عورت کا احترام اسلام کی دین

ظفر آغا
یہ کام لکھنے سے قبل راقم الحروف ٹائمس آف انڈیا پڑھ رہا تھا ۔ یکایک میری نگاہ ایک چھوٹی سی خبر پر پڑگئی ۔ وہ خبر کچھ یوں تھی کہ لبنان کی ایک ٹی وی اینکر جو کہ عورت ہے وہ لندن میں مقیم ایک مسلم عالم دین کو اپنے پروگرام کے لئے لائیو انٹرویو کررہی تھی ۔ خبر کے مطابق اس اینکر کا نام ریما کراکی ہے اور عالم دین کا نام ہانی الصبائی تھا ۔ انٹرویو کا موضوع دہشت گردی اور جہاد تھا ۔ ریما نے عالم دین سے سوال کیا جس کا جواب دیتے دیتے وہ موضوع سے بھٹک گئے ۔ ریما نے عالم دین کو یاد دہانی کرائی کہ آپ موضوع سے نہ بھٹکیں ۔ سوال کا ہی جواب دیں ۔ راقم چونکہ اکثر ٹی وی پروگرام اینکر کرتا رہا ہے اس لئے اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اینکر کو عموماً اپنے مہمان کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ وہ موضوع سے متعلق ہی بات کریں کیونکہ اینکر کے پاس ایک متعین وقت ہوتا ہے اور اسی وقت کے دوران اس کو اپنی بات پوری کرنی ہوگی ۔ ظاہر ہے کہ ریما نے بھی اسی نقطہ نگاہ سے عالم دین کو یاد دلایا ہوگا کہ اس کی بات کا سیدھا جواب دیں ۔ بس جناب عالم دین بھڑک اٹھے اور ریما کو ڈانٹ دیا ۔ اس پر ریما نے حضرت کو ٹوکا اور کہا کہ آپ میرے ساتھ ایسے پیش نہیں آسکتے ۔ بس یہ سننا تھا کہ حضرت آگ بگولہ ہوگئے اور بولے ’’یہ میری عزت کے خلاف ہے کہ تم مجھے انٹرویو کرو‘‘ اور اب ذرا دل تھام کر بیٹھئے کیونکہ عالم دین نے اس جملے کے بعد جو کہا وہ سن کر آپ حیرت میں رہ جائیں گے ۔ حضرت بولے ’’کیونکہ تم عورت ہو ، اسلئے تم کو انٹرویو دینا میری بے عزتی ہے‘‘ اس پر ریما کو اس قدر غصہ آگیا کہ اس نے یہ کہہ کر انٹرویو بیچ میں ہی ختم کردیا کہ ’’ہم ایک دوسرے کا احترام کریں اور اگر ایسا ممکن نہیں تو بہتر یہی ہوگا کہ بات چیت یہیں ختم کردیں‘‘ ۔

یہ ایک چھوٹی سی خبر تھی جس کے بظاہر کوئی بڑے معنی نہیں ہوسکتے ہیں لیکن ریما سے جو بات بطور عورت عالم دین نے کہی وہ یقیناً نہ صرف چونکادینے والی ہے بلکہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ یہ بات اور یہ خیال کہ عورت مرد سے کمتر ہے کم از کم ایک عالم دین کو کہنا تو درکنار بلکہ سوچنا ہی نہیں چاہئے ۔ کیونکہ اسلام دنیا کا وہ پہلا منظم نظام ہے جس نے دنیاکو باقاعدہ حقوق نسواں (Gender justice) کا تصور پیش کیا ۔ اب ذرا غور فرمائے کہ رسول اکرمؐ نے عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ اسلام سے ذرا سی بھی واقفیت رکھنے والا ہر شخص واقف ہے کہ رسولؐ کی سب سے پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ تھیں جو مکہ کی انتہائی مالدار اور کامیاب تاجرہ تھیں ۔ رسولؐ نے ان سے نہ صرف شادی کی بلکہ اعلان نبوت اور اسلام کے بعد بھی ان کو تجارت سے روکا نہیں ۔ یعنی کسی بھی عورت کا کام کرنا اور خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی مثال خود رسولؐ نے قائم کی۔ یہ تصور یوروپ میں انسیویں صدی کے آخر میں پیدا ہوا جبکہ رسول کریمؐ نے یہ سنت ساتویں صدی میں ہی قائم کی، یہ تو محض ایک مثال ہے جو رسول پاکؐ نے عورتوں کے تعلق سے قائم کی ۔ قرآن کے ذریعہ عورتوں کے تعلق سے جو احکام اسلام میں نافذ ہوئے وہ خود اپنے میں حقوق نسواں کے لئے مشعل راہ تھے ۔ مثلاً عقیدے کے معاملہ میں اسلام نے عورت اور مرد میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں رکھا ۔ کلمہ پڑھنے کے بعد اپنے اللہ پر جتنا اختیار مرد کو ہے اتنا ہی اختیار عورت کو بھی ہے ۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ مسجد نبویؐ میں رسول اکرمؐ کی امامت میں عورتیں بھی ویسے ہی نماز پڑھتی تھیں جیسے کہ مرد رسول کریمؐ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ۔ اور کعبہ و مسجد نبویؐ میں آج بھی یہ سنت قائم ہے ۔ اسی طرح کم و بیش جتنے احکام مردوں پر فرض کئے گئے وہ تمام احکام عورتوں پر بھی فرض قرار پائے ۔ روز قیامت جیسے مرد کو اعمال کی بنا پر سزا اور جزا کا فیصلہ ہوگا ویسے ہی عورت کی بھی سزا و جزا کا فیصلہ ہواگ ۔ یعنی اسلامی نقطہ نگاہ سے اللہ کے نزدیک عورت اور مرد میں کسی قسم کا امتیاز نہیں ہے ۔

