غوثیہ سلطانہ
اردو ادب کا بغور جائزہ لینے پر یہ بات سو فیصد کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے اہل قلم نے شاعری اور افسانہ نگاری کی اصناف میں اپنی جولانیاں زیادہ دکھائی ہیں ۔ اردو افسانوی ادب ہندوستان کی نہ صرف بلند قامت صنف ہے بلکہ اسے دنیا کی بہت سی زبانوں کے لئے شعری و افسانوی ادب کے مقابلے میں رکھا جاسکتا ہے ۔ تقسیم ہند کے عہد کے جو افسانہ نگار ہندو پاک میں ابھرے ، جنہوں نے اردو افسانہ نگاری کو عزت و وقار عطا کیا اور خاص طور پر اردو فکشن کو محدود فضا سے نکال کر ایک نئی اور تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع دیا ان میں دھنپت رائے پریم چند کانام سرفہرست ہے ۔ بقول پروفیسر احتشام حسین ’’پریم چند پہلے ادیب ہیں جنھوں نے شعوری طور پر ادب کے ذریعہ عوام کے مسائل سمجھنے میں انسان دوستی کی طرف قدم بڑھایا ہے‘‘ ۔
آزادی سے پہلے کا ہندوستان اور پھر آزادی کے بعد سماجی ، معاشرتی ، لسانی ، ترقی و تعمیر میں روشن خیالی کے دیپ جلانے میں ہمارے اردو ادیبوں کا قابل رشک تعاون رہا ۔ بقول میر تقی میر
اسکے فروغ حسن سے دمکے ہے کائنات
شمع حرم ہو یا کہ دیا سومناتھ کا
برصغیر کے ادبی کلچر کی تاریخ میں عظیم شاعری یا ادب عالیہ کی تخلیق میں مسائل و آزمائش اردو ادب میں پھیلی ہوئی صوبہ واریت ، گروہ بندی ، احباب نوازی نے کسی کو قابل اعتنا نہ سمجھا ہو اور ان کے غیر ادبی ہنگاموں کی پروا کئے بغیر حیدرآباد کی منکسر المزاجی مٹی سے پیدا ہونے والے ایک باوقار عرب نژاد افسانہ نویس عوض بن سعید ہیں۔
عوض سعید کی فکر میں رومانیت اور نظریئے میں ترقی پسندی تھی ۔ لیکن ادب میں کسی ’’ازم‘‘ کے قائل نظر نہیں تھے ۔ ان کے خیال میں ادب پہلے ادب ہونا چاہئے ۔ اچھا ادب کسی ’’رنگ‘‘ کا ہوتے ہوئے بھی سب کیلئے قابل قبول ہوگا ۔ اس میں دردمندی ، انسان دوستی کے ساتھ ساتھ غم ذات سے لے کر غم کائنات تک ہر غم کی گنجائش ہوگی ۔ عوض سعید کے افسانوں کے چھ مجموعے ، متعدد شخصی خاکے ، نظمیں ، ان میں سے کسی بھی کہانی میں اچھے ادب کی بہت ساری خوبیاں ملتی ہیں ۔
بقول وزیر آغا ’’عوض سعید ان افسانہ نگاروں میں سے ہیں جنھوں نے اردو کی مختصر کہانی کی سطح کو بلند کیا ہے ۔ انکے پاس اشاریت کا استعمال عصری انداز کا ایک اظہار ہے جو ان ہی کیلئے مخصوص ہے‘‘ ۔
ان کے پاس توازن و تناسب جدیدیت کے ساتھ انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے ملتا ہے ۔ وہ بنیادی طور پر خود اعتماد اور خلوص کے قدر داں نظر آتے ہیں ۔ حیدرآباد کے ادبی کلچر میں دوسرے ترقی پسند ادیب و مصنف ، فنکاروں کے تقریباً دو درجن خاکے اس بات کے غماز ہیں کہ ’’ترے ترازو کا پلڑا جھکا نہیں ہے‘‘ ۔ ارد ادب کے معتبر و مستند خاکہ نگار کی حیثیت سے دانش و حکمت کے ساتھ ان شخصی خاکوں میں خوب رنگ بھرا ہے ، جیسے مخدوم محی الدین ، قاضی سلیم ، پروفیسر مغنی تبسم ، ، وحید اختر ، ابراہیم جلیس ، عزیز قیسی ، جیلانی بانو ، خورشید احمد جامی ، انور رشید ، نعیم زبیری ، اقبال متین ، سلیمان اریب ، خلیل الرحمن اعظمی ، راشد آذر ، مصحف اقبال توصیفی اور نرمل جی ۔ بقول کارل مارکس
’’دنیا کی مادی اشیاء فنا ہوسکتی ہیں لیکن لکھے ہوئے الفاظ کی حرمت کوئی نہیں مٹاسکتا وہ حرمت جو کتاب کے سینے میں چھپی ہوتی ہے‘‘ ۔ جس طرح بارش کا قطرہ آفاقی ہے ، اسی طرح ادب اپنے حساس لمحوں اور تجربوں کو تخلیقی روپ دینے کا ایک بڑا فن ہے ۔ عوض سعید کی علمیت کے بحر سے فیض یاب ہونے کے لئے مجھے انٹرنیٹ پر ان کے ویب سائٹ پر جانا ضروری لگا اور اس کے بعد میرے ذہن میں اتنا مواد جمع ہو پایا کہ میں اپنی صلاحیت کے حدود میں رہتے ہوئے اس مضمون کو قلمبند کرسکی ۔ بقول گوپی چند نارنگ ’’عوض سعید کے افسانوں میں حقائق ہیں اور وہ سچ مچ Authentic خاکے لکھتے ہیں جس راست بازی کے ساتھ یہ خاکے لکھے گئے ہیں اس پر رشک آتا ہے‘‘ ۔
