عوام کی بنیاد ی سہولتیں نظر انداز، سیاحت پر توجہ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری         خیر اللہ بیگ
تلنگانہ حکومت آہستہ آہستہ اپنا رنگ اور اثر دکھارہی ہے۔ شہریوں کو راحت دینے اور 24گھنٹے برقی سربراہی کا وعدہ عوام کو سیاسی وعدہ ہی معلوم ہونے لگا ۔ موٹر رانوں کو تنگ کرنے کے دن بھی شروع کردیئے گئے ۔ ٹریفک اُصولوں اور ٹریفک جام کے مسئلہ کو دور کرنے پر توجہ دینے سے زیادہ موٹر سیکل سواروں اور موٹر رانوں کو ہراساں کرنے کی ٹریفک پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ ہیلمٹ کا لزوم ایک اچھی کوشش ہے مگر اس پردیانتداری سے شعور بیداری کے ساتھ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی بھی ذمہ داری ایمانداری سے ادا کی جائے تو حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔ اب پولیس اپنے ٹریفک کنٹرول کی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر موٹر سیکل رانوں اور موٹر سواروں کو چالانات کرنے میں مصروف ہوگئی ہے۔ حکومتوں کی کارکردگی کا حُسن یہ ہے کہ وہ اپنی حماقت والی کارکردگی کو بار بار دہراتی ہے۔ سابق حکومتوں نے جو غلطیاں کی تھیں اس کو بعد کی حکومتوں میں بھی دہرایا جائے تو عوام کو راحت نصیب نہیں ہوگی۔ اب تو تلنگانہ کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہوں نے جس حکومت کو دل و جان سے منتخب کیا ہے وہی ان کے دلوں کو توڑ رہی ہے۔
بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ انہیں حکومت اور اس کی کارکردگی کے بارے میں پیشگی علم تھا، ہم نے جان بوجھ کر دیدہ و دانستہ اس وقت خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی ہے کیونکہ جو کوئی حکومت کے خلاف آواز اُٹھائے گا اسے پھانسا جائے گا۔ مرکز کی مودی حکومت اپنے مخالفین کو سبق سکھارہی ہے تو تلنگانہ کی حکومت بھی اپنے مخالفین کے ساتھ وہی سلوک کرسکتی ہے۔ ہم سے جس بھیانک غلطی کا ارتکاب ہوچکا ہے اس پر چند دن تک خاموش رہنے میں ہی بہتری ہے۔ اس وقت کی سیاسی لیڈر شپ کی خامیاں اور کمزوریاں پوشیدہ ہیں، حکومت نے بظاہر عوام کے برقی بلوں، آبرسانی بقایا جات کو معاف کردیا۔ اچھا نظم و نسق فراہم کرنے کی کوشش کے ساتھ عہدیداروں کو بہتر کام کرنے کی ہدایت دی اور چیف منسٹر خود تلنگانہ کے حق میں مرکز سے فنڈس لانے میں ناکام رہے۔ مرکزی بجٹ میں تلنگانہ کو کوئی خاص مالیہ کی فراہمی کا وعدہ نہیں کیا گیا، اگر چیف منسٹر نے اس خصوص میں اچھا سا ہوم ورک کرکے مرکز سے نئی ریاست تلنگانہ کیلئے زیادہ سے زیادہ فنڈس جاری کرنے کی نمائندگی کی ہوتی تو عام بجٹ میں تلنگانہ کو اس کے حصہ کا فنڈ مل جاتا لیکن چیف منسٹر سال تمام اپنی دنیا میں ہی مگن رہے۔

تلنگانہ میں اس وقت انٹر میڈیٹ امتحانات چل رہے ہیں۔ اس ریاست کا تعلیمی منظر بتارہا ہے کہ حکومت ایک طرف نئے کالجس کے قیام کی اجازت دے رہی ہے تو دوسری طرف کئی کالجس میں طلباء کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ انجینئرنگ سے لیکر ہوٹل مینجمنٹ کے کورسیس سے تقریباً ہزاروں سیٹیں خالی ہیں اور حکومت خانگی غیرامدادی کالجس کے قیام کی اجازت دے رہی ہے۔ اس وقت ریاست میں تقریباً 791کالجس میں جہاں مختلف کورسوں میں 3,60,194 طلباء کی گنجائش ہے لیکن ان کالجس میں سال 2015-16 کے لئے صرف 1,91,714 طلباء نے ہی داخلہ لیا ہے۔ جن کالجس میں انجینئرنگ کے کورسیس کو بحران کا سامنا ہے ان میں آرٹس اینڈ کرافٹس کورسیس اور آرکیٹکچر کورس، فارماسویٹیکل سائینس، ہوٹل مینجمنٹ، ایم سی اے، مینجمنٹ اینڈ ٹاؤن پلاننگ کے کورسیس کوئی لینے تیار نہیں ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تلنگانہ میں ہر 55 طلباء کے لئے ایک کالج پایا جاتا ہے جبکہ ملک میں ایک لاکھ آبادی کے لئے ایک کالج کا ڈاٹا مقرر ہے۔ تعلیم کو عام کرنے کی مہم کے ساتھ ابتدائی تعلیم پر توجہ دینے والی مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے مستقبل میں طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے موقع پر درپیش مسائل کا اندازہ نہیں کیا ہے۔