یہ تو رہا مرد اور عورت کا اللہ سے رشتہ کا معاملہ! اب ذرا غور فرمایئے کہ اسلام دنیا کا وہ پہلا نظام ہے جس نے عورت کو کم و بیش ہر سطح پر سماجی معاملات میں برابری کے اختیارات دئے مثلاً ازدواجی زندگی میں اسلام عورتوں کو برابر کا حق دیتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے جس طرح مرد خود اپنی زوجہ چن سکتا ہے ۔ ویسے ہی عورت بھی اپنا شوہر چن سکتی ہے ۔ حد یہ ہے کہ شادی کے وقت نکاح میں پہلے عورت کی اجازت لینا لازمی ہے تاکہ اگر عورت کو رشتہ منظور نہ ہو تو عورت انکار کرسکتی ہے یعنی اسلام نے عورت کو عقیدہ کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی مرد کے برابر رکھا ۔ اسی طرح اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو خلع کا حق دیا ، کہ اگر وہ شادی سے ناخوش ہوتو اپنی مرضی سے اس کو ختم کرسکتی ہے ۔ پھر اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے ترکہ میں عورت کا حق معین کرکے عورت کے معاشی حقوق اور معاشی آزادی کا تصور دیا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ رسول کریمؐ غالباً وہ واحد مذہبی قائد تھے جو اپنی بیویوں سمیت مسلمان عورتوں کو میدان جنگ میں لے کر جاتے تھے ۔جہاں وہ مردوں کو جوش دلاتی تھیں اور جو افراد زخمی ہوتے تھے ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھیں ۔ اسلام کی اس نسوانی آزادی اور برابری کے چرچے آج بھی یوروپ اور امریکہ کے علمی حلقوں میں پائے جاتے ہیں ۔ تب ہی تو مشہور اسلامی اسکالر کرسین آرمسٹرانگ (جو خود ایک عیسائی نن ہیں) نے اپنی مشہور کتاب ’’محمد‘‘ میں اسلام اور عورتوں کے حقوق کے تناظر میں لکھا ہے ’’قرآن نے ہر فرد کو آزاد اور بااختیار بنایا ہے … اور یہ بات اور یہ قرآنی اصول پوری طرح عورت پر بھی صادق آتا ہے‘‘ ۔

افسوس کے اسلام کی یہ وسیع النظری یوروپ کے عالموں کو نظر آتی ہے لیکن خود مسلمان عالم دین کو نظر نہیں آتی ۔ وہ عورت کے سوال کا جواب دینے میں ہتک محسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہارے سوال کا جواب دینا میری بے عزتی ہے کیونکہ تم عورت ہو ۔ یہ بات بنیادی اسلامی اصول کے خلاف ہے ، اسلام نے نہ صرف عدل کو بنیاد مانا بلکہ بغیر رنگ و نسل و جنس کی تفریق کے ہر فرد کو برابر مانا اور ہر فرد کو کسی بھی تفریق کے بنا برابر کے حقوق عطا کئے ۔ لیکن اسی مسلم معاشرے میں آج عورت کی کیا حالت ہے ۔ مسلمان عورت اس اکیسویں صدی میں کم وبیش اپنے گھر کی ذمہ داری میں قید ہے ۔ آج بھی ہمارے یہاں تعلیم نسواں کا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اگر عورت کوئی کام کاج کرکے خود اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کی کوشش کرے تو اس کو سماج میں برا سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن نے بھلے ہی عورت کو خلع کا حق دیا ہو لیکن ہمارے معاشرے میں مسلم عورت اپنی مرضی سے اگر وہ اپنی شادی ختم کردے تو اس پر سماجی عتاب نازل ہوتا ہے ۔

جبکہ مرد جب چاہے طلاق دے اور اپنی مرضی سے ایک نہیں چار شادیاں کرے ۔ آخر اسلامی احکام اور سنت رسولؐ کے باوجود مسلم معاشرہ میں عورت کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں ؟ اسکا بنیادی سبب یہ ہے کہ رسول اکرمؐ اور خلفائے کرام کے دور کے بعد جیسے جیسے اسلامی معاشرے میں تبدیلیاں آتی رہیں ویسے ویسے مسلمانوں کا رویہ عورتوں کے تعلق سے بدلتا گیا ۔ رسول اکرمؐ کے دور کا اسلامی معاشرہ رسولؐ کے سو سال بعد ایک مسلم بادشاہی معاشرہ میں تبدیل ہوچکا تھا ۔ اور دنیا کے اس وقت کے تمام شاہی نظام کی طرح مسلم شاہی معاشرہ بھی زمیندارانہ قدروں کے تحت آچکا تھا ۔ زمیندارانہ نظام اور قدروں میں عورت کو مرد سے کم تر مرتبہ اور حقوق دئے جاتے ہیں ۔ اس نظام میں عورت کو مرد کا تابعدار قرار دیا گیا ہے جس کے تحت عورت یہ جرأت نہیں کرسکتی کہ وہ مرد سے کوئی سوال کرے خواہ وہ صحیح ہی کیوں نہ ہو ۔
یہ وہی زمیندارانہ ذہنیت تھی جس کا اظہار موصوف عالم دین نے اپنے ٹی وی پروگرام میں ایک عورت اینکر کے سوال کے جواب پر کیا ۔ افسوس یہ ہے کہ آج مسلم معاشرے میں عورتوں کے تعلق سے ان زمیندارانہ قدروں کو شریعت کہا جارہا ہے جس کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ تب ہی تو مسلم عورت جو رسول کریمؐ کے ساتھ میدان جنگ تک جاتی تھی وہی مسلم عورت آج گھر کی چہار دیواری میں قید ہے ۔