تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
نئی ریاست تلنگانہ سے ہر شہری کو وہی کام کرنا ہوگا جو حکومت چاہے گی ورنہ حکومت اس سے زبردستی کرے گی تو اس زبردستی کے حصہ کے طور پر حکومت نے حصول اراضی کے لئے جی او 123 جاری کیا تھا۔ کسانوں سے ان کی زمینات زبردستی حاصل کی جانے لگی تھیں لیکن حکومت کی اس کوشش کو ہائیکورٹ نے زبردست دھکہ پہونچاتے ہوئے جی او 123 کو کالعدم قرار دیا۔ قارئین آپ نے اس کالم میں گزشتہ ہفتہ اس جی او 123 کے بارے میں پڑھا ہوگا کہ اس جی او کے ذریعہ دراصل حکومت تلنگانہ ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کا کام کررہی ہے اور میری رائے کے مطابق حیدرآباد ہائی کورٹ کے جج نے بھی حکومت کے حصول اراضی جی او کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ حکومت خانگی پراپرٹی ڈیلر کا رول ادا نہیں کرسکتی۔ جسٹس سومیش کمار گپتا نے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی حکومت کے خلاف داخل کردہ درخواستوں کی سماعت کے بعد یہ فیصلہ دیا ہے۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت کی ڈھائی سالہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو آپ کو یہ اندازہ ہوجائے گا کہ یہ پارٹی صرف اُلٹ پلٹ کاموں میں وقت ضائع کررہی ہے اور پیسہ کمانے کی خواہش نے حکومت کے ہر فرد کو اتنا ڈھٹ بنادیا ہے کہ وہ ہر تنقید اور مخالفت کی پرواہ نہیں کررہا ہے۔ اس ریاست میں ویسے بھی اپوزیشن کا وجود صفر کے برابر ہے لیکن جو کچھ بھی اپوزیشن ہے وہ حکومت کی کارکردگی کی جانچ کرتے ہوئے عوام کے حق میں انصاف پسندی سے کام کرنے کوشاں ہے۔ ریاست میں غربت، تعلیم، صحت اور روزگار کے لاتعداد مسائل ہیں۔ تعلیم کے شعبہ میں طلباء کو بُری طرح پریشان کردیا گیا۔
ایمسٹ II کی منسوخی طلباء کے لئے ایک سوچا سمجھا غم دیا گیا ہے۔ حکومت کی نااہلی آشکار ہوگئی۔ بدعنوانیاں اتنی شدت سے آگے بڑھ رہی ہیں کہ ہر محکمہ میں رشوت خوری عام ہوگئی ہے۔ رشوت ستانی کے لئے پہلے ہی سے بدنام محکمہ بلدیہ اِن دنوں کے ٹی راما راؤ کی سرپرستی میں بدمست ہاتھی بن گیا ہے جو اجاڑنے کے سوا کچھ کام نہیں کرتا۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ جھوٹ کا بول بالا کرنے کے لئے کیسے کیسے حربے استعمال کئے جارہے ہیں اور یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ نرے جھوٹ کو اشتہاری ترکیبوں سے کس طرح سچ میں بدل دیا جاتا ہے۔ شہر میں بلدی ترقیات کے دعوے ہورہے ہیں لیکن بارش نے بلدیہ کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کا ہر شعبہ اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے عوام میں خراب پہچان بنارہا ہے۔ محکمہ تعلیم کی ناقص کارکردگی سے ایمسٹ II منسوخ ہوا۔ محکمہ صحت کی لاپرواہی سے ریاست میں ہیضہ کی وباء پھیلی ہوئی ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود کی کارکردگی آئے دن آشکار ہورہی ہے۔ محکمہ داخلہ کا بُرا حال ہے۔ فرقہ پرستوں کی ناپاک سازشیں تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ بی جے پی رکن اسمبلی راجہ سنگھ کی اشتعال انگیزی کو خاموشی سے نظرانداز کردیا جارہا ہے۔ ریاست میں فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند کرنے کا مطلب آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اس سیکولر ریاست کو ہندوتوا کے ٹولے کے حوالے کرنے کی ساری تیاریاں ہوچکی ہیں۔ اپوزیشن کانگریس خود کو حد سے زیادہ مصروف دکھانے کی کوشش کررہی ہے مگر اس دوڑ دھوپ کے باوجود وہ بھی راجہ سنگھ جیسے لیڈروں کی سازشوں سے بے خبر ہے۔ حالانکہ اس کے لئے یہ اچھا موقع ہے کہ خود کو سیکولر ثابت کرے مگر راجہ سنگھ نے کانگریس کو بھی پیچھے چھوڑنے کی دوڑ لگائی ہے۔ گوشہ محل حلقہ اسمبلی پر کسی زمانے میں کانگریس کا غلبہ تھا۔ اس حلقہ سے مکیش گوڑ نمائندگی کرتے تھے لیکن فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کی درپردہ سازش نے آر ایس ایس کے آدمیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ راجہ سنگھ نے دلتوں کو غلیظ طبقہ قرار دیا اور گجرات میں دلتوں پر حملہ کو حق بجانب بتایا۔ شہر میں اب عیدالاضحی کے موقع پر گاؤ رکھشا کے نام پر جو طوفان مچایا جائے گا اس کے لئے حکومت آنکھ بند کرلے گی تو پھر حالات کیا رُخ اختیار کریں گے یہ آپ ہی دیکھیں گے۔ آر ایس ایس کی سرپرستی حاصل ہونے کے بعد گلی کا لیڈر بھی شیر بن جاتا ہے۔ راجہ سنگھ آج چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے سامنے شیر کی طرح دھاڑ رہا ہے اور حکومت ہے کہ خود کو بلی کی مانند آنکھیں بند کرکے دودھ پینے میں مصروف رکھی ہے۔ کانگریس بھی کسی زمانے میں اپنا مضبوط کیڈر رکھتی تھی اب اتنی کمزور دکھائی دے رہی ہے کہ وہ خود اور ہندوتوا لیڈر کا سامنا کرنے کے لئے کیڈرس کو مجتمع کرنے کے موقف میں بھی نہیں ہے۔ گوشہ محل کا حلقہ 2014 ء تک کانگریس کا مضبوط حلقہ تھا مگر اچانک اس میں یہ تبدیلی کیوں آئی۔