عوض سعید ایک ذہین افسانہ نگاروں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ ان کے پاس روشنی کی بشارت انسانی تہذیب سرگوشی کرتی ہے تو پرکشش کہانی قاری کو سوچنے پر اکساتی ہے ۔
ہر اک بات پہ اہل نظر کی رائے نہ مانگ
جو لوگ اہل نظر ہیں جدا نہیں ہم سے
مشفق خواجہ کے خیال میں ’’عوض سعید کو کہانی بُننے کا خاص سلیقہ ہے اور قدرت نے انھیں کہانی بیان کرنے کا ملکہ عطا کیا ہے‘‘ ۔
عوض سعید کو ادب میں اپنے حساس لمحوں اور تجربوں کی ایک تخلیقی کائنات نظر آئی اور انھوں نے اس نکتے کو جان لیا تھا کہ تخلیق ایک ایسا بے قرار دریا ہے ، جس کا بنیادی تفاعل اظہار ہے ۔ ان کے پاس موضوعات کی کمی نہیں ۔ ویسے موضوعات کا انتخاب کرتے ،جن سے وہ بوجوہ احسن عہدہ برآ ہوسکتے ہیں ۔ احتیاط کے ساتھ ان کا سنبھلا ہوا انداز عوض سعید کا مزاج جو زندگی کے ہر شعبے میں ان کی آبرو بچائے ہوئے تھا ۔
عوض سعید کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’سائے کا سفر‘‘ 1969 میں منظر عام پر آیا ۔ 1973 میں ’’تیسرا مجموعہ‘‘ ، 1977 میں ’’رات والا اجنبی‘‘ اور ’’کوہ ندا‘‘ 1987 میں ’’بے نام موسموں کا نوحہ‘‘، 1993 میں ’’کنواں آدمی اور سمندر‘‘ 2010 میں منظر عام پر آئے ۔کلیات عوض سعید عبارت کی آراستگی ، سلیقہ مندی ، پرتکلف رکھ رکھاؤ کے ساتھ ملتی ہے جن میں انکی شخصیت جھلکتی ہے ۔ حیدرآباد کے محاورے اور مقامی زبان کے الفاظ کی بڑے چاؤ سے استعمال کرتے ہیں ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اہل زبان ناک بھوں چڑھاتے ہیں ۔ اس خصوص میں ان کا استدلال یہ تھاکہ جب اہل دہلی ، اہل لکھنؤ اپنے محاورے اور روزمرہ کے الفاظ پر اصرار کرسکتے ہیں ، توہم کو کیوں اپنی زبان استعمال کرنے کا حق نہیں دیا جاتا ۔ تاہم شہرت کے قدمچے کی طرف کم اور زیادہ تر خود محرک ، خود ساز اور استقلال کے ساتھ ہر فن لطیف ،ہر رنگ ، ہر شق میں اپنی صلاحیتوں کا پرخلوص استعمال کیا ہے ۔ پروفیسر مغنی تبسم ان کے نسبتی برادر کی رائے میں ’’عوض سعید نے انوکھی اور سربستہ کیفیات اس کے تجربوں اور موجودہ عہد میں انسانی زیست کی بے ڈھب صورت حال کو انھوں نے بعض کہانیوں میں بڑی فنکاری اور خوبصورتی سے پیش کیا ہے‘‘ ۔
اپنی زندگی میںانہوں نے متعدد صنف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ خاکے ، افسانے ، نظمیں ، مضامین ، خطوط غرضیکہ فن اور آرٹ کے نمونے ان کا شخصیت نامہ ہیں، جن کو ان کے لائق بیٹے ڈاکٹر اوصاف سعید نے 2010 میں کلیات عوض سعید ویب سائٹ پر بڑی خوبی کے ساتھ تمام تفصیلات کے ساتھ پیش کیا ۔ ڈاکٹر اوصاف سعید (انڈین ڈپلومیٹ) اپنی زبان اردو سے دلچسپی اور اپنے والد محترم کا بسیط اور ہمہ گیر اعتراف نامہ www.awezssyeed.com پر پیش کیا ہے ۔ مغربی دنیا میں میری زندگی کے چار عشروں میں کئی ادیب و شاعر ، مصنف و نقاد ، دانشوروں نے ہند و پاک کی مقدس سرزمین سے شمالی امریکہ کا دورہ کیا اپنے فن کی شمع جلائی اور رخصت ہوئے ، مگر عوض سعید ہمارے شہر شکاگو میں سپرد خاک ہوئے ۔میرے نزدیک عوض سعید کے فن کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ انسان کی تصویر کے تاریک ترین رخ کو سامنے لانے کے باوجود انسان کی عظمت کو اجاگر کرتے ہیں ۔
عوض سعید کی ایک آزاد نظم پر اس مقالے کو ختم کرتی ہوں جس کا عنوان ہے ’’تلاش‘‘
تلاش
کہتے ہیں ڈھونڈنے پر خدا بھی مل جاتا ہے
لیکن میں
اس سعیٔ رائیگاں میں
در بہ در ٹھوکریں کھارہا ہوں
مگر یہ تلاش اور کھوج
آج بھی جاری ہے
پتہ نہیں یہ سلسلہ
ختم ہوگا بھی کہ نہیں