مرکزی بجٹ سے مایوس چیف منسٹر تلنگانہ کو اپنی حکومت کے بجٹ کی تیاری کرنی ہے، وہ اپنے بجٹ میں ریاست کی آمدنی اور مصارف کا ڈاٹا کس طرح تیار کریں گے، یہ قابل نوٹ ہوگا۔ تلنگانہ میں آمدنی کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ شہر حیدرآباد ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے بعد حکمراں پارٹی ٹی آر ایس مضبوط ہوگئی ہے۔ جب کوئی چیز سخت یا مضبوط ہوجاتی ہے تو اس کے اندر تکبر اور گھمنڈ بھی وقت کے ساتھ فروغ پاتا ہے اور اس گھمنڈ کے ساتھ تیار کیا جانے والا تلنگانہ بجٹ عوام کے حق میں کس قدر راحت بخش ہوگا وہ بہت جلد منکشف ہوگا۔ فی الحال حکومت کی کارکردگی اور اس کے نتائج سے عوام بے خبر ہیں اور اس بے خبری کے عظیم مظاہرے پر یقیناً فخر بھی محسوس کررہے ہوں گے۔ لیکن عوام کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ تلنگانہ اس وقت ان کی محنت سے ہی معاشی خوشحالی میں اہمیت رکھتا ہے۔ برقی کی قلت کو دور کرنے کیلئے چیف منسٹر نے اقدامات ضرور کئے ہیں۔ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو حاصل ہونے والی مسلسل کامیابی کے بعد اب ورنگل اور کھمم میونسپل کارپوریشن انتخابات میں جو آج منعقد ہورہے ہیں‘ شاندار کامیابی کی توقع ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات کے بعد سے اپنی جیت کا ریکارڈ رکھنے والی ٹی آر ایس کو ضلع ورنگل کے تمام 55 ڈیویژنس میں کامیابی کا یقین ہے۔

ڈپٹی چیف منسٹر کڈیم سری ہری نے اپنے آبائی ضلع میں پارٹی کو مضبوط بنانے میں اہم رول ادا کیا جبکہ ضلع کھمم جو کبھی بائیں بازو پارٹیوں اور کانگریس کا مضبوط گڑھ مانا جاتا تھا وہاں ٹی آر ایس کی لہر چل رہی ہے اور ان دو اضلاع کے بعد اس کو سدی پیٹ اور ضلع میدک کے میونسپل کونسلس کے لئے انتخابات کروانے کی تیاری کرنی پڑے گی۔ میونسپلٹی انتخابات کے ذریعہ حکمراں پارٹی عوام کو بہتر بلدی سہولتیں بھی فراہم کرے تو اس کی کامیابی کا فائدہ عوام کو حاصل ہوگا۔ گریٹر حیدرآباد انتخابات میں کامیابی کے بعد ٹی آر ایس کے کارپوریٹرس پر عوام کی نظریں ہیں۔ لیکن حکومت کی اولین ترجیح سیاحت کو فروغ دینا معلوم ہوتی ہے اس لئے حیدرآباد اور تلنگانہ کے تاریخی مقامات کو تفریح کے قابل بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیر پنچایت راج اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے شہر حیدرآباد میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے خانگی طور پر ہیلی کاپٹر کی سیر کا پروگرام شروع کیا۔ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ہر خواہشمند شہری حیدرآباد کا فضائی مشاہدہ کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ حیدرآباد کوکئی بین الاقوامی کانفرنسوں اور تقاریب کے انعقاد کا بہترین مرکز بنایا جارہا ہے۔حکومت بھی ایونٹ آرگنائزیشن سے تعاون کرتے ہوئے جلدی جلدی اجازت نامے جاری کررہی ہے۔ حیدرآباد جہاں ہندوستان کا تیسرا ورلڈ ٹریڈ سنٹر تعمیر کیا جارہا ہے تو ممبئی اور بنگلور کے بعد حیدرآباد میں تجارتی اور سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹرس اس وقت 100ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔
kbaig92@gmail.com