اس پر غور کرنے کی کانگریس نے ضرورت محسوس نہیں کی۔ اب وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ تلنگانہ کے بعد ریاست میں ہندوتوا کا موقف مزید مضبوط بنایا جائے گا۔ سیکولرازم کا دم بھرنے والے گروپس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے ۔ 38 سالہ گوشہ محل ایم ایل اے تلنگانہ راشٹرا سمیتی حکومت کو آزمانے کے حربے شروع کئے ہیں۔ کسی بھی حکومت کو آزمانے کا حربہ اس وقت کام آتا ہے جب وہ کھلی آنکھ کے ساتھ حکمرانی کرے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ چیف منسٹر کسی سے ملاقات کرنے کے عادی نہیں اور نہ کسی کے مسائل کی سماعت کو پسند کرتے ہیں، ان کا مشغلہ کیا ہے یہ سب جانتے ہوں گے۔ سڑک حادثات میں اضافہ کی وجہ شراب پی کر گاڑی چلانا بتائی گئی ہے۔ ٹریفک پولیس نے شراب پی کر گاڑی چلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی مہم شروع کی اور Drunk N Drive کے مرتکب افراد کو جیل بھی بھیجا جارہا ہے۔ مگر حکومت کرنے والوں کے تعلق سے عوام اور سرکاری محکمے خاموش کیوں ہیں۔ غیر منصوبہ بندی کے ساتھ کوئی کام کرنا سیکھنا چاہتا ہے تو اسے حکومت تلنگانہ کی کارکردگی کا جانچ لینا چاہئے کیوں کہ غیر منصوبہ بندی سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اس سے حکمراں طبقہ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا صرف عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیابی ملتی ہے۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اب تک جتنے بھی اسکیمات اور پروگراموں و منصوبوں کا اعلان کیا ہے ان میں سے چند ہی پر کام ہورہا ہے۔ ماباقی اسکیمات اور منصوبے سرد خانے میں ڈال دیئے گئے یا کئی اسکیمات قانونی رکاوٹوں کا شکار ہوگئیں۔ عثمانیہ دواخانہ کو منہدم کرنے کا اعلان بعدازاں واپس لیا گیا۔
شہر میں آسمان کو چھونے والی بلڈنگیں بنانے کا اعلان معلق ہے۔ ملک پیٹ ریس کورس کی منتقلی، سکریٹریٹ کی تعمیر اور دیگر ایسے کئی پروگرام ہنوز فائیلوں میں ہی بند ہیں۔ موسیٰ ندی کو ترقی دینے کا پلان ابھی تیار ہی نہیں ہوا۔ نئے اضلاع کے قیام کا مسئلہ بھی قانونی عذر سے دوچار ہوچکا ہے کیوں کہ دستور کی (8 ویں ترمیم) قانون 2001 اور دستور کے (87 ویں ترمیم قانون) 2003 کی رو سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ تمام اسمبلی حلقوں میں ایک ضلع کے تحت ہی اس کے علاقائی حدود تک ہی محدود کردیا جانا چاہئے اور حکومت تلنگانہ اس قانون کو نظرانداز کرکے نئے اضلاع بنانے کا اعلان کیا تھا جب معلوم ہوا کہ یہ ممکن نہیں ہے تو نئے اضلاع کے قیام کا فیصلہ موخر کردیا گیا۔ اب عوام ہی سمجھ سکتے ہیں کہ ان کی پسندیدہ حکومت اور اس کے سربراہ کی پالیسیاں اور منصوبے آگے چل کر ان کا کس حد تک خیال رکھ سکیں گی۔ نئی ریاست کی تاریخ کا سب سے بڑا پانسہ یہ ہے کہ اس ریاست کے طلباء کو ایمسیٹ میں دھاندلیوں کے ذریعہ پریشان کردیا گیا اور حکومت کی ناک کا پانسہ ہی اُلٹ پلٹ ہوگیا ہے۔ یعنی حکومت کی ناک کے نیچے بدعنوانیاں ہوتی رہیں اور چیف منسٹر میٹھی نیند لیتے رہے۔ طلباء اور سرپرستوں کی نیند اُڑانے کے بعد بھی اگر چیف منسٹر محو خواب دکھائی دیئے تو پھر عوام کو کیا اختیار حاصل ہونا چاہئے وہ خود سوچ سکتے ہیں۔ میرے کالم کی تلخ تحریروں میں اگر سچائی نظر آئے تو اسے ضرور شیر کریں ورنہ منتخب حکومت نصف سے زیادہ مدت گزار چکی ہے۔ مابقی مدت بھی گزار دے گی اور آپ کی معیشت و معاشرت کے خدوخال یوں ہی بنتے بگڑتے رہیں گے۔ آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں عوام کی ضرورتوں کو ایک حمراں کے ذاتی مفادات کا یرغمال نہیں بنایا جاسکتا۔
kbaig92@gmail.com