عیدالاضحی کی فضیلت

مرسل: سیداسیدھاشمی
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ’’حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اہل جاہلیت کے سال میں دو دن مقرر تھے، جس میں وہ کھیلا کرتے تھے، پس جب حضور نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو ارشاد فرمائے: یہ تمہارے دو دن مقرر تھے جس میں تم کھیلا کرتے تھے اور اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمایا ایک عید الفطر اور دوسرا عیدالأضحی‘‘۔ {مفہوم حدیثِ نسائی شریف کتاب صلاۃ العیدین}
عید الأضحی کی نماز تک تناول نہ کرنا سنت ہے
حضرت عبداﷲ بن بریدہ رضی اﷲ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’حضور اکرم ﷺعید الفطر کے روز کچھ تناول فرمائے بغیر عیدگاہ نہیں جاتے اور عید الأضحی میں عید کی نماز پڑھنے تک کچھ تناول نہیں فرماتے‘‘۔ {مفہوم حدیثِ ترمذی شریف}
عید الأضحی کے دن تکبیر آواز سے کہنا چاہئے
حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ ’’حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم کو اس بات کا حکم فرمایا کہ عیدالأضحی کے دن ہم اپنے پاس موجود سب سے بہتر لباس پہنیں، اور سب سے عمدہ خوشبو استعمال کریں اور سب سے موٹے جانور کی قربانی دیں اور گائے سات اشخاص کی طرف سے اور اونٹ بھی سات اشخاص کی جانب سے پر وقار اور پر سکون طور پر تکبیر بلند کریں‘‘۔ {مفہوم حدیثِ بیہقی}
قربانی کے ضروری و بنیادی مسائل
قربانی مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم، صاحب نصاب (مالدار) پر واجب ہے۔ مسلمان ہونا شرط ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم ذی الحجہ کی دس، گیارہ یا بارہ تاریخ کو (غروب آفتاب سے پہلے) مسلمان ہو جائے اور مالدار ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہوتی ہے۔
عاقل سے مراد سمجھدار ہے، اگر کوئی پاگل، یا ایسا ناسمجھ ہو کہ اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں کرسکتا تو اس پر قربانی واجب نہیں۔ اسی طرح نابالغ بچوں پر بھی قربانی واجب نہیں ہے، چاہے یہ دونوں (مجنون اور بچہ) مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔ قربانی کے لئے آدمی کا مقیم ہونا بھی ضروری ہے، اگر کوئی مسافر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں (شرعی مسافر اس کو کہتے ہیں، جو اپنے مقام سکونت سے ستانوے (۹۷) کیلو میٹر سے آگے سفر کرے اور وہاں پر اس شخص کی پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت ہو) اگر مسافر ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کو عصر سے پہلے اپنے وطن کو واپس آجائے تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔

رسول اللہ ﷺکس طرح قربانی کرتے تھے
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کو ہجرت کرنے کے بعد ہمیشہ قربانی دیتے رہے اور ہر سال دو دنبوں کی قربانی کیا کرتے تھے، ایک اپنی جانب سے اور ایک اپنی امت کی جانب سے۔ حضور ﷺ قربانی کے جانور کو بنفس نفیس اپنے ہاتھوں سے ذبح فرماتے تھے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺنے دو خوش رنگ سینگ والے مینڈھوں کی قربانی کی۔ ان دونوں کو اپنے ہاتھوں سے ذبح فرمایا اور اس پر اللہ کا نام لیا اور تکبیر کہی۔ میں نے ان بکروں کی گردنوں پر حضور ﷺ کو اپنا قدم مبارک رکھے ہوئے دیکھا اور پھر آپ نے فرمایا ’’بسم اللہ واللہ اکبر‘‘۔ (بخاری و مسلم)
قربانی دینے والے کو چاہئے کہ جانور کو وہ خود ذبح کرے۔ اگر ذبح کرنا اچھی طرح نہیں جانتا یا اس کو ڈر ہوتا ہو تو کسی اور سے ذبح کروا سکتا ہے، ایسی صورت میں صاحب قربانی جانور ذبح ہوتے وقت وہاں پر موجود رہے تو بہتر ہے۔
٭٭٭
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے بکرے لانے کا حکم دیا، جو سیاہی میں چلے اور سیاہی میں بیٹھے اور سیاہی میں دیکھے، یعنی جس کے پیر، سر اور پیٹ کا حصہ کالا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایسے بکرے کو حاضر کیا گیا، تاکہ آپ اس کی قربانی کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے عائشہ! چھری لاؤ!‘‘۔ پھر فرمایا ’’چھری کو پتھر پر تیز کرلو!‘‘۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی اور بکرے کو چت لٹایا، پھر اس کو ذبح فرمایا، پھر دعاء کی ’’بسم اللہ، اے اللہ! اس قربانی کو محمد اور آل محمد اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے قبول فرما‘‘ (مسلم)