تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے ان رائے دہندوں کے لیے یہ ساعتیں بہت مبارک ہیں ۔ جنہوں نے ٹی آر ایس کو دوبارہ اقتدار پر لانے کے لیے جوش و خروش سے ووٹ دیا ۔ بلا شبہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی کامیابی تلنگانہ عوام خاص کر مسلمانوں کے ووٹوں کی مرہون منت ہے ۔ ٹی آر ایس کے پاس اب اقتدار کے ساتھ ساتھ عوام کے بھر پور اعتماد کے ساتھ دئیے گئے ووٹوں کی امانت ہے ۔ ان ووٹوں کی امانت ہی نے ہم سب کے سامنے جو نتائج لائے ہیں اس میں حکمراں پارٹی کوئی خیانت نہ کرے تو آئندہ پانچ سال تک وہ عوام کی نور نظر ہی رہے گی ۔ عوام کے ووٹوں میں خیانت ہونے لگی تو پھر حکمراں پارٹی کے قومی عزائم میں سو چھید ہونے لگیں گے ۔ سیاسی وفا کی امید کے ساتھ ووٹ ڈالنے والوں کے سامنے یہ سوال بھی آیا ہے کہ ٹی آر ایس نے کانگریس کے ووٹوں کی چوری کی ہے ۔ اپنی پارٹی کی شکست کے بعد صدر پردیش کانگریس اتم کمار ریڈی کا پہلا ردعمل یہی تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے ۔ لہذا الیکشن کمیشن کو اس ووٹ کی چوری کی تحقیقات کرنی چاہئے ۔ اب ہارنے والااپنے اندر کی مایوسی کو دبانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اتنی توقعات یا توہمات کا طوفان کھڑا کرنے کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا ۔ ٹی آر ایس کو ذاتی طور پر تلنگانہ کی پارٹی ہونے کا اعزاز ہے ۔ اب اس پارٹی کی قیادت نے تلنگانہ کے ووٹ لے کر قومی سیاست میں رنگ جمانے یا رنگ میں بھنگ ڈالنے کا عزم کرلیا ہے ۔ مرکز میں اقتدار کا خواب دیکھنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن ریاست کے عوام کا اعتماد حاصل کر کے مرکز تک چھلانگ لگانے کا عزم راس آئے گا یا نہیں یہ تو آگے پتہ چلے گا ۔ تلنگانہ کے عوام نے کے سی آر کے مداح ہونے کا ثبوت دیدیا ہے جب کوئی کسی کا دل سے احترام کرے اور اس احترام کے عوض دھوکہ فریب اور بے وفائی بھی ملتی ہے تو عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ محبوب اور معشوق کا معاملہ ہی ایسا ہوتا ہے ۔ اب تو کے سی آر کے مداحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ اس پارٹی میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو با اثر تو ہیں یا الیکشن جیتنے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں مگر سیاستداں نہیں ہیں ۔ اسی طرح تلنگانہ پردیش کانگریس کی موجودہ ٹیم میں سب سیاستداں نظر نہیں آتے اس لیے وہ تلنگانہ میں پارٹی کو مضبوط بنانے میں ناکام رہے ۔ مہا کوٹمی کی ناکامی کے لیے بھی کانگریس کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔
سی پی آئی نے تو واضح طور پر کانگریس کو ہی قصور وار قرار دیا کیوں کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد اپنے امیدواروں کا اعلان کرنے میں کانگریس نے تاخیر کی ۔ جب کہ ٹی آر ایس قیادت نے اسمبلی تحلیل کرتے ہی اپنے 105 امیدواروں کا اعلان کیا اور یہ لوگ اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی مہم میں مصروف بھی ہوگئے ۔ کانگریس پردیش قیادت نے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرنے میں تاخیر کی جس سے ان امیدواروں کو اپنے حلقوں میں انتخابی مہم چلانے کا وقت بہت کم ملا ۔ عظیم اتحاد کے بعد جو مسائل پیدا ہوئے اس وجہ سے بھی مہا کوٹمی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ۔ کانگریس کے تعلق سے یہ بھی کہا جانے لگا کہ اس نے چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو سے اتحاد کر کے بہت بڑی غلطی کی ۔ اس سے تلنگانہ کا رائے دہندہ کانگریس سے شدید ناراض ہوگیا کیوں کہ تلنگانہ میں چندرا بابو نائیڈو کے تعلق سے کے سی آر نے تو جھوٹ پھیلا رکھا تھا ۔ وہ کام آگیا اور چندرا بابو نائیڈو کو تلنگانہ کا دشمن سمجھا گیا ۔ نتیجہ میں کانگریس کو چندرا گہن لگ گیا ۔
مہا کوٹمی کے پانچ مرغیوں میں ایک مرغا کیا کام کرسکتا تھا ۔ اس کا ثبوت انتخابات سے مل گیا ہے ۔ اس کے برعکس ٹی آر ایس حکومت کو اس کی ساڑھے چار سالہ کارکردگی سے زیادہ اس کی مقبول عام اسکیمات نے سہارا دیا ہے ۔ قیام تلنگانہ یا فخر تلنگانہ سے زیادہ عوام کو کے سی آر کی اسکیمات جیسے بیواؤں ، عمر رسیدہ افراد کو وظیفہ ، معذورین کو وظیفہ ، تنہا رہنے والی خاتون کو وظیفہ ، بافندوں کو مالیاتی راحت ، بیڑی ورکرس کو مالی امداد اور کلیان لکشمی یا شادی مبارک اسکیم کے ذریعہ غریب دلہن کو ایک لاکھ روپئے کی امداد نے ہی کے سی آر کو ہیرو بنادیا ۔ اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کانگریس اور بی جے پی نے بھی انتخابی منشور میں وعدے کیے مگر عوام نے ان دو پارٹیوں کے نئے وعدوں پر یقین نہیں کیا کیوں کہ ان کے سامنے پہلے ہی سے عملی طور پر ان اسکیمات کو کے سی آر نے روبہ عمل لاکر دکھایا تھا ۔ اس لیے عوام کو ان پر از خود پیار آگیا ۔ ایسے میں ان کے سامنے کوئی دوسرا امیدوار آکر ووٹ مانگے تو وہ کیسا محسوس ہوگا ۔ ہاں البتہ ان میں سے کئی ووٹرس نے نوٹ کے بدلے ووٹ کی مشق کرتے ہوئے اپنی جیب بھرلی اور ووٹ تو اسے ہی ڈالا جس پر پیار آگیا تھا ۔ اسی طرح یہ لوگ ووٹ جو قوم کی امانت ہوتی ہے اس میں خیانت بھی کی ۔ اب ایسے خیانت کا آغاز ووٹرس سے ہی ہوتا ہے تو پھر ان کے ووٹ لے کر اقتدار پر آنے والا لیڈر ان کے ووٹوں کی امانت میں خیانت کرتا ہے تو برداشت کرلیں گے ۔ ان کے حاسد ان کی حکومت پر اعتراض کریں گے ۔ اس سے حکومت کو کیا فرق پڑے گا ؟ کچھ نہیں ہوگا ۔ حکومت نے کئی وعدہ پورے نہیں کئے ۔ کیا اس سے کچھ فرق پڑا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ چند اسکیمات کی تشہیر اور چند پر عمل آوری کے ذریعہ عوام کو مطمئن کیا گیا ۔ ماباقی کئی اسکیمات جیسے مشن بھاگیرتا مکمل نہیں ہوا ۔ ہر گھر کو پانی کی سربراہی کا وعدہ پورا نہیں ہوا ۔ ڈبل بیڈ روم کے مکانات نہیں ملے ۔ مسلمانوں کو 12 فیصد بھی نہیں ملے ان سب وعدہ خلافیوں کے باوجود ٹی آر ایس کو لوگوں نے عزیز رکھا خود کے سی آر نے اعتراف کیا کہ ان کی اسکیمات کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ۔ لیکن اب وہ آئندہ پانچ سال کے دوران اپنے ماباقی وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ان کے رائے دہندے بھی یہی توقع کرتے ہیں کہ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر وہ تمام ادھورے کام پورے کریں گے اور اپوزیشن کو ان کی جامہ تلاشی کا موقع نہیں دیں گے ۔۔