فرقہ پرست بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے ‘ ابھی تک ہندوستان کا ہر ووٹر ووٹ نہیں دیتا بی جے پی کے ووٹ کا حصہ مجموعی طور پر کم ہے ‘۔ صرف ان ہی کو وطن دوست سمجھنا جو انتہائی احمقانہ بات ہے ۔ عیسائی مذہبی پیشوا نے فرقہ پرست پارٹی یا گروہ کو ووٹ نہ دینے کا مشورہ مکتوب میں دیا ہے وہ قطعی غلط نہیں ہے ۔ ان کا یہ کہنا کہ ملک کی جمہوریت اس وقت خطرہ میں ہے بالکل درست بات ہے ۔ موجودہ مودی حکومت دستوری اداروں کو بھی مجبور کررہی ہے جس کا ثبوت ہیکہ عیسائی ‘ مسلمان ‘ سکھ سب ہی طبقات میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔
ایک بات سوچنے کی ہے کہ کیوں آزادی کے 70 برس بعد کبھی عیسائی عقیدہ نے کسی بھی حکومت پر تنقید نہیں کی ‘ کبھی یہ شکایت نہیں کہ وہ کسی مخصوص عقیدہ کے حامل پارٹی کو ہی ووٹ دیں‘ کبھی عیسائی طبقہ میں اپنے عدم تحفظ کا احساس پیداہی نہیں ہوا ‘ آج ہی کیوں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے ۔ فرقہ پرست طاقتیں عیسائی مذہب کی مخالف ہیں ‘ اس میں عیسائی طبقہ کا کیا قصور ہے کہ قوم یا کسی طبقہ میں غیر محفوظ ہونے کا احساس تب پیدا ہوتا ہے جبکہ اس کی سرگرمیاں جاری رکھنے میںرکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور آج کل ہر اقلیتی طبقہ میں بلکہ ہر ہندو باشندے کو خوف و دہشت کا سامنا ہے جو سیکولرازم کو اپنا سیاسی عقیدہ تسلیم کرتا ہے ۔ آرچ بشپ کو ہی نہیں بلکہ ہر مذہبی پیشوا سے لیکر عام آدمی بھی محسوس کرنے لگا ہیکہ اس کے مذہبی عقیدہ کو غلط سمجھنے والے سیاسی پارٹیوں کے لیڈر دن دھاڑے مخالف مذہبی ہیں۔ جو خواب بی جے پی دیکھ رہی ہے وہ کبھی بھی سچ ثابت نہیں ہوگا کیونکہ سیکولرازم ہندوستان کے رگوں میں موجود ہے صرف اقلیتوں کا یہ احساس ہے کہ سیکولرازم ہی ہمارے ملک کی آبر وہے اور ہم اپنی آبرو ختم کرنے والے یا والوں کوکبